سائنس اور مذہب کیا ایک دوسر ے کے مخالف ہیںیہ ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ اگر مخالف ہیں تہ کیوںہیں ان میںہم اہنگی ہے تو کس بنا پر ؟؟؟؟؟
نایاب بھائی آخر کے فل سٹاپ علیحدہ کردیں ورنہ یہ لڑی تباہ ہونے جارہی ہے
عارف کریم بھائی !!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مذہب تہذیب کا دوسرا نام ہے ۔۔۔۔۔ مذہب کا لفظ تہذیب سے نکلا ہے ۔۔۔۔ایک آدمی اتنا ہی مہذب ہو تا ہے جتنا اس کا مذہب اچھا اور پاکیزہ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آسان لفظوں میں:
سائنس آپکو سیکھاتی ہے کہ انسان تمام مخلوقات میں سے سب سے زیادہ ایڈوانسڈ اور کانشینس رکھنے والی مخلوق ہے۔
۔۔۔
السلام علیکم
محترم جناب فرہاد علی جی
سدا خوش رہیں آمین
مذہب سائنس کی ضرورت ہے جبکہ مذہب سائنس سے بے نیاز ہے ۔
سائنس مذہب کی تابع ہو سکتی ہے ۔
نایاب
محترم جناب فرہادنایاب بھائی
سدا خوش رہیں آمین
آپ نے مذہب اور سائنس کا جو فرق نکالا وہ کچھ حد تک ٹھیک ہے ۔۔۔۔ آپ کو معلوم ہے سائنس کا کیا مطلب ہے
1. Knowledge علم- واقفيت- گيان- (سائنس)
دنیا کی ہر چیز سے کے متعلق تحقیق و تفتیش سائس کہلاتا ہے ۔۔۔۔ یہی وجہ ہے آج ہم سب سے پیچھے رہ گئے ہیںکے ہم نے مذہب کے دائرے میںرہ کر ہی سب کچھ کیا ہے باہر کی دنیا دیکھی ہی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ اگر ہم اسلام کی انکھ سے سائنس کی سیدھ میںدیکھیں تو ہر وہ چیز جس کے بارے میں قرآن نے معلومات دی ہیںسائنس کے ذریعہ سے سب کچھ صحیح ثابت ہو گیا ہے ۔۔۔ جو اسلام کہتا ہے وہ سائنس بھی کہتی ہے ۔۔۔
یہ بجا ہے کہ سائنسی ایجادات کے بہت نقصانات ہیں۔۔۔ لیکن اس مین سائنسدانوں کا قصور نہیں،،،،(جاری ہے)
آپ نے صحیح ہی فرمایا ہے کہ یہ دیکھنے کا انداز ہے بھائی ۔ مذہب انسان کے اخلاقی قدروں اور بعد کی آنے والی زندگی کے بارے میں بتاتا ہے ۔ اور جہاں ضروری سمجھتا ہے توحید اور دیگر ایمانیات کیساتھ ، سائنس اور تاریخ کا بھی حوالہ دے دیتا ہے ۔ سائنس مذہب کا موضوع ہی نہیں ہے ۔ سائنس اللہ کا دیا ہوا علم ہے ۔ آپ کو اس میں جو ترقی کرنی ہے وہ مذہب یعنی اخلاقی دائرے میں رہ کر کجیئے ۔ اس کا مذہب سے کیا تعلق ہے ۔ یہ بات سمجھ نہیں آئی ۔یہ تو دیکھنے کے انداز کی بات ہے بھائی۔ سائنس اگر خالق کی تخلیق کو جاننے کے سوا کچھ اور ہے تو پھر شائد مذہب سے کہا جاسکے اسے وگرنہ تو مذہب کا ایک جزو ہی ہوگی۔ ابھی پچھلے ہفتے بگ بینگ کے متعلق ایک پروگرام دیکھا اور حیراں رہا کہ کس طرح آج کی سائنس تخلیق کائنات کے اس راز سے آشکار ہوئی جو قرآن نے کب کا بتا دیا۔ یعنی یہ کہ یہ ساری کائنات غیر موجود سے ان سائنسدانوںکے الفاظ میںin a billionth of billionth of billionth of a second میں معرض وجود میںآئی۔ کن فیکون کی اتنی اچھی سائنسی تشریح میری نظر سے نہیںگزری۔
بھیا دراصل عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مذہب صرف خالق اور بندے کے تعلق کا نام ہے۔ مذہب دراصل بندے کے خالق اور اس کی مخلوق دونوں سے تعلق کا نام ہے۔ یہ تمام کائنات اللہ کی تخلیق ہے اور اس میں انسان کے فائدے کے لئے بہت چیزیں رکھی گئی ہیں۔ مذہب انہیںاستعمال میں لانے کی تحریک بھی دیتا ہے اور اشارے بھی مہیا کرتا ہے۔ اب دیکھئے اللہ نے کہا کہ پہلے کچھ نہ تھا اور پھر اللہ نے فرمایا کہ ہوجا تو بس یہ کائنات وجود میں آگئی۔ اب یہ بات مذہب نے کہہ دی۔ جب سائنس نے اس کائنات کے پھیلاؤ کو دیکھا، اس میں گردش پذیر مادے کا اندازہ لگایا تو مذہب کا یہ دعوٰی اسے جھوٹ لگا۔ پھر جب سائنس آگے بڑھی تو اس نے دریافت کیا کہ یہ اتنا وسیع پھیلاؤ غیر موجود سے موجود میں ایک لمحہ سے بھی انتہائی قلیل عرصہ میں وجود میں آیا۔ دراصل ہم جب مذہب کا (اور میں یہاں صرف اسلام کی بات کروں گا) کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک مخصوص زاویہ کی عینک چڑھا لیتے ہیں اور پھر ہمیں ہر چیز اسی زاویہ سے دکھتی ہے۔ قرآن میں دینی احکام سے زیادہ سائنسی اشارات ہیں لیکن ہم ان پر سے روانی سے گزر جاتے ہیں صرف اس لئے کہ ہم قرآن کو صرف مذہبی کتاب سمجھتے ہیں۔
آپ کے اسی اقتباس کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے کائنات بے شک اللہ تعالی کے کلمہِ کُن سے ہی وجود میں آئی ہے ۔لیکن یہ مختلف مراحل سے گذر کر یہاں پہنچی ہے ۔ اللہ تعالی نے بیان کیا ہے کہ زمین و آسمان کو 6 ادوار میں تخلیق کیا ہے ۔ قرآن مجید میں یہاں " یوم " کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ جس سے لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ قرآن مجید نے خود دوسری جگہ وضاحت کردی ہے کہ " اللہ اور تمہارے ایام میں بہت فرق ہے ۔ تمہارے ہاں ایام گھنٹوں پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ جبکہ اللہ تعالی کے ہاں ایام پچاس پچاس ہزار سال کے ہوتے ہیں ۔" اسی طرح فرشتوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ ایسے دن میں اللہ کے حضور پہنچتے ہیں جو ہزاروں دنوں پر محیط ہوتا ہے ۔ اس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ 6 ادوار ہیں جن میں اللہ تعالی نے کائنات کی تخلیق کی ہے ۔ اور یہ بات بھی اللہ نے بتا دی ہے کہ جب موجودہ تخلیقی عمل شروع ہوا تو یہاں پانی ہی پانی تھا ۔ یعنی " کان عرش ھو ولاماء " تھا ۔ اسی طرح یہ بھی بتا دیا کہ انسان کی تخلیق بھی دو مراحل میں ہوئی ہے پہلا مرحلہ وہ ہے جس میں وہ زمین کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے ۔ اور دوسرا مرحلہ یہ ہے جس میں اب وہ خود اپنی اولاد پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے ۔ چنانچہ اسی طرح اور سائنسی موضوعات کی طرف استدلال کے طور پر قرآن نے اشارہ کیا ہے ۔ لہذا اب قرآن کو اسی تناظر میں سائنس کی کتاب بنانا دینا ، میرا خیال ہے کہ قرآن کے اصل موضوع سے انحراف ہے ۔بھی پچھلے ہفتے بگ بینگ کے متعلق ایک پروگرام دیکھا اور حیراں رہا کہ کس طرح آج کی سائنس تخلیق کائنات کے اس راز سے آشکار ہوئی جو قرآن نے کب کا بتا دیا۔ یعنی یہ کہ یہ ساری کائنات غیر موجود سے ان سائنسدانوںکے الفاظ میں in a billionth of billionth of billionth of a second میں معرض وجود میںآئی۔ کن فیکون کی اتنی اچھی سائنسی تشریح میری نظر سے نہیںگزری۔
میرے نزدیک تو سائنس جزو ہے مذہب کا۔ وہ جو مفتی جی نے کہا تھا کہ یہ جو سائنسی کلئے قاعدے ہیں یہ سب تو اللہ کے بنائے ہوئے ہیں جن کے ذریعے دنیا کا نظام قائم ہے۔ غور و تعمق سے آپ کو خالق اور اس کارخانہ قدرت کی متعلق جو آگاہی حاصل ہوتی ہے اسے سائنس کہہ دیتے ہیں۔ کائنات اور اس کے اسرار میں غور و فکر کرنے کا تو قرآن نے کئی بار حکم دیا ہے۔
شائد میں بات کو درست نہیں کہہ سکا۔ میرے عرض کرنے کا مقصد یہ تھا بھیا کہ سائنس میں قرآن کی ہر بات موجود نہیں ہے لیکن قرآن میں سائنس کی ہر بات موجود ہے۔ بس غور و تعمق شرط ہے۔
فرہاد علی ، یہاں ایک مغالطہ پیدا ہو رہا ہے کہ دین اور مذہب کیا ایک ہی چیز کے دو نام ہیں یا دونوں الگ چیزیں ہیں۔عارف کریم بھائی !!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مذہب تہذیب کا دوسرا نام ہے ۔۔۔۔۔ مذہب کا لفظ تہذیب سے نکلا ہے ۔۔۔۔ایک آدمی اتنا ہی مہذب ہو تا ہے جتنا اس کا مذہب اچھا اور پاکیزہ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہودی شروع ہی س سازشی کردار کے حامل ہیں ۔۔۔ سامری کے کردار سے کون واقف نہیں جس نے موسیٰ علہ کے بعد سونے کا بچھڑا بنایا ۔۔۔۔۔۔
ہندوءوں میںجادو ٹونی منتر عام ہے جو ایک ایسی ذہنی کیفیت پیدا کرتی ہے کے آدمی میلا کچیلا نظر آتا ہے ۔۔۔۔۔
مثال کے طور پر ایک پیر ہے بڑے بال بڑی داڑھی خوفناک شخصیت میلا کچیلا لباس ۔۔۔۔یہ اس کے کردار اور فعل پر منحصر ہے ۔۔۔۔۔۔
اسلام سلامتی اور پاکیزگی کا مذہب ہے ۔۔۔۔ سفید لباس عمدہ اخلاق اسلام کی ہی بدولت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
غرض جیسا مذہب ویسی ہی تہذیب ہوگی