زیر مطالعہ کتب سے اقتباس

قیصرانی

لائبریرین
اس دھاگے پر میں‌ اپنی زیر مطالعہ کتب میں‌ سے اپنی پسند کے مختصر اقتباسات پیش کروں گا۔ دیگر احباب کو بھی دعوت ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
کتاب کا نام: شکار شاہکار
مصنف: قمر نقوی
سال اشاعت: 2004
اقتباس کا صفحہ نمبر: 122

کسی قوم کی عظمت اس قوم کے آباؤ اجداد کی عظمت کے طفیل قائم نہیں‌ رہتی۔۔۔ مسلمان صرف اپنے آباؤ اجداد کے کارناموں کی تاریخ اور قصے سن کر ہی خوش ہو لیتے ہیں۔۔۔ ان کے کردار کی نقل کرنے سے قاصر ہیں۔ بڑے بڑے نام یاد ہیں۔۔۔ فلاں نے یہ کہا۔۔۔ فلاں‌ نے وہ کیا لیکن خود پھسڈی رہ گئے۔۔۔ امریکی اپنے آباؤ اجداد کی فکر اور افسانوں پر زندہ نہیں‌ ہیں۔۔۔ اس لئے کہ انہوں‌ نے اپنے زور بازو ۔۔۔ اپنی ذاتی صلاحیت اور استعداد کی بنیاد پر سب کچھ حاصل کیا ہے۔۔۔ آباؤ اجداد کا تو وجود ہی نہیں۔۔۔ ذکر کیسے آئے۔۔۔!
 

قیصرانی

لائبریرین
کتاب کا نام: شکار شاہکار
مصنف: قمر نقوی
سال اشاعت: 2004
اقتباس کا صفحہ نمبر: 122

سو سال پہلے ہی کی بات ہے، ان کا کردار اور عادات رہزنی، قتل اور بدکرداری سے مرتب تھی۔۔۔ جو ویسٹرن فلمیں‌ بنتی ہیں وہ ان کے کردار کی صحیح ‌عکاسی کرتی ہیں۔۔۔ لیکن ان میں‌ہی وہ لوگ بھی تھے جن کو ان بدکرداریوں سے نفرت تھی۔۔۔ جو چاہتے تھے کہ ملک و قوم پرامن اور باعظمت بن سکے۔۔۔ اور وہی ہوا۔۔۔ یہ لوگ اس طرح‌ملکی اور قومی ترقی میں‌ مشغول ہوئے کہ ساری دنیا سے آگے نکل گئے
 

قیصرانی

لائبریرین
کتاب کا نام: شکار شاہکار
مصنف: قمر نقوی
سال اشاعت: 2004
اقتباس کا صفحہ نمبر: 122

اور پاکستانی۔۔۔

خدا کی پناہ۔۔۔ چالیس سال میں‌ کوئی خاص۔۔۔ غیر معمولی کیا۔۔۔ معمولی ہی۔۔۔ ترقی اور بہتری کی صورت نظر نہیں آتی۔۔۔

وسائل نہیں‌ ہیں۔۔۔؟

وسائل آسمان سے من و سلویٰ کی شکل میں تو کبھی نہیں‌ اُترتے۔۔۔ وسائل پیدا کئے جاتے ہیں
 

قیصرانی

لائبریرین
کتاب کا نام: شکار شاہکار
مصنف: قمر نقوی
سال اشاعت: 2004
اقتباس کا صفحہ نمبر: 250

غالباً مسلمان کی زندگی خوف سے ہی عبارت ہے۔۔۔

والدین کا خوف۔۔۔ استادوں کا خوف۔۔۔ ملازمت کا خوف۔۔۔ افسروں‌ کا خوف۔۔۔ اور پھر اگر دل میں‌ ایمان کی کوئی تھوڑی بہت رمق ہو تو اللہ کا خوف۔۔۔۔

اور ان سب پر مستزاد۔۔۔ مارشل لاء کا خوف۔۔۔ وہ مارشل لاء جو قوم پر بار بار اس لئے مسلط ہو جاتا ہے کہ پاکستان کے لوگ صرف بندوقوں اور ٹینکوں کی زد میں رہ کر ہی کسی قدر آدمیت اختیار کرتے ہیں۔۔۔ ورنہ سیاستدان تو اپنی بازی گری دکھانے سے باز نہیں آتے۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
کتاب کا نام: شکار شاہکار
مصنف: قمر نقوی
سال اشاعت: 2004
اقتباس کا صفحہ نمبر: 18

بعض ساستدانوں کی عمروں‌ میں بھی اللہ نے بڑا طول دیا ہے۔۔۔ اور یہ طول العمر قسم کے لوگ "گھر" کی بنیادیں اکھاڑنے کا "فریضہ منصبی" نہایت انہماک کے ساتھ ادا کئے جا رہے ہیں۔۔۔ اور بے خطر دندناتے پھرتے ہیں۔۔۔ نجانے حکومت ان کو پکڑ کر ایک بار ہی "ہنگام محشر" کی راہ پر کیوں نہیں لگا دیتی۔۔۔ کہ نہ مرض رہے نہ مریض۔

وہ تو "گھر" ہی کچھ ایسا "سخت جان" ہے کہ ان "طول العمر" کی بیخ‌ کنی کے باوجود بھی قائم رہتا ہے۔ اللہ اس کو قیامت تک رکھے بلکہ۔۔۔ بعد قیامت بھی جنت الفردوس کا ایک حصہ اس کو بنا دے۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
کتاب کا نام: شگوفے
مصنف کا نام: شفیق الرحمان

اختر کے کہنے پر میں طرح طرح‌ کی حماقتیں‌کر چکا تھا۔ ہم دونوں نے مشورہ کر کے ابا جان کی سنہری گھڑی کیاری میں بو دی۔ اختر کا خیال تھا کہ پودے میں پہلے تو ننھی ننھی گھڑیاں لگیں گی۔ پھر ٹائم پیس لگیں گے اور جب پودا بڑا ہو کر درخت بن جائے گا تو تب کلاک لگیں گے۔ لیکن باوجود ایک ماہ کی دیکھ بھال اور پانی دینے کے کچھ بھی نہ ہوا
 
کتاب: مکاشفۃ القلوب
مصنف: امام محمد غزالی رضی اللہ تعالٰی عنہ
باب 87: علم اور علماء کی فضیلت
اس سلسلہ میں بہت ہی کثرت سے احادیث وارد ہیں جنانچہ حضورﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی جس شخص سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ دیتا ہے اور اسے راہ راست کی ہدایت فرماتا ہے ۔ نیز ارشادِ گرامی ہے کہ علماء ، انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے وارث ہیں اور یہ بدیہی بات ہے کہ انبیاء کرام سے بڑھ کر کسی کا رتبہ نہیں اور انبیاء کرام کے وارثوں سے بڑھ کر کسی وارث کا مرتبہ نہیں ہے۔
فرمان نبوی ہے کہ سب لوگوں سے افضل وہ مومن عالم ہے کہ جب اس کی طرف رجوع کیا جائے تو وہ نفع دے اور جب اس سے بے نیازی برتی جائے تو وہ بھی بے نیاز ہوجائے۔ نیز ارشاد فرمایا کہ مرتبہ نبوت سے سب سے زیادہ قریب، عالم اور مجاہد ہیں، علماء اس لئے کہ انہوں نے رسولوں کے پیغامات لوگوں تک پہنچائے اور مجاہد اس لئے کہ انہوں نے انبیاء کرام کے احکامات کو بزورِ شمشیر پورا کیا اور ان کے احکامات کی پیروی کی، مزید ارشاد ہے کہ پورے قبیلہ کی موت ایک عالم کی موت سے آسان ہے۔ اور فرمایا کہ قیامت کے دن علماء کی سیاہی کی دواتیں شہداء کے خون کے برابر تولی جائیں گی۔
حضورصلی اللہ علیک وسلم کا فرمان ہے کہ عالم علم سے کبھی سیر نہیں ہوتا یہاں تک کہ جنت میں پہنچ جاتا ہے ، مزید فرمایا کہ میری امت کی ہلاکت دو چیزوں میں ہے ، علم کا چھوڑنا دینا اور مال جمع کرنا۔ ایک اور ارشاد ہے کہ عالم بن یا معلم ، یا علمی گفتگو سننے والا یا علم سے محبت کرنے والا بن اور پانچواں یعنی علم سے بغض رکھنے والا نہ بن کہ ہلاک ہوجائیگا۔
حکماء کا قول ہے کہ سرداری کے حصول کے لئے علم حاصل کرتا ہے وہ توفیق اور رعیت داری کا احساس کھو دیتا ہے ۔ فرمانِ الٰہی ہے:
ساصرف عن ایتی الذین یتکبرون فی الارض بغیر الحق۔ (پ۹، العراف: آیت ۱۴۲ )
اور ترجمہ کا بھی یہی حکم ہے۔ اور میں اپنی آیتوں سے انہیں پھیردونگا جو زمین میں ناحق اپنی بڑائی چاہتے ہیں۔
حضرت شافعی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جس نے قرآن کا علم سیکھا اس کی قیمت بڑھ گی، جس نے علم فقہ سیکھا اس کی قدر بڑھ گئ، جس نے حدیث سیکھی اس کی دلیل قوی ہوئی، جس نے حساب سیکھا اس کی عقل پختہ ہوئی، جس نے نادر باتیں سیکھیں اس کی طبیعت نرم ہوئی اور جس شخص نے اپنی عزت نہیں کی اسے علم نے کوئی فائدہ نہ دیا۔
حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا ارشاد ہے کہ جو شخص علماء کی محفل میں اکثر حاضر ہوتا ہے اس کی زبان کی رکاوٹ دور ہوتی ہے ، ذہن کی الجھنیں کھل جاتی ہیں اور جو کچھ وہ حاصل کرتا ہے اس کے لئے باعثِ مسرت ہوتا ہے ۔ اس کا علم اس کے لئے ایک ولایت ہے اور فائدہ مند ہے۔
فرمانِ نبوی ہے کہ اللہ تعالٰی جس بندے کو رد کردیتا ہے ۔ علم کو اس سے دور کردیتا ہے ، ایک اور ارشاد میں ہے کہ جہالت سے بڑھ کر کوئی فقر نہیں ہے ۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبارکۃ
والصلوۃ والسلام علیک وآلک واصحابک یا رسول اللہ
 

حماد

محفلین
صدیوں کی خرابی کے بعد جو باتیں اب سمجھ میں آنی شروع ہوئ ہیں، میکاویلی سولہویں صدی میں سمجھ گیا تھا۔ اسکی کتاب پر جو لعن طعن ہوئ اسکا سیدھا سادہ سبب یہ تھا کہ وہ سچ بولا تھا۔ یوں نہ ہوتا تو عیسی کے مجسموں کے پیروں پر رکھی جانے والی جبینوں پر اتنی شکنیں نہ آتی۔
میکاویلی نے تو صرف اٹلی کی خانہ جنگیاں دیکھی تھیں، اگر وہ ہمارے مغل شہزادوں کی گردنیں قطع ہوتے دیکھتا، زنجیروں میں جکڑے ہوئے شہزادوں کو ہاتھیوں کی ننگی پشت پر دیکھتا۔ تاج داروں کو قلعوں میں نظر بند ہو کر حسرت سے مزاروں پر نگاہ کرتے دیکھتا اور منبروں سے جاری ہونے والے فتوے سن پاتا تو کانوں کو ہاتھ لگاتا، پہلے اپنی کتاب جمنا میں پھینکتا اور پھر اپنے وجود کو۔
حیرت ہوئ کہ لوگوں نے میکاویلی کو شیطان کہا۔
کتاب۔ جانے پہچانے
مصنف۔ رضا علی عابدی
 

حماد

محفلین
گالی سن کر بلکہ یوں کہئے کہ لفظ "گالی" سن کر ہمیں تین حضرات بری طرح یاد آتے ہیں۔ ایک گورنر جنرل غلام محمد، دوسرے راز مراد آبادی اور تیسرے ساقی فاروقی۔

ساقی نہ تو باغی ہیں، نہ جھگڑالو ہیں، یہ لڑاکا بھی نہیں اور یہ بھی درست نہیں کہ کوئ اور نہ ملے تو یہ خود سے لڑتے ہیں۔ ساقی بہت آگے تک دیکھنے والے انسان ہیں اور جب محسوس کرتے ہیں کی جہاں تک ان کی نگاہ جاتی ہے وہاں دوسروں کی کی نظر نہیں پہنچتی تو یہ اس نظر کی کوتاہی کو مارنے دوڑتے ہیں۔ پورب کے گاؤں دیہات میں لوگ جب ماؤں سے پوچھا کرتے تھے کہ تمھارا لڑکا اب کتنا بڑا ہو گیا تو وہ خوش ہو کر بتایا کرتی تھیں کہ گالیاں دینے لگا ہے۔
ساقی کا قصہ بھی یہی ہے کہ یہ بڑے ہو گئے ہیں۔


کتاب۔ جانے پہچانے
مصنف۔ رضا علی عابدی
 

Rashid Ashraf

محفلین
جستجو کیا ہے (خودنوشت: انتظار حسین) -تقسیم کے بعد کا لاہور

تو میں انتظار حسین، اولا" پناہ گیر ثم مہاجر جب منہ اندھیرے اسپیشل ٹرین سے مغلپورہ اسٹیشن پر اترا تو نقد دم ہاتھ میں ایک بیگ ، اسٹیشن سے نکل کر ایک نقل مکانی کرنے والے خاندان کے پیچھے چلتا ہوا ایک ایسے کوچے میں پہنچا جو اجڑ کر اب پھر سے آباد ہو چلا تھا۔ کرشن نگر اس کوچہ کا نام تھا۔

تو میرا پہلا پڑاؤ اس کوچے کے ایک گھر میں ہوا۔ جو شخص اب سے ڈھائی تین ہفتے پہلے آکر اس گھر میں مہمان ہوا تھا، میں اس کا مہمان بن کر یہاں آن اترا یعنی عسکری صاحب اپنے چچا زاد یا پھوپھا زاد یا خالہ زاد بھائی کے مہمان اور میں ان کا مہمان یعنی مہمان در مہمان۔ ان دنوں اسی رنگ سے مہمانیاں چل رہی تھیں۔ کوئی ایک قافلہ ہرج مرج کھینچتا، مرتا کھپتا، خاک دھول میں رلتا شہر میں آن وارد ہوتا۔ لاہور شہر میں وارد ہونے والے یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے کہ یہاں محلے کے محلے خالی پڑے تھے اور ان کے خالی ڈھنڈار مکان نوواردوں کا جیسے انتظار کررہے تھے کہ بس گھر میں پڑے تالے کو توڑو اور ساز و سامان سے بھرے گھر میں بلا تکلف بس جاؤ۔ مت سوچو کہ وہ کون لوگ تھے جو سروں پر منڈلاتی قیامت کو سونگھ کر اچانک دامن جھاڑ کر کھڑے ہوئے اور اپنا بھرا گھر چھوڑ کر نکل بھاگے۔ مت دھیان دوڑاؤ کہ اب وہ بے گھر کن راہوں میں بھٹک رہے ہوں گے۔ بس اپنے کام سے کام رکھو۔ رب کا شکر ادا کرو کہ تم ایک جمے جمائے گھر میں آن براجے ہو۔

ویسے تو میں ایک بھرے بکس اور ایک بستر کے ساتھ گھر سے نکلا تھا مگر وہ بکس اور وہ بستر تو سامان والے ڈبے میں رہ گیا۔ میں حق دق کہ ارے یہ تو سر منڈاتے ہی اولے پڑے۔ ہاتھی معہ ہودا غائب۔ جب رات ہوئی تو خدا یاد آیا۔ یہ ٹھنڈی رات بغیر لحاف کیسے گزرے گی

خیر کوئی بات نہیں۔ پہلی رات جیسے تیسے گزر گئی۔ اگلی صبح عسکری صاحب نے ٹہوکا کہ چلو لنڈا بازار۔ پوچھا یہ کیسا بازار ہے، وہاں جانا اور اتنی عجلت میں، کیا ضرور ہے
انہوں نے بتایا کہ اس بازار میں پہننے، اوڑھنے اور برتنے کا سارا سامان سیکنڈ ہینڈ سستے داموں ملتا ہے۔ وہاں سے دو کمبل خرید لیں گے، لحاف کا نعم البدل، پھر رات کو مزے سے سونا۔

پھر یہی کیا۔ لنڈے بازار کی سیر کی۔ ہر مال کوڑیوں کے مول۔ دو کمبل خریدے۔ وہ بھی سمجھو کوڑیوں کے مول ہی خریدے۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
پروفیسر مکر جی-انتظار حسین کی "جسجتو کیا ہے" سے منتخب کردہ

یہ اس برس کی بات ہے جب ہندوستان چھوڑ دو تحریک چلی تھی۔ شہر شہر ہنگامے ہورہے تھے۔ میرٹھ کیسے بچا رہتا۔ وہ بھی اس کی زد میں آگیا۔ اردگرد ہندوستان چھوڑ دو کے نعرے لگ رہے تھے۔ لاٹھی چارج، آنسو گیس، گرفتاریاں مگر میرٹھ کالج میں امن و امان تھا۔ بس ایک صبح کالج کے کسی گوشے میں یہ نعرہ بلند ہوا۔ سمجھو کہ جیسے کسی نے بھس میں چنگاری پھینک دی۔ آگ فورا ہی بھڑک اٹھی۔ کلاسوں سے لڑکے بھرا کھا کر نکلے۔ نعرہ بازی شروع ہوگئی۔ کسی نے گھما کر پتھر مارا اور ایک کمرے کے کسی دریچے کے شیشے چکنا چور ہوگئے۔ بس پھر دروازوں، دریچوں کے شیشے چکنا چور ہوتے چلے گئے۔ جب ہجوم کسی طور قابو نہ آیا تو پولیس طلب کرلی گئی۔

مگر پولیس کے آنے سے پہلے میرٹھ کے جانے مانے لیگی رہنما ڈاکٹر اشرف کالج آن پہنچے۔ مسلمان طلباء میں جو لیڈر قسم کی مخلوق تھا، اسے ہدایات دیں اور چلے گئے۔ میں نے اردگرد نظر ڈالی تو دیکھا کہ مسلمان طلباء بھاگنے کے بجائے لپک جھپک پرنسپل چٹر جی کے گرد جمع ہورہے ہیں۔ میں بھی ان میں جا شامل ہوا۔ آگے آگے جو گھڑ سوار تھا، اس نے اپنے دستہ کو ہدایت دی کہ کرلو انہیں گرفتار۔ مگر چٹر جی بیچ میں آگئے

"" نہیں انہیں نہیں۔ یہ میرے بچے ہیں""

سو رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت

کالج بند ہوگیا مگر پروفیسر مکرجی کلاس سے اپنی بے تعلقی کو زیادہ دن برداشت نہ کرسکے، جلد ہی اس جمود کو توڑا اور کلاس لینا شروع کردی۔ آج یوں ہوا کہ کہ انگریزی شاعری کے نئے رجحانات پر بات کرتے کرتے کہیں ایزرا پاؤنڈ کا حوالہ آگیا۔ لیجیے پھر ایزرا پاؤنڈ پر ہی رواں ہوگئے۔ یہ دھیان ہی نہیں رہا کہ ایزرا پاؤنڈ تو کورس میں شامل ہے ہی نہیں۔ ذرا وقفہ آیا تو ایک طالب علم ڈرتے ڈرتے کھڑا ہوا اور جھجھکتے ہوئے بولا:
سر ایزرا پاؤنڈ ہمارے کورس میں نہیں ہے

بس مکر جی کے تن بدن میں آگ لگ گئی
کورس ? میں کورس نہیں پڑھاتا، تمہیں انگریزی ادب پڑھاتا ہوں
یہ کہا، سامنے رکھی کتاب کہنے والے طالب علم کی طرف پھینک کر ماری اور بھنا کر باہر نکل گئے۔
کلاس ہکا بکا کہ یہ کیا ہوا۔

اگلے دن کلاس میں طلباء سب موجود، مکر جی غائب۔ بہت انتظار کیا مگر بے سود۔ تب طلباء کو احساس ہوا کہ مکر جی کچھ زیادہ ہی خفا ہوگئے ہیں۔ اگلے دن طلباء کی ایک ٹولی ان کے گھر پہنچی۔ منت سماجت کی، روٹھے ہوئے کو منایا اور کلاس میں لے کر آئے

یہ تھے ہمارے پروفیسر مکر جی
 

Rashid Ashraf

محفلین
روایت ہے کہ مشہور خفاش قدرت و نقاش فطرت میاں ایم اسلم علامہ اقبال سے اپنی پہلی ملاقات کا احوال بیان کررہے تھے

"" ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ کالے کالے بادل چھائے ہوئے تھے۔ اودی اودی مرغیاں اپنے چمپئی چمپئی دڑبوں کی طرف محو خوام تھیں۔ شام کاذب جیسے دوشیزہ کا راتب ہونے والی تھی۔ لاہور کی گلیوں میں جوان جوان بیوائیں یتیمانہ چہل قدمی کررہی تھیں، غرض یہ کہ میں ان کے حرماں نصیب گلابی گلابی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور شہابی شہابی ۔ ۔ ۔ ۔ سے نگاہیں بچاتا اور ان کی اور اپنی تقدیر پر کڑھتا علامہ کے دولت کدے تک پہنچا جو میرے تینوں غریب خانوں کے مقابلے میں خاک نہیں تھا۔ اور صحیح معنوں میں غریب خانے کا اطلاق ایسے ہی مکانوں پر ہونا چاہیے۔ دیکھا کہ حضور علامہ، مغربی دیوار کی طرف منہ کیے، کمرے کے بیچوں بیچ اپنی کھری چارپائی پر لیٹے اپنا اسلامی تہمد پہنے ہوئے، قوم کی فکر میں پیچواں گڑگڑا رہے ہیں۔ ہر کش پر سُلفے کی لاٹ چلم سے نکل کر فضاؤں میں بٹی ہوئی رسی کی طرح روشندان سے نکل کر عربستان کی طرف چلی جاتی ہے۔ میں ادھر چٹائی پر پہروں کنگارو کی طرح اکڑوں بیٹھا رہا۔ وہ ادھر کسی مسیحا کی طرح حقے کی نے ہونٹوں میں دبائے لیٹے رہے۔ گاہے گاہے اس ناطق زمانہ کے سامنے وہ بے جان بولتا رہا۔ ناگہاں علامہ مجھ سے مخاطب ہوئے

میاں کچھ لکھتے لکھاتے ہو ?
ان کی پاٹ دار، پروقار آواز، سبحان اللہ۔ یوں محسوس ہوا کہ کوئی مومن شاہیں کسی مردود نو مسلم پر جھپٹ کر پلٹ گیا۔ میں گھگیاتے ہوئے ہکلایا کہ کیا میرا مقدور کہ آپ کے سامنے زباں کھولوں
فرمایا کھولو کھولو کہ اللہ نے دہن صرف کھانے پینے اور ڈکار لینے کے لیے نہیں بنایا
میری کیا مجال کہ حکم عدولی کرتا۔ تابڑ توڑ دو نظمیں داغ دیں کہ اس زمانے میں صرف نظمیں لکھتا تھا۔ علامہ یکایک مراقبے میں چلے گئے۔ عرصہ بعد لوٹے تو اتنا کہا:
میاں نثر کی طرف توجہ کیوں نہیں کرتے

بس وہ دن ہے اور آج کا دن ہے، میں نے نظم نہیں چھوئی اور دما دم ناولوں کے انبار لگاتا چلا گیا۔
""
لاہور کہ کبھی عالم میں انتخاب ہوا کرتا تھا، وہاں کے شاعر و صورت گر افسانہ نویس نہایت صبر سے میاں ایم اسلم کی لن ترانیاں سہتے رہے کہ ان کے پیٹ انواع اقسام کی نعمتوں سے اور کان 444 صفحات کے ناول سے بھرے ہوئے تھے مگر اس سے پہلے کہ یہ زاغ مسلم بن اسلم اپنے نئے ناول کا پلاٹ سناتا، ایک نابغہ روزگار بولا:

میاں صاحب! کاش آپ علامہ کو نثر کے بھی دو صفحے سنا آتے۔
تس پر یہ بساط الٹی اور محفل درہم برہم ہوئی!
 

Rashid Ashraf

محفلین
محترم جمیل یوسف کی آب بیتی لاہور کے جریدے الحمراء میں قسط وار شائع ہورہی ہے، الحمراء کے تازہ شمارے میں اس کی 38 ویں قسط شائع ہوئی ہے۔ چند اقتباسات پیش خدمت ہیں:
خیر اندیش-راشد اشرف

نصرت چوہدری جس کے انتقال پر ملال کو اب تقریبا دو برس گزر چکے ہیں، پرویز بزمی کا بچپن کا کلاس فیلو تھا۔ دونوں نے شاعری اسکول کے زمانے میں شروع کی تھی۔ نصرت بڑا بانکا، البیلا اور سجیلا شاعر تھا، وہ ایک درویش صفت، رند مشرب اور گوشہ نشین شاعر تھا۔ جس مشاعرے میں اپنا کلام سناتا، مشاعرہ لوٹ لیتا، سامعین ہمہ تن گوش ہوجاتے۔ میں نے اسے ایک مشاعرے میں پہلی مرتبہ سنا اور اس کا یہ شعر ذہن میں نقش ہوگیا، اب تک کہ پچاس سال (2011) گزر چکے ہیں، اس کا نقش دھندلا نہیں پڑا:

مجھے کچھ فیصلے لکھنے ہیں اس میں
کتاب گردش ایام لاؤ

نصرت کا یہ شعر میں نے ڈاکٹر خورشید رضوی سے کئی بار سنا ہے:

دیا جلنے لگا ہے اس دریچے کی طرف دیکھو
مری منزل یہی ہے، کارواں ٹھہرایا جائے

نصرت چودھری کی یاد تازہ کرنے کی غرض سے اس کے چند اشعار یہاں لکھنے کو جی چاہ رہا ہے:

لفظوں کے بیچتا ہوں پیالے خرید لو
شب کا سفر ہے کچھ تو اجالے خرید لو
مجھ سے امیر شہر کا ہوگا نہ احترام
میری زبان کے واسطے تالے خرید لو


اخگر سرحدی سرگودہا کے ایک بزرگ کہنہ مشق شاعر تھے۔ وہ انجمن ترقی اردو سرگودہا کے بانی اور صدر تھے۔ اپنی منڈلی شہر میں ایک جگہ الگ جما رکھی تھی، ان کا ایک شعر مجھے یاد رہ گیا ہے:

قدم لینے ہوائے دشت و ویرانہ نہیں اٹھی
کسی سے زحمت توقیر دیوانہ نہیں اٹھی

ایک زمانہ تھا کہ سرگودھا کے شاعر سید الطاف مشہدی کی شہرت کا ڈنکا پورے برصغیر کی ادبی محفلوں اور مشاعروں میں بج رہا تھا۔ کوئی شماعرہ ان کے بغیر مکمل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ جس طرح جوش کو شاعر انقلاب اور اختر شیرانی کو شاعر رومان کہا جاتا تھا اسی طرح الطاف مشہدی کے ساتھ شاعر شباب کا خطاب سج گیا تھا۔ الطاف مشہدی کی شہرت و مقبولیت کا یہ زمانہ 1945 سے شروع ہو کر لگ بھگ 1965 اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا۔ جب میں 1972 میں سرگودہا پہنچا تو لوگ ان کے نام اور کلام کو طاق نسیاں پر رکھ چکے تھے، کبھی کبھی اہل ذوق کی زبان سے ان کا وہ قطعہ سننے کو مل جاتا تھا جس کا آخری مصرعہ ہے:

پتہ بھی نہیں ہلتا بغیر اس کی رضا کے

ان دنوں وہ حیات تھے لیکن خرابی صحت کی بنا پر صاحب فراش تھے، میں نے ان سے ملنے کی کوشش کی مگر پتہ چلا کہ ان سے ملاقات مشکل ہے۔ بدقسمتی سے وہ بھی عدم کی طرح بادہ نوش ہی نہیں بلکہ بسیار نوش تھے۔ سرگودہا میں شراب کی دکان کا ٹھیکہ انہی کے پاس تھا۔ پیہم اور روز کی مے نوشی نے ان کی صحت کو تباہ کردیا تھا اور اب عدم کی طرح ان کے بھی شب و روز ان کے اہل خانہ کی کڑی نگرانی میں بسر ہورہے تھے۔ وہ کسی شاعر کو ان سے نہیں ملنے دیتے تھے۔ ایک شام کیا ہوا کہ نیاز صوفی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یار چلو! آج الطاف مشہدی کے یہاں مشاعرہ ہے۔
میں نے پوچھا یہ کیسے ممکن ہوا
صوفی نے جواب دیا: اس کا تو مجھے علم نہیں لیکن یہی اطلاع ملی ہے کہ آج ان کے گھر مشاعرہ ہورہا ہے
اتنے میں صوفی فقیر محمد بھی آگئے اور یہی خبر لائے۔
ہم تینوں الطاف مشہدی کے گھر روانہ ہوئے۔ ان کے گھر کے باہر کھلی جگہ پر ایک بڑا سا خیمہ نصب تھا، کچھ دیر میں مشاعرہ شروع ہوگیا مگر الطاف مشہدی نظر نہ آئے۔ معلوم ہوا کہ ان کی صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ گھر سے باہر آکر مشاعرے میں بیٹھیں۔ وہ اپنی چارپائی پر لیٹے لیٹے ہی دریچے سے مشاعرے کا نظارہ کرتے رہیں گے۔ ان کے داماد نے بتایا کہ سید الطاف مشہدی کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ ان کے سامنے آخری مرتبہ ایک بار مشاعرے کی بساط بچھائی جائے اور وہ اپنی آنکھوں سے مشاعرہ ہوتے دیکھیں۔
مشاعرے کے بعد ہم ان کو سلام کرنے اور ان کا دیدار کرنے ان کے کمرے میں گئے۔ ایک بھاری بھرکم شخصیت بستر پر دراز تھی۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں آنسو تھے۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
گیارہ دسمبر، 2011- اتوار بازار- ایک کتاب بعنوان "راہ گزر"

کتابوں کے اس میلے میں کیسی کیسی فراموش کردہ کتابیں آتی ہیں، مصنفین ایسے کہ آج نام لیجیے تو کوئی واقف نہ نکلے
راہ گزر کے عنوان سے ایسی ہی ایک کتاب آج کے بازار کا حاصل رہی
اس کے مصنف خورشید برنی نے اسے نومبر 1987 میں پاکپتن سے شائع کروایا، طباعت نقوش پریش لاہور کی اور کتابت کرنے والے منظور احمد فریدی، ساہیوال کے رہائشی۔
یاداشتوں اور خاکوں پر مبنی اس کتاب کے مصنف بہاولپور کے ایک چھوٹے سے شہر منچن آباد میں مقیم رہے، انہوں نے اپنی حیات کا سفر جس راہ گزر پر طے کیا، وہ منچن آباد ہی سے گزرتی تھی
شہر تو انسانوں سے عالم وجود میں آتا ہے، ان انسانوں سے جو کسی مقام پر اپنا مسکن بنالیتے ہیں، کسی ویرانے میں قدم رکھیں تو گلزار کھلا دیں، کسی بیاناں، کسی کہسار، کسی صحرا میں اپنا نقش قدم چھوڑ دیں. ہر شہر کی ایک علاحدہ خوشبو ہوتی ہے اور یہ خوشبو وہاںکے در و بام اور سنگ و خشت سے نہیں پھوٹتی بلکہ شہر کے مکینوں کی سیرت میں آباد ہوتی ہے۔
آزادی کے بعد کا بہاولپور، دھول مٹی میں اٹا ہوا، لوگ سرشام سو جانے والے، خورشید برنی کسی سے اردو بولنے کے لیے ترس ترس جاتے تھے . جیسا بھی تھا، جو بھی تھا، منچن آباد ہی خورشید برنی کے لیے صورت فردوس تھا۔ کچھ عرصے کے لیے وہ راجن پور میں بھی مقیم رہے
ریڈیو ان دنوں بجلی سے چلتے تھے اور بجلی ان جگہوں میں دستیاب نہ تھی، اس پر مستزاد وہاں کے قوی الجثہ اور دراز قد مچھر، گرمی اور برسات میں سونا محال، پورے ضلع میں کوئی برف خانہ نہ تھا، برف ملتان سے آتی تھی اور راجن پور میں ایک روپے سیر ملا کرتی تھی۔ اس وسیع و عریض خطے میں کوئی ریلوے لائن نہ تھی۔ مئی جون کے مہینوں میں آتھ دس تازہ گھڑے بھیگی ہوئی ریت پر رکھ کر پانی کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ سرکاری افسر اس جگہ کو کالا پانی کہا کرتے تھے۔
ان ہی دنوں ایک "شاعر نما انسان" کا وہاں سے گزر ہوا تو مصنف فرط مسرت س جھوم اٹھے، شاعر صاحب راستہ بھول کر ادھر آن نکلے تھے، مصنف کی بے کیف زندگی میں گویا بہار آگئی
سور کا شکار، اس خطے کے باسیوں کا پسندیدہ مشغلہ تھا، کئی کئی روز شکار کی تلاش میں گزر جاتے تھے۔ کسی ندی کے دامن میں کھانا کھایا جاتا ۔ ۔ مٹر قیمہ، اچار، چپڑی ہوئی روٹیاں اور پراٹھے
 

قیصرانی

لائبریرین
مشتاق احمد یوسفی کی کتاب چراغ تلے سے اقتباس

مولانا ابوالکلام آزاد اپنا سن پیدائش اس طرح بتاتے ہیں:
"یہ غریب الدیار عہد نا آشنائےعصر بیگانہ خویش نمک پرودہ ریش خرابہ حسرت کہ موسوم بہ احمد مد عو بابی الکلام 1888ءمطابق ذوالجحہ 1305 ھ میں ہستی عدم سے اس عدم ہستی میں وارد ہوا اور تہمت حیات سے مہتم۔
اب لوگ اس طرح نہیں لکھتے۔ اس طرح پیدا بھی نہیں ہوتے۔ اتنی خجالت طوالت و اذیت تو آج کل سیزیرین پیدائش میں بھی نہیں ہوتی (اسی طرح نو طرز مرصع کا ایک جملہ ملاحظہ فرمائیے:
"جب ماہتاب عمر میرے کا بدرجہ چہار دو سالگی کے پہنچا روز روشن ابتہاج اس تیرہ بخت کا تاریک تر شب یلدہ سے ہوا یعنی پیمانہ عمر و زندگانی مادر و پدر بزرگوار حظوظ نفسانی سے لبریز ہو کے اسی سال دست قضا سے دہلا۔
کہنا صرف یہ چاہتے تھے کہ جب میں چودہ برس کا ہوا تو ماں باپ فوت ہو گئے۔ لیکن پیرایہ ایسا گنجلک اختیار کیا کہ والدین کے ساتھ مطلب بھی فوت ہو گیا)۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
نوشاد علی لکھنوی کی خودنوشت سے:

لکھنؤ کا سفر بہت عرصے بعد اختیار کیا تھا۔ اداس دل کے ساتھ لکھنؤ پہنچا۔ ہمارے گھر کے پڑوس میں ایک پنڈت جی رہتے تھے۔ پنڈت جی نے میری حالت دیکھی تو تو مجھ سے کہا: ’’ آج کل حضرت وارث علی شاہ کا عرس اور میلہ چل رہا ہے۔ وہاں ہو آؤ۔‘‘

میں دیوا شریف پہنچا تو کلکٹر صاحب اپنی کار لیے موجود تھے۔ میں کار کے ذریعے سفر کررہا تھا اور میرا بچپن میرا تعاقب کررہا تھا۔ بیتے دنوں کی ایک ایک بات یاد آرہی تھی۔بچپن میں جس بانسری والے کی بانسری سنی تھی ، اس کی جگہ اس کا بیٹا بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔
’’ چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا ‘‘ غزل گانے والے استاد نصیر خان صاحب کی جگہ دوسرا گویا بیٹھا ہوا تھا۔ برگد کا پرانا درخت جوں کا توں اپنی جگہ کھڑا تھا۔ میں نے فاتحہ پڑھی اور اسی رات لکھنؤ واپس آگیا۔ جب میں غیر متوقع طور پر رات ہی کو واپس آگیا تو پنڈت جی کو بڑی حیرت ہوئی۔ میں نے پنڈت جی کو بتایا کہ دیوا شریف کا میلہ تو وہی ہے ، مگر پرانے لوگوں کی جگہ نئی نسل آگئی ہے۔پنڈت جی نے میری بات سنی تو اپنے گاؤں کا واقعہ سنایا کہ ایک اسکول ٹیچر سزا کاٹ کر اپنے گاؤں آیا تو زمانہ بدلا ہوا پایا۔ یہ واقعہ سنا کر پنڈت جی نے مجھ سے کہا۔ ’’ بیٹے یہ دنیا میلہ ہی تو ہے ‘‘
یہاں سے فلم میلہ کی ابتدا ہوئی!

میں نے کہانی لکھی اور جے بی ایچ واڈیا کو سنائی ۔ انہوں نے کہانی پسند کی اور اسے بنانے کا وعدہ کیا۔ فلم میلہ بننی شروع ہوئی۔ کسی بزرگ شاعر کا ایک شعر میرے ذہن میں تھا:

دنیا کے جو مزے ہیں ہرگز یہ کم نہ ہوں گے
چرچے یہی رہیں گے، افسوس ہم نہ ہوں گے

میں نے شکیل بدایونی صاحب سے اسی مضمون پر یہ گیت:
یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے
افسوس ہم نہ ہوں گے
لکھوایا ۔محمد رفیع کی آواز میں اسے ریکارڈ کیا۔
 

حماد

محفلین
2340ء ق م کے قریب سامی النسل بادشاہ سارگن نے سمیریا پر حملہ کیا اور یکے بعد دیگرے سارے شہر فتح کر لئے۔ اس کی پیدائش کی کہانی کو روشن کبیر، کرشن، رومولس اور جناب موسی کے احوال سے ملتی جلتی ہے۔ یعنی اسکی ماں نے پیدا ہوتے ہی اسے ٹوکری میں رکھ کر دریا میں بہا دیا تھا، جہاں ایک ملاح نے ترس کھا کر اسے نکالا اور اسکی پرورش کی۔ سارگن نے ایک شاندار سلطنت کی بنیاد رکھی جسے امورّی شہنشاہی کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
اس خانوادے کا سب سے شاندار حکمران حمورابی تھا، جس نے شہر بابل تعمیر کرایا جو رفتہ رفتہ تمام زیریں عراق کا دارالسلطنت بن گیا۔ تاریخی اور لسانی پہلوؤں سے بابل کی یہ شہنشاہی سمیریوں اور سامیوں کے اتحاد کا ثمرہ تھی۔
ابتداء میں اموّری اجڈ اور خانہ بدوش تھے۔ سمیریا کے متمدن لوگوں میں مل جل کر رہنے سے وہ تمدن کے برکات سے روشناس ہوئے اور محکوموں سے قوانین،فنون و علوم، طرز تحریر، ریاضی، صنعت و حرفت وغیرہ کے اصول و مبادی سیکھے اور بعد میں ان میں بیش بہا اضافے بھی کئے۔ اسطرح تمدن کا جو بیج سمیریوں نے بویا تھا وہ بابل اور اشورّ میں پھل پھول کر تناور درخت بن گیا۔
(اقتباس از روایات تمدن قدیم، علی عباس جلالپوری)
 
Top