کاشفی

محفلین
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل

زیست نعمت نہ سہی، وقت کی گردش ہی سہی
ابرِ رحمت نہ سہی، آتشِ شورش ہی سہی

دل مرا آپکا ہے، جان مری آپکی ہے
آپکو مجھ سے سدا کے لیے رنجش ہی سہی

زیست میں آکے مری مجھ کو پرکھ لے اک بار
حکم تو چلتا نہیں تجھ پہ، گزارش ہی سہی

اس کے دامن میں مجھے بسنا ہے ہر حالت میں
سیدھے سیدھے نہیں مانے گا تو سازش ہی سہی

دل ترا مجھ پہ فدا، عقل کی مرضی کچھ اور
عقل ناراض ہے تو دل کی سفارش ہی سہی

پیارکے بدلے اسے پیار نہیں ہے منظور
اجر میں میری پرستش کے نوازش ہی سہی

لذتِ وصل کا دریا نہ سہی قسمت میں
پردہِ دید پہ دیدار کی بارش ہی سہی

جام کس کس کو پلا سکتا ہے ساقی آخر
جام حاصل نہ سہی، جام کی خواہش ہی سہی

پیار میں غم ہی ملا کرتے ہیں اکثر جاوید
قلب اور جان کی تسکین کی کوشش ہی سہی
 

کاشفی

محفلین
یہ غزل طارق شاہ صاحب پہلے ہی شیئر کرچکے ہیں۔۔ اس لیئے معذرت ۔ اس لڑی کو طارق شاہ صاحب کی لڑی میں ہی سمو دیں شکریہ۔۔
طارق شاہ صاحب، غزل شیئر کرنے کے لیئے شکریہ۔۔
اور عبدالرحمن بھائی، غزل کی پسندیدگی کے لیئے شکریہ۔۔
 
Top