فارسی شاعری ز حد بگذشت مشتاقی و صبر اندر غمت یارا۔۔۔سعدی شیرازی

ز حد بگذشت مشتاقی و صبر اندر غمت یارا
به وصلِ خود دوایی کن دلِ دیوانهٔ ما را
علاجِ دردِ مشتاقان طبیبِ عام نشناسد
مگر لیلی کند درمان غمِ مجنونِ شیدا را
گرت پروایِ غمگینان نخواهد بود و مسکینان
نبایستی نمود اول به ما آن رویِ زیبا را
چو بنمودی و بربودی ثبات از عقل و صبر از دل
بباید چاره‌ای کردن کنون آن ناشکیبا را
مرا سودای بت‌رویان نبودی پیش ازین در سر
ولیکن تا تو را دیدم گزیدم راهِ سودا را

مرادِ ما وصالِ تست از دنیا و از عقبی
وگرنه بی‌شما قدری ندارد دین و دنیا را
چنان مشتاقم ای دلبر به دیدارت که از دوری
برآید از دلم آهی بسوزد هفت دریا را

بیا تا یک زمان امروز خوش باشیم در خلوت
که در عالم نمی‌داند کسی احوالِ فردا را
سخن شیرین همی گویی به رغمِ دشمنان سعدی
ولی بیمارِ استسقا چه داند ذوقِ حلوا را؟

(سعدی شیرازی)

ترجمہ:۔

ہمارا شوق اور صبر تیرے غم میں حد سے گزرگیا۔
ہمارے دلِ دیوانہ کی دوا اپنے وصل سے کر۔
مشتاقوں کے درد کا علاج عام طبیب نہیں جانتا
مگر مجنونِ شیدا کے غم کا درمان لیلیٰ کرتی ہے۔
اگر تجھے غمگینوں اور مسکینوں کی پرواہ نہیں ہوگی
تَو تجھے پہلے ہمیں اپنا روئے زیبا نہیں دکھانا چاہیے تھا۔
جب تُو نے (اپنا روئے زیبا) دکھادیا اور عقل سے ثبات اور دل سے صبر چھین لیا
تَو اب اس بےصبر (کی اس مصیبت) کا چارہ کرنا چاہیے۔
پیش ازیں میرے سر میں بت روؤں کا عشق نہیں تھا
امّا جب تجھے دیکھا تو میں نے راہِ عشق اختیار کرلی۔
دنیا و آخرت سے ہماری مراد فقط تیرا وصال ہے
وگرنہ آپ کے بغیر دنیا و عقبیٰ کوئی قدر نہیں رکھتی ہے۔
اے دلبر! تیرے دیدار کا اس قدر مشتاق ہوں کہ دوری سے
میرے دل سے ایک آہ نکلتی ہے جو سات دریاوؤں کو جلا ڈالتی ہے۔
آ! تاکہ امروز ایک لمحے کے لئے خلوت میں خوش رہیں
کہ دنیا میں کوئی احوالِ فردا نہیں جانتا ہے۔
اے سعدی! تو دشمنوں کے برخلاف بات شیریں کہتا ہے
لیکن بیمارِ استسقاء (تشنہ، خواستگارِ آب) ذوقِ حلوا کیا جانے؟
 

حسان خان

لائبریرین
علاجِ دردِ مشتاقان طبیبِ عام نشناسد
مگر لیلی کند درمان غمِ مجنونِ شیدا را
مشتاقوں کے درد کا علاج عام طبیب نہیں جانتا
مگر مجنونِ شیدا کے غم کا درمان لیلیٰ کرتی ہے۔
افغان گفتاری فارسی میں اردو محاورے کے اثر کی وجہ سے 'مگر'، 'لیکن' کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے، لیکن ذہن میں رکھنا چاہیے کہ معیاری، کلاسیکی اور ایرانی و تاجک گفتاری فارسی میں 'مگر' یا تو 'شاید' کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یا پھر استفہامی معنوں میں۔ مثلاً "مگر نگفتی؟" یہاں 'مگر' کے استعمال سے یہ مفہوم ظاہر ہو رہا ہے کہ گویندہ شخصِ مخاطَب سے توقع کر رہا ہے کہ وہ اثبات میں جواب دے گا کہ "ہاں، میں نے کہا تھا۔"
مصرعِ ثانی کا یہ ترجمہ ہونا چاہیے:
شاید لیلیٰ مجنونِ شیدا کے غم کا علاج کر دے۔۔۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
'بیمارِ استسقا' یعنی دائمی تشنگی میں مبتلا شخص۔۔۔
'اِستِسقاء' اُس بیماری کا بھی نام ہے جس میں شکم ورم زدہ ہو جاتا ہے اور مریض کو ہمیشہ تشنگی کا احساس رہتا ہے۔ لغت نامۂ دہخدا کے مطابق، اِسی باعث اِس بیماری کو استسقاء کہا جاتا ہے۔
 
Top