فرخ منظور
لائبریرین
زیرِ چرخ و سرزمیں نہ رہے
مجھ کو کہتے ہیں تو کہیں نہ رہے
آج سجدوں کی انتہا کر دوں
شوق مٹ جائے یا جبیں نہ رہے
ہم اٹھائیں نہ گر ترے صدمے
آسماں کے تلے زمیں نہ رہے
عشرتِ وصل کے ہوں ہم قائل
آج یہ دل اگر حزیں نہ رہے
خاکساروں کا ذکر ہی کیا ہے
اس زمیں پر فلک نشیں نہ رہے
رہتی ہے کچھ روز اور بزمِ نشاط
مگر افسوس خود ہمیں نہ رہے
اس نہیں نے مجھے کیا برباد
کاش یہ آپ کی نہیں نہ رہے
جب سے دل بجھ گیا مرا مطرب
تیرے نغمے بھی دلنشیں نہ رہے
(صوفی تبسّم)
مجھ کو کہتے ہیں تو کہیں نہ رہے
آج سجدوں کی انتہا کر دوں
شوق مٹ جائے یا جبیں نہ رہے
ہم اٹھائیں نہ گر ترے صدمے
آسماں کے تلے زمیں نہ رہے
عشرتِ وصل کے ہوں ہم قائل
آج یہ دل اگر حزیں نہ رہے
خاکساروں کا ذکر ہی کیا ہے
اس زمیں پر فلک نشیں نہ رہے
رہتی ہے کچھ روز اور بزمِ نشاط
مگر افسوس خود ہمیں نہ رہے
اس نہیں نے مجھے کیا برباد
کاش یہ آپ کی نہیں نہ رہے
جب سے دل بجھ گیا مرا مطرب
تیرے نغمے بھی دلنشیں نہ رہے
(صوفی تبسّم)