سائنس اور مذہب کیا ایک دوسر ے کے مخالف

فرہادعلی

محفلین
سائنس اور مذہب کیا ایک دوسر ے کے مخالف ہیں‌یہ ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں‌۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر مخالف ہیں تہ کیوں‌ہیں ان میں‌ہم اہنگی ہے تو کس بنا پر ؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

arifkarim

معطل
مغرب میں سائنس و مذہب کو اس نگاہ سے دیکھا جاتا ہے:
science_and_religion_venn1.png


یعنی مذاہب superstition اور factless ہیں جسکا سائنس و ٹیکنالوجی نے مکمل احاطہ کیا ہوا ہے۔
لیکن ایک چیز سائنس میں نہیں ہے مگر صرف مذہب میں ہے:
’’علوم روحانی‘‘۔ مادی دنیا تک سائنس کا علم بالکل درست کام کرتا ہے۔ لیکن جونہی پراسرار وقعات نمودار ہو نا شروع ہوں تو سائنس دم دبا کر بھاگ جاتی ہے۔ یہی حال دنیا کے پیشتر مذاہب کا مادی دنیا کیساتھ ہوتا ہے!
 

arifkarim

معطل
آسان لفظوں میں:
سائنس آپکو سیکھاتی ہے کہ انسان تمام مخلوقات میں سے سب سے زیادہ ایڈوانسڈ اور کانشینس رکھنے والی مخلوق ہے۔ آپکے جسم میں اتنا پانی، اتنا وزن، اتنی ذہانت ہے۔ لیکن ان سب کوالٹیز کے ساتھ ہم اس زمین پر کیوں ہیں اور ہماری اس زندگی کا کیا مقصد ہے؟ اسکا سائنس کے پاس کوئی جواب نہیں۔ ان سوالوں کے جواب کیلئے بڑے بڑے سائنسدان ادھیڑ عمری میں فلاسفرز اور مذہب سے وابستہ افراد کے پاس جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
مذہب آپکو سکھاتا ہے کہ یہ زندگی کیسے شروع ہوئی۔ حیوانات و نباتات کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ یہ زندگی کیسے ختم ہوگی اور اختتام کے بعد کیا حالات پیش آئیں گے، وغیرہ۔ اب چونکہ ان سب سوالوں کے جوابات ہر مذہب نے قدرے مختلف دئے ہیں اسلئے انکو facts کے زمرے میں لانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ایک عام عقل و فہم والے انسان کیلئے 2+2 = 4 کو نہ ماننے پر کوئی دلیل نہیں ہوگی۔ لیکن مرنے کے بعد کیا ہوگا، اس سے متعلق اسکے پاس کئی ہزار تاویلیں ہوں گی، صرف اسلئے کہ یقین اور حقائق میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ کوئی مرا ہوا شخص واپس تو آنہیں سکتا، یا ایک ساتھ یک دم ہزاروں انسانوں سے خواب و کشف میں رابطہ کرکے یہ بھی بتا نہیں سکتا کہ مرنے کے بعد اسکے ساتھ کیا حالات پیش آئے وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم انسانوں کو زندگی کے پیچیدہ سوالات کیلئے مذہب سے رجوع کرنا پڑتا ہے اور جو یقین دل کو لگے اسکو تسلیم کر لیتے ہیں۔
سائنس و ٹیکنالوجی اسکے بر عکس ہمیں مادی دنیا میں ترقی و منزلت کے گُر سکھاتی ہے، جبکہ مذہب و دین ہمیں روحانی و اخلاقی دنیا میں ترقی و منزلت عطا کرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مادی دنیا میں کھوئے ہوئے علاقوں میں گو ’’عالمی مذاہب‘‘ کے پیروکاروں میں کمی آئی ہے، لیکن اسکی جگہ دوسرے قسم کے مذاہب و یقین نے لے لی ہے۔
پس مذہب و سائنس ایک ساتھ ہمیشہ چلتی رہیں گی اور وہی قومیں ہر لحاظ سے ترقی کریں گی جو ان دونوں کے درمیان میانہ روی اختیار کر سکیں۔ مذہب و دین میں انتہا پسندی، یا سائنس و ٹیکنالوجی میں انتہا پسندی کا انجام ہم آجکل اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
سائنس اور مذہب کیا ایک دوسر ے کے مخالف ہیں‌یہ ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں‌۔ اگر مخالف ہیں تہ کیوں‌ہیں ان میں‌ہم اہنگی ہے تو کس بنا پر ؟؟؟؟؟

السلام علیکم
محترم جناب فرہاد علی جی
سدا خوش رہیں آمین
مذہب سائنس کی ضرورت ہے جبکہ مذہب سائنس سے بے نیاز ہے ۔
سائنس مذہب کی تابع ہو سکتی ہے ۔
لیکن مذہب کسی سائنسی کسوٹی سے نہیں پرکھا جا سکتا ۔
سائنس انسانی ذہن و خیال میں ابھرنے والے تجسس کی تکمیل کرتی ہے ۔
اور کچھ تجسس ایسے جنہیں مذہب ممنوع قرار دیتا ہے ۔
اور سائنس لاکھ سر پٹک لے ۔ اپنے تجسس کی تکمیل نہیں کر سکتی ۔
سائنسی فارمولے بے لچک اور اک مخصوص نظریئے سے وجود میں آتے ہیں ۔
جبکہ مذہب انتہائی لچکدار ہوتا ہے ۔
آنے والے کل میں حساب و مواخذے کا احساس سزا و جزا
انسان کو انفرادی اور اجتماعی طور پر ایسے اعمال پر ابھارتا ہے جو کہ معاشرے اور انسان کے لیے مفید ہوں ۔
سائنس و ٹیکنالوجی انسان کو مادی دنیا میں آسائش و راحت کے ساتھ سدا رہنے کاخواب دکھاتی ہے ۔
جبکہ مذہب ہمیں اس فانی دنیا کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہے ۔
مذہب سائنس کی ضرورت ہے جبکہ مذہب سائنس سے بے نیاز ہے ۔
سائنس انسان کے عقل و فکر کی پرواز کا نتیجہ ہے ۔
جس سے نامعلوم کو کسی خاص کسوٹی پر پرکھ کر معلوم حاصل کر لیا جاتا ہے ۔
سائنس “ حق الیقین “ کا درجہ حاصل کرنے کا اک ذریعہ
اور آگ میں ہاتھ ڈال کر جلا لینے کے بعد یقین حاصل ہو سکتا ہے کہ آگ جلاتی ہے ۔
اس کے برعکس مذہب انسان کو صرف یقین کے درجے پر ہی مطمئن رہنے کی تلقین کرتا ہے ۔
اور مذہب انفرادی طور پر انسانی اخلاق و کردار کی تربیت کر کے اجتماعی طور پر مادی دنیا کے لیئے مفید ثابت ہوتا ہے ۔
سائنس اگر مذہب کے تابع ہو تو نسل انسانی کے لیئے بہت مفید
ورنہ “ہیروشیما اور ناگاسگی ‘ انسانیت کی تباہی کی مثال ۔
سائنس کو اگر مذہب کی لگام نہ ڈالی جائے تو یہ سائنسی ترقی مادی دنیا کو بے مہار کر دیتی ہے ۔

نایاب
 

نایاب

لائبریرین
نایاب بھائی آخر کے فل سٹاپ علیحدہ کردیں ورنہ یہ لڑی تباہ ہونے جارہی ہے

السلام علیکم
محترم محمد صابر بھائی
بہت شکریہ
جزاک اللہ
مجھے تو اس دھاگے کے پوسٹ کرنے کے بعد ایسا لگ رہا تھا ۔
جیسے میرا نیٹ ہی کہیں رک گیا ہے ۔
آدھی پوسٹ نظر آتی تھی ۔
باقی سب غائب ۔
نایاب
 

فرہادعلی

محفلین
عارف کریم بھائی !!!

آسان لفظوں میں:
سائنس آپکو سیکھاتی ہے کہ انسان تمام مخلوقات میں سے سب سے زیادہ ایڈوانسڈ اور کانشینس رکھنے والی مخلوق ہے۔
۔۔۔
عارف کریم بھائی !!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مذہب تہذیب کا دوسرا نام ہے ۔۔۔۔۔ مذہب کا لفظ تہذیب سے نکلا ہے ۔۔۔۔ایک آدمی اتنا ہی مہذب ہو تا ہے جتنا اس کا مذہب اچھا اور پاکیزہ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہودی شروع ہی س سازشی کردار کے حامل ہیں ۔۔۔ سامری کے کردار سے کون واقف نہیں‌ جس نے موسیٰ علہ کے بعد سونے کا بچھڑا بنایا ۔۔۔۔۔۔
ہندوءوں میں‌جادو ٹونی منتر عام ہے جو ایک ایسی ذہنی کیفیت پیدا کرتی ہے کے آدمی میلا کچیلا نظر آتا ہے ۔۔۔۔۔
مثال کے طور پر ایک پیر ہے بڑے بال بڑی داڑھی خوفناک شخصیت میلا کچیلا لباس ۔۔۔۔یہ اس کے کردار اور فعل پر منحصر ہے ۔۔۔۔۔۔
اسلام سلامتی اور پاکیزگی کا مذہب ہے ۔۔۔۔ سفید لباس عمدہ اخلاق اسلام کی ہی بدولت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
غرض جیسا مذہب ویسی ہی تہذیب ہوگی
 

فرہادعلی

محفلین
السلام علیکم
محترم جناب فرہاد علی جی
سدا خوش رہیں آمین
مذہب سائنس کی ضرورت ہے جبکہ مذہب سائنس سے بے نیاز ہے ۔
سائنس مذہب کی تابع ہو سکتی ہے ۔
نایاب

محترم جناب فرہادنایاب بھائی
سدا خوش رہیں آمین
آپ نے مذہب اور سائنس کا جو فرق نکالا وہ کچھ حد تک ٹھیک ہے ۔۔۔۔ آپ کو معلوم ہے سائنس کا کیا مطلب ہے
1. knowledge علم- واقفيت- گيان- (سائنس)
دنیا کی ہر چیز سے کے متعلق تحقیق و تفتیش سائس کہلاتا ہے ۔۔۔۔ یہی وجہ ہے آج ہم سب سے پیچھے رہ گئے ہیں‌کے ہم نے مذہب کے دائرے میں‌رہ کر ہی سب کچھ کیا ہے باہر کی دنیا دیکھی ہی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ اگر ہم اسلام کی انکھ سے سائنس کی سیدھ میں‌دیکھیں‌ تو ہر وہ چیز جس کے بارے میں قرآن نے معلومات دی ہیں‌سائنس کے ذریعہ سے سب کچھ صحیح ثابت ہو گیا ہے ۔۔۔ جو اسلام کہتا ہے وہ سائنس بھی کہتی ہے ۔۔۔
یہ بجا ہے کہ سائنسی ایجادات کے بہت نقصانات ہیں۔۔۔ لیکن اس مین سائنسدانوں کا قصور نہیں‌،،،،(جاری ہے)
 

نایاب

لائبریرین
محترم جناب فرہادنایاب بھائی
سدا خوش رہیں آمین
آپ نے مذہب اور سائنس کا جو فرق نکالا وہ کچھ حد تک ٹھیک ہے ۔۔۔۔ آپ کو معلوم ہے سائنس کا کیا مطلب ہے
1. Knowledge علم- واقفيت- گيان- (سائنس)
دنیا کی ہر چیز سے کے متعلق تحقیق و تفتیش سائس کہلاتا ہے ۔۔۔۔ یہی وجہ ہے آج ہم سب سے پیچھے رہ گئے ہیں‌کے ہم نے مذہب کے دائرے میں‌رہ کر ہی سب کچھ کیا ہے باہر کی دنیا دیکھی ہی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ اگر ہم اسلام کی انکھ سے سائنس کی سیدھ میں‌دیکھیں‌ تو ہر وہ چیز جس کے بارے میں قرآن نے معلومات دی ہیں‌سائنس کے ذریعہ سے سب کچھ صحیح ثابت ہو گیا ہے ۔۔۔ جو اسلام کہتا ہے وہ سائنس بھی کہتی ہے ۔۔۔
یہ بجا ہے کہ سائنسی ایجادات کے بہت نقصانات ہیں۔۔۔ لیکن اس مین سائنسدانوں کا قصور نہیں‌،،،،(جاری ہے)

السلام علیکم
محترم فرہاد علی جی
اللہ تعالی سدا آپ پر مہربان رہے آمین
سکول و کالج کی شکل نہیں دیکھی اندر سے ۔۔
قسم سے باہر باہر پھرا ہوں ۔
سو کیسے جان سکتا ہوں سائنس کیا ہے ؟
اب لکھ رہے ہیں سائنس پر انشااللہ پڑھ کر جان جاؤں گا ۔
لکھتے رہیئے گا ۔
نایاب
 

ابن جمال

محفلین
بہت پہلے مولانا عبدالباری ندوی کا ایک کتابچہ اس موضوع پڑپڑھاتھا جس کا نام شاید مذہب اورسائنس یاعقل نقل تھا۔ بہر حال اس میں یہی بتایاگیاتھا کہ سائنس میں اوراسلام میں کوئی تضاد نہیں ہے۔اس لئے دونوں کا میدان الگ ہے۔ جیسے ریل اور ریل میں ٹکرائو ہوسکتاہے لیکن ایساکبھی نہیں ہوا کہ کوئی ریل ہوائی جہاز سے ٹکراگیاہو۔ چونکہ دونوں کے چلنے کی سمت اوررخ جداگانہ ہیں۔ یہی بات مذہب اورسائنس کے متعلق کہی جاسکتی ہے۔ سائنس دنیاوی امور اورمادیت کا احاطہ کرتی ہے جب کہ مذہب مابعدالموت کے احوال سے بحث کرتاہے۔ سائنس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ کسی شئے کے کیافوائد اورنقصانات ہیں جب کہ مذہب ہمیں بتاتاہے کہ وہ چیز خدا کو ناپسند ہے یاپسند ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ تضاد تواس وقت ہوتا جب مذہب کسی معاملہ کہتاہے کہ یہ خدا کو پسند ہے اورسائنس کہے کہ ناپسند ہے۔ سائنس کسی شئے کی حقیقت اوراس کے خواص سے بحث کرتی ہے جب کہ مذہب کسی شئے اورفعل کے بارے میں اللہ کا فرمان کیاہے اس سے بحث کرتاہے۔ مولانا وحیدالدین خان کی معرکۃ الآرائ کتاب مذہب اورجدید چیلنج اسی موضوع پرہے۔اوربلامبالغہ کہاجاسکتاہے کہ یہ اس موضوع پر اب تک کی سب سے بہترین کاوش اورعلمی وتحقیقی تصنیف ہے۔شاید پاکستان میں بھی ملتی ہوگی۔اس کو ہرایک کو پڑھنا چاہئے اس کو پڑھنے کے بعد مذہب اورسائنس کے درمیان فرق نہایت کھل کر سامنے آجاتاہے۔واللہ اعلم بالصواب
 

خرم

محفلین
میرے نزدیک تو سائنس جزو ہے مذہب کا۔ وہ جو مفتی جی نے کہا تھا کہ یہ جو سائنسی کلئے قاعدے ہیں یہ سب تو اللہ کے بنائے ہوئے ہیں جن کے ذریعے دنیا کا نظام قائم ہے۔ غور و تعمق سے آپ کو خالق اور اس کارخانہ قدرت کی متعلق جو آگاہی حاصل ہوتی ہے اسے سائنس کہہ دیتے ہیں۔ کائنات اور اس کے اسرار میں غور و فکر کرنے کا تو قرآن نے کئی بار حکم دیا ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
مذہب اور سائنس دونوں بالکل الگ الگ موضوعات ہیں ۔ کسی کا بھی کسی طور کسی سے تعلق نہیں بنتا ۔
 

خرم

محفلین
یہ تو دیکھنے کے انداز کی بات ہے بھائی۔ سائنس اگر خالق کی تخلیق کو جاننے کے سوا کچھ اور ہے تو پھر شائد مذہب سے کہا جاسکے اسے وگرنہ تو مذہب کا ایک جزو ہی ہوگی۔ ابھی پچھلے ہفتے بگ بینگ کے متعلق ایک پروگرام دیکھا اور حیراں رہا کہ کس طرح آج کی سائنس تخلیق کائنات کے اس راز سے آشکار ہوئی جو قرآن نے کب کا بتا دیا۔ یعنی یہ کہ یہ ساری کائنات غیر موجود سے ان سائنسدانوں‌کے الفاظ میں‌In a billionth of billionth of billionth of a second میں معرض وجود میں‌آئی۔ کن فیکون کی اتنی اچھی سائنسی تشریح میری نظر سے نہیں‌گزری۔
 

ظفری

لائبریرین
یہ تو دیکھنے کے انداز کی بات ہے بھائی۔ سائنس اگر خالق کی تخلیق کو جاننے کے سوا کچھ اور ہے تو پھر شائد مذہب سے کہا جاسکے اسے وگرنہ تو مذہب کا ایک جزو ہی ہوگی۔ ابھی پچھلے ہفتے بگ بینگ کے متعلق ایک پروگرام دیکھا اور حیراں رہا کہ کس طرح آج کی سائنس تخلیق کائنات کے اس راز سے آشکار ہوئی جو قرآن نے کب کا بتا دیا۔ یعنی یہ کہ یہ ساری کائنات غیر موجود سے ان سائنسدانوں‌کے الفاظ میں‌in a billionth of billionth of billionth of a second میں معرض وجود میں‌آئی۔ کن فیکون کی اتنی اچھی سائنسی تشریح میری نظر سے نہیں‌گزری۔
آپ نے صحیح ہی فرمایا ہے کہ یہ دیکھنے کا انداز ہے بھائی ۔ مذہب انسان کے اخلاقی قدروں اور بعد کی آنے والی زندگی کے بارے میں بتاتا ہے ۔ اور جہاں ضروری سمجھتا ہے توحید اور دیگر ایمانیات کیساتھ ، سائنس اور تاریخ کا بھی حوالہ دے دیتا ہے ۔ سائنس مذہب کا موضوع ہی نہیں ہے ۔ سائنس اللہ کا دیا ہوا علم ہے ۔ آپ کو اس میں جو ترقی کرنی ہے وہ مذہب یعنی اخلاقی دائرے میں رہ کر کجیئے ۔ اس کا مذہب سے کیا تعلق ہے ۔ یہ بات سمجھ نہیں آئی ۔
 

خرم

محفلین
بھیا دراصل عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مذہب صرف خالق اور بندے کے تعلق کا نام ہے۔ مذہب دراصل بندے کے خالق اور اس کی مخلوق دونوں سے تعلق کا نام ہے۔ یہ تمام کائنات اللہ کی تخلیق ہے اور اس میں انسان کے فائدے کے لئے بہت چیزیں رکھی گئی ہیں۔ مذہب انہیں‌استعمال میں لانے کی تحریک بھی دیتا ہے اور اشارے بھی مہیا کرتا ہے۔ اب دیکھئے اللہ نے کہا کہ پہلے کچھ نہ تھا اور پھر اللہ نے فرمایا کہ ہوجا تو بس یہ کائنات وجود میں آگئی۔ اب یہ بات مذہب نے کہہ دی۔ جب سائنس نے اس کائنات کے پھیلاؤ کو دیکھا، اس میں گردش پذیر مادے کا اندازہ لگایا تو مذہب کا یہ دعوٰی اسے جھوٹ لگا۔ پھر جب سائنس آگے بڑھی تو اس نے دریافت کیا کہ یہ اتنا وسیع پھیلاؤ غیر موجود سے موجود میں ایک لمحہ سے بھی انتہائی قلیل عرصہ میں وجود میں آیا۔ دراصل ہم جب مذہب کا (اور میں یہاں صرف اسلام کی بات کروں گا) کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک مخصوص زاویہ کی عینک چڑھا لیتے ہیں اور پھر ہمیں ہر چیز اسی زاویہ سے دکھتی ہے۔ قرآن میں دینی احکام سے زیادہ سائنسی اشارات ہیں لیکن ہم ان پر سے روانی سے گزر جاتے ہیں صرف اس لئے کہ ہم قرآن کو صرف مذہبی کتاب سمجھتے ہیں۔
 

ظفری

لائبریرین
بھیا دراصل عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مذہب صرف خالق اور بندے کے تعلق کا نام ہے۔ مذہب دراصل بندے کے خالق اور اس کی مخلوق دونوں سے تعلق کا نام ہے۔ یہ تمام کائنات اللہ کی تخلیق ہے اور اس میں انسان کے فائدے کے لئے بہت چیزیں رکھی گئی ہیں۔ مذہب انہیں‌استعمال میں لانے کی تحریک بھی دیتا ہے اور اشارے بھی مہیا کرتا ہے۔ اب دیکھئے اللہ نے کہا کہ پہلے کچھ نہ تھا اور پھر اللہ نے فرمایا کہ ہوجا تو بس یہ کائنات وجود میں آگئی۔ اب یہ بات مذہب نے کہہ دی۔ جب سائنس نے اس کائنات کے پھیلاؤ کو دیکھا، اس میں گردش پذیر مادے کا اندازہ لگایا تو مذہب کا یہ دعوٰی اسے جھوٹ لگا۔ پھر جب سائنس آگے بڑھی تو اس نے دریافت کیا کہ یہ اتنا وسیع پھیلاؤ غیر موجود سے موجود میں ایک لمحہ سے بھی انتہائی قلیل عرصہ میں وجود میں آیا۔ دراصل ہم جب مذہب کا (اور میں یہاں صرف اسلام کی بات کروں گا) کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک مخصوص زاویہ کی عینک چڑھا لیتے ہیں اور پھر ہمیں ہر چیز اسی زاویہ سے دکھتی ہے۔ قرآن میں دینی احکام سے زیادہ سائنسی اشارات ہیں لیکن ہم ان پر سے روانی سے گزر جاتے ہیں صرف اس لئے کہ ہم قرآن کو صرف مذہبی کتاب سمجھتے ہیں۔

قرآن مجید اصلاً تو سائنس کو موضوع نہیں بناتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید ہدایت کی کتاب ہے اور وہ آپ کی موت کے بعد آنے والی زندگی کو اصلاً موضوع بنا کر گفتگو کرتا ہے ۔ لیکن وہ اللہ کی کتاب ہے ۔ اس لیئے استدلال کے موقع پر ضمنی طور سے بعض چیزوں‌کا ذکر آجاتا ہے ۔ لہذا کائنات کی تخلیق کے بارے میں بھی قرآن مجید نے بعض باتیں‌ ضمنی طور پر بیان کردی ہیں ۔ کیونکہ سائنس قرآن کا اصل موضوع نہیں ہے ۔ اس لیئے ایسا نہیں ہوا کہ کچھ باتوں کی تشریح انتہا پر جا کردی ۔ لیکن اجمال کیساتھ قرآن نے کچھ باتوں کو بیان کردیا ہے ۔


بھی پچھلے ہفتے بگ بینگ کے متعلق ایک پروگرام دیکھا اور حیراں رہا کہ کس طرح آج کی سائنس تخلیق کائنات کے اس راز سے آشکار ہوئی جو قرآن نے کب کا بتا دیا۔ یعنی یہ کہ یہ ساری کائنات غیر موجود سے ان سائنسدانوں‌کے الفاظ میں ‌in a billionth of billionth of billionth of a second میں معرض وجود میں‌آئی۔ کن فیکون کی اتنی اچھی سائنسی تشریح میری نظر سے نہیں‌گزری۔
آپ کے اسی اقتباس کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے کائنات بے شک اللہ تعالی کے کلمہِ کُن سے ہی وجود میں آئی ہے ۔لیکن یہ مختلف مراحل سے گذر کر یہاں پہنچی ہے ۔ اللہ تعالی نے بیان کیا ہے کہ زمین و آسمان کو 6 ادوار میں تخلیق کیا ہے ۔ قرآن مجید میں یہاں " یوم " کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ جس سے لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ قرآن مجید نے خود دوسری جگہ وضاحت کردی ہے کہ " اللہ اور تمہارے ایام میں بہت فرق ہے ۔ تمہارے ہاں ایام گھنٹوں پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ جبکہ اللہ تعالی کے ہاں ایام پچاس پچاس ہزار سال کے ہوتے ہیں ۔" اسی طرح فرشتوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ ایسے دن میں اللہ کے حضور پہنچتے ہیں‌ جو ہزاروں دنوں پر محیط ہوتا ہے ۔ اس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ 6 ادوار ہیں جن میں اللہ تعالی نے کائنات کی تخلیق کی ہے ۔ اور یہ بات بھی اللہ نے بتا دی ہے کہ جب موجودہ تخلیقی عمل شروع ہوا تو یہاں پانی ہی پانی تھا ۔ یعنی " کان عرش ھو ولاماء " تھا ۔ اسی طرح یہ بھی بتا دیا کہ انسان کی تخلیق بھی دو مراحل میں‌ ہوئی ہے پہلا مرحلہ وہ ہے جس میں وہ زمین کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے ۔ اور دوسرا مرحلہ یہ ہے جس میں اب وہ خود اپنی اولاد پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے ۔ چنانچہ اسی طرح اور سائنسی موضوعات کی طرف استدلال کے طور پر قرآن نے اشارہ کیا ہے ۔ لہذا اب قرآن کو اسی تناظر میں سائنس کی کتاب بنانا دینا ، میرا خیال ہے کہ قرآن کے اصل موضوع سے انحراف ہے ۔
 

خرم

محفلین
شائد میں بات کو درست نہیں کہہ سکا۔ میرے عرض کرنے کا مقصد یہ تھا بھیا کہ سائنس میں قرآن کی ہر بات موجود نہیں ہے لیکن قرآن میں سائنس کی ہر بات موجود ہے۔ بس غور و تعمق شرط ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
میرے نزدیک تو سائنس جزو ہے مذہب کا۔ وہ جو مفتی جی نے کہا تھا کہ یہ جو سائنسی کلئے قاعدے ہیں یہ سب تو اللہ کے بنائے ہوئے ہیں جن کے ذریعے دنیا کا نظام قائم ہے۔ غور و تعمق سے آپ کو خالق اور اس کارخانہ قدرت کی متعلق جو آگاہی حاصل ہوتی ہے اسے سائنس کہہ دیتے ہیں۔ کائنات اور اس کے اسرار میں غور و فکر کرنے کا تو قرآن نے کئی بار حکم دیا ہے۔

بھائی ۔۔۔ میں نے تو آپ کی اس بات کو موضوع بناکر بات کہی ہے ۔ اب آپ کا مطلب کچھ اور تھا تو پھر مجھے سمجھنے میں غلطی لگی ہے ۔
 

arifkarim

معطل
شائد میں بات کو درست نہیں کہہ سکا۔ میرے عرض کرنے کا مقصد یہ تھا بھیا کہ سائنس میں قرآن کی ہر بات موجود نہیں ہے لیکن قرآن میں سائنس کی ہر بات موجود ہے۔ بس غور و تعمق شرط ہے۔

قرآن میں سائنس کی ہر بات تلاش کرنا اپنی لا علمی پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ آج جو چیز ہمیں سائنس اور قرآن میں‌مشترک نظر آتی ہے۔ ہم فوراً اُسے قرآن پاک کی سچائی ظاہر کرنے کیلئے شور مچاتے ہیں۔ اس ضمن میں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اگر قرآن پاک میں سائنس کی ہر بات موجود ہوتی تو ہمارے ۱۴۰۰ سالوں میں پیدا ہونے والے مسلمان علما آج دنیا پر حکومت کر رہے ہوتے! آسان لفظوں میں قر آن کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا سائنس کا بھی سب سے زیادہ علم رکھتا۔ جبکہ حقیقت اسکے خلاف ہے!
سائنس کا علم مشاہدہ معائینہ کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔ جسمیں کوئی اخلاقی پہلو نہیں ہے۔ سائنس کے میدان میں ایسے ایسے بھیانک تجربات ہو چکے ہیں یا ہو رہے ہیں کہ اگر انکی تفاصیل منظر عام پر آگئیں تو انسانیت کی اینٹ سےاینٹ بجا دیں!
یہاں ایک بات قابل غورہے کہ ہمارا موجودہ معاشرہ مادیت پرستی میں غرق ہے۔ اور سائنس کا علم مادہ پر تحقیق سے ہی شروع ہوا تھا!:)
 

ساجد

محفلین
عارف کریم بھائی !!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مذہب تہذیب کا دوسرا نام ہے ۔۔۔۔۔ مذہب کا لفظ تہذیب سے نکلا ہے ۔۔۔۔ایک آدمی اتنا ہی مہذب ہو تا ہے جتنا اس کا مذہب اچھا اور پاکیزہ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہودی شروع ہی س سازشی کردار کے حامل ہیں ۔۔۔ سامری کے کردار سے کون واقف نہیں‌ جس نے موسیٰ علہ کے بعد سونے کا بچھڑا بنایا ۔۔۔۔۔۔
ہندوءوں میں‌جادو ٹونی منتر عام ہے جو ایک ایسی ذہنی کیفیت پیدا کرتی ہے کے آدمی میلا کچیلا نظر آتا ہے ۔۔۔۔۔
مثال کے طور پر ایک پیر ہے بڑے بال بڑی داڑھی خوفناک شخصیت میلا کچیلا لباس ۔۔۔۔یہ اس کے کردار اور فعل پر منحصر ہے ۔۔۔۔۔۔
اسلام سلامتی اور پاکیزگی کا مذہب ہے ۔۔۔۔ سفید لباس عمدہ اخلاق اسلام کی ہی بدولت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
غرض جیسا مذہب ویسی ہی تہذیب ہوگی
فرہاد علی ، یہاں ایک مغالطہ پیدا ہو رہا ہے کہ دین اور مذہب کیا ایک ہی چیز کے دو نام ہیں یا دونوں الگ چیزیں ہیں۔
انسان کے مہذب بننے میں اس کا مذہب/دین ایک محدود حد تک اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ ہاں البتہ اس کی شخصیت سازی میں اس کا کردار بڑا اہم ہے اور اس کا کردار اسی نہج پر ہو گا جس طریقے سے اس کو بچپن میں مذہب/دین کی حقیقت سے روشناس کروایا جائے گا۔
ایسا نہیں ہے کہ کسی ایک مخصوص مذہب/دین کو ماننے والے سبھی لوگ بہت اچھے ہوں اور دوسرے کو ماننے والے سب برے ہوں۔ یہاں یہودیوں اور ہندوؤں کی مثال مناسب نہیں کہ ہم مسلمانوں میں بھی حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں اور یہ بات اسی چیز کو واضح کرتی ہے کہ انسان کو اللہ تعالی نے جو عقل و شعور عطا کیا ہے وہ اسے کس حد تک خود کو مہذب بنانے کے لئیے استعمال کرتا ہے۔ اور یہی عقل و شعور ہی مشاہدہ کی خشت اول اور سائنس کی بنیاد ہے۔ سائنسی غورو فکر اور مشاہدہ اسلام کے اصولوں سے ہرگز متصادم نہیں ہے لیکن اس کے نتائج کو مذہبی کسوٹی پہ پرکھنے سے پہلے یہ بات ذہن میں رہے کہ سائنسی قوانین انسانی مشاہدے کی بنیاد پہ بنائے جاتے ہیں اور جب تحقیق و تدقیق وسیع ہوتی ہے تو ان میں تبدیلی بھی کی جاتی ہے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ سائنس کے علم میں ہٹ دھرمی کی کوئی گنجائش نہیں۔ لہذا یہ ممکن ہے کہ جو نتائج ہمارا ساینسی علم آج ہمیں دے رہا ہے وہ کل کو نئی تحقیق میں غلط ثابت ہوں تو اگر ہم ان نتائج کو پہلے ہی سے مذہب کے تابع کرنے یا بنانے کی کوشش کریں گے تو ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہوتی رہے گی۔
ایسا کبھی نہیں ہو گا کہ سائنس کے کسی نتیجے یا قانون کو حرف آخر سمجھ کر اس پر مزید تحقیق نہ کی جائے جب کہ مذہب/دین کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے اصول و قوانین ایمان کا حصہ ہوتے ہیں اور ان میں تحریف و تعدیل نا ممکن ہے۔ اس لئیے سائنس اور مذہب/دین کو ان کی اپنی اپنی جگہ پر رکھ کر دیکھنا چاہئیے تا کہ ان میں ٹکراؤ پیدا نہ ہو۔
مذہب/دین ہمیں صرف مابعد الموت کے متعلق ہی نہیں بتاتا بلکہ اس کا اہم کام تو اسی دنیا میں ہے ۔ آپس کے میل جول ، تعلقات ،لین دین ،معاشی و معاشرتی رہنمائی اور زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی ہمیں مذہب/دین ہی سے ملتی ہے۔ اس کو صرف قبر یا آخرت کے معاملات کے لئیے مخصوص کر کے ہم حقیقت سے دور ہو جاتے ہیں۔
سائنسی غور و فکر اور تجربات و نتائج ہمیں مذہب سے قطعی دور نہیں کرتے بلکہ صرف اس روئیے کا تقاضہ کرتے ہیں کہ ہم نتائج کو مذہب/دین کے مطابق ڈھالنے سے گریز کریں۔ جب بھی ہم ایسا کریں گے تو ہمیں ان میں کہیں نہ کہیں تضاد نظر آئے گا اور حقیقت میں وہ تضاد نہیں ہماری سوچ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس پہ پھر کبھی بات کریں گے
 
Top