امین شارق
محفلین
زیست جہاں میں آنے کا دروازہ ہے
موت عدم میں جانے کا دروازہ ہے
کاش عبادت کرلیتا میں جیتے جی
مرکر کیا لوٹ آنے کا دروازہ ہے؟
اپنے گناہوں پر بہت نادم ہوں میں
کیا ماضی میں جانے کا دروازہ ہے؟
روزِ قیامت تک جینا ہے کیا کوئی؟
عُمرِ دائم پانے کا دروازہ ہے
رند ہیں سارے تری نصیحت کون سنے؟
زاہد یہ میخانے کا دروازہ ہے
اپنی جان بھی دیتا ہے جس چوکھٹ پر
شمع وہ پروانے کا دروازہ ہے
جاتے ہیں مر مر کر لوگ اسی جانب
شہر میں اک ویرانے کا دروازہ ہے
دل کی راہیں ذکرِ حق سے کھلتی ہیں
رب کا نام خزانے کا دروازہ ہے
موت عدم میں جانے کا دروازہ ہے
کاش عبادت کرلیتا میں جیتے جی
مرکر کیا لوٹ آنے کا دروازہ ہے؟
اپنے گناہوں پر بہت نادم ہوں میں
کیا ماضی میں جانے کا دروازہ ہے؟
روزِ قیامت تک جینا ہے کیا کوئی؟
عُمرِ دائم پانے کا دروازہ ہے
رند ہیں سارے تری نصیحت کون سنے؟
زاہد یہ میخانے کا دروازہ ہے
اپنی جان بھی دیتا ہے جس چوکھٹ پر
شمع وہ پروانے کا دروازہ ہے
جاتے ہیں مر مر کر لوگ اسی جانب
شہر میں اک ویرانے کا دروازہ ہے
دل کی راہیں ذکرِ حق سے کھلتی ہیں
رب کا نام خزانے کا دروازہ ہے
اس در پر جھکتے دیکھا ہے شاہوں کو
شارؔق یہ دیوانے کا دروازہ ہے
شارؔق یہ دیوانے کا دروازہ ہے