سائنس کی دنیا - اردو میں ڈب کی ہوئی کچھ ویڈیوز

زہیر عبّاس

محفلین
سائنس کی دنیا فیس بک پر بنایا ہوا ایک گروپ اور پیج ہے جہاں کچھ لوگ رضاکارنہ طور پر اردو میں سائنس کی ترویج کے لئے اپنی توانائی صرف کرتے ہیں۔ اسی گروپ کے کچھ لوگوں نے سائنسی ویڈیوز کا اپنے تئیں اردو میں ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب تک پچیس سے زائد مختلف سائنسی موضوعات پر ویڈوز کو اردو میں ڈب کیا جا چکا ہے۔ اردو محفل کے کچھ اراکین بھی اس کار خیر میں شامل ہیں۔ اگر اور کوئی رکن اس کام میں ہاتھ بٹانا چاہئے تو وہ اس پروجیکٹ میں شمولیت اختیار کرسکتا ہے۔

یا د رہے کہ یہ سارا کام شوقیہ طور پر لوگ کررہے ہیں لہٰذا اس کا معیار بہت زیادہ اچھا تو نہیں ہے تاہم گزارے لائق ہے۔

وہ لوگ جو فیس بک پر سائنس کی دنیا کے اراکین نہیں ہیں۔ ان کے لئے یہاں کچھ ویڈوز کو پوسٹ کرتا رہوں گا۔

 

تجمل حسین

محفلین
سائنس کی دنیا کے نام سے ایک فورم بھی تو تھا۔ جہاں ابھی تک صرف میں اور ایڈمن ہی رکن تھے اس کا کیا ہوا؟ :)
 

فاتح

لائبریرین
سائنس کی دنیا فیس بک پر بنایا ہوا ایک گروپ اور پیج ہے جہاں کچھ لوگ رضاکارنہ طور پر اردو میں سائنس کی ترویج کے لئے اپنی توانائی صرف کرتے ہیں۔ اسی گروپ کے کچھ لوگوں نے سائنسی ویڈیوز کا اپنے تئیں اردو میں ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب تک پچیس سے زائد مختلف سائنسی موضوعات پر ویڈوز کو اردو میں ڈب کیا جا چکا ہے۔ اردو محفل کے کچھ اراکین بھی اس کار خیر میں شامل ہیں۔ اگر اور کوئی رکن اس کام میں ہاتھ بٹانا چاہئے تو وہ اس پروجیکٹ میں شمولیت اختیار کرسکتا ہے۔

یا د رہے کہ یہ سارا کام شوقیہ طور پر لوگ کررہے ہیں لہٰذا اس کا معیار بہت زیادہ اچھا تو نہیں ہے تاہم گزارے لائق ہے۔

وہ لوگ جو فیس بک پر سائنس کی دنیا کے اراکین نہیں ہیں۔ ان کے لئے یہاں کچھ ویڈوز کو پوسٹ کرتا رہوں گا۔

بہت خوب۔ اور معیار بھی اتنا برا نہیں لگا۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
سائنس کی دنیا کے نام سے ایک فورم بھی تو تھا۔ جہاں ابھی تک صرف میں اور ایڈمن ہی رکن تھے اس کا کیا ہوا؟
اصل میں صرف ایک ہی صاحب ہیں جو اس طرح کی پروگرامنگ جانتے ہیں۔ اپنی مصروفیات کی بناء پر وہ اس کو وقت نہیں دے پائے اور یہ فورم ابھی تک فعال نہیں ہوسکا۔
 

تجمل حسین

محفلین
اصل میں صرف ایک ہی صاحب ہیں جو اس طرح کی پروگرامنگ جانتے ہیں۔ اپنی مصروفیات کی بناء پر وہ اس کو وقت نہیں دے پائے اور یہ فورم ابھی تک فعال نہیں ہوسکا۔
اردو میں محمد سعد بھائی کےفورم کے بعد شائد یہ اپنی طرز کا دوسرا فورم ہوتا۔ انہیں چاہیے تھا کہ زیادہ نہ سہی بس اسے تھوڑا بہت فعال کرکے چھوڑ دیتے۔ باقی احباب اپنا اپنا حصہ ڈالتے جاتے یوں فورم تھوڑا بہت تو فعال رہتا :)
 

زہیر عبّاس

محفلین
انہیں چاہیے تھا کہ زیادہ نہ سہی بس اسے تھوڑا بہت فعال کرکے چھوڑ دیتے۔ باقی احباب اپنا اپنا حصہ ڈالتے جاتے یوں فورم تھوڑا بہت تو فعال رہتا
اصل میں بات یہ ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے کسی کو اچھے لگے یا نہ لگے جو وزیٹر کا ٹریفک فیس بک سے ملتا ہے وہ کسی اردو کے فورم اور وہ بھی سائنسی فورم کو نہیں مل سکتا ۔ یہاں تک کہ سائنس کی دنیا کی ویب سائٹ بھی بڑے شوق سے بنائی گئی تھی تاہم فیس بک سے وزیٹر کو لانا بہت مشکل تھا ۔ اسی لئے لوگوں نے ہمت ہار دی اور اب فیس بک پر ہی تکیہ کئے ہوئے ہیں ۔ حالانکہ فیس بک میں حد درجہ کے مسائل ہیں۔ لوگ ایک ہی طرح کے سوال بار بار کرتے ہیں جن کے جواب پہلے ہی دیئے جاچکے ہوتے ہیں تاہم کیونکہ نہ تو فیس بک کی پوسٹ کو آرگنائزکیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کی تلاش کا فنکشن اتنا طاقتور ہے لہٰذا کوئی تلاش کی زحمت نہیں کرتا اور ایڈمن ایک ہی سوال کے بار بار جواب دیئے جاتے ہیں۔ اسی مسئلے کو ختم کرنے کے لئے فورم کا سوچا تھا۔
 

تجمل حسین

محفلین
اصل میں بات یہ ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے کسی کو اچھے لگے یا نہ لگے جو وزیٹر کا ٹریفک فیس بک سے ملتا ہے وہ کسی اردو کے فورم اور وہ بھی سائنسی فورم کو نہیں مل سکتا ۔ یہاں تک کہ سائنس کی دنیا کی ویب سائٹ بھی بڑے شوق سے بنائی گئی تھی تاہم فیس بک سے وزیٹر کو لانا بہت مشکل تھا ۔ اسی لئے لوگوں نے ہمت ہار دی اور اب فیس بک پر ہی تکیہ کئے ہوئے ہیں ۔ حالانکہ فیس بک میں حد درجہ کے مسائل ہیں۔ لوگ ایک ہی طرح کے سوال بار بار کرتے ہیں جن کے جواب پہلے ہی دیئے جاچکے ہوتے ہیں تاہم کیونکہ نہ تو فیس بک کی پوسٹ کو آرگنائزکیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کی تلاش کا فنکشن اتنا طاقتور ہے لہٰذا کوئی تلاش کی زحمت نہیں کرتا اور ایڈمن ایک ہی سوال کے بار بار جواب دیئے جاتے ہیں۔ اسی مسئلے کو ختم کرنے کے لئے فورم کا سوچا تھا۔
تو یوں کیجئے کہ فیس بک گروپ/ پیچ بھی رہنے دیا جائے اور فیس بک پر جو بھی سوال پوچھے اسے جواب کے لیے فورم پر آنا لازمی کردیجئے۔ بے شک دو چار سطریں فیس بک پر لکھ کر باقی کے لیے فورم کا ربط دے دیجئے۔ :)
کیونکہ بہرحال فیس بک سے اصل مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ :)
 

محمد سعد

محفلین
اصل میں بات یہ ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے کسی کو اچھے لگے یا نہ لگے جو وزیٹر کا ٹریفک فیس بک سے ملتا ہے وہ کسی اردو کے فورم اور وہ بھی سائنسی فورم کو نہیں مل سکتا ۔ یہاں تک کہ سائنس کی دنیا کی ویب سائٹ بھی بڑے شوق سے بنائی گئی تھی تاہم فیس بک سے وزیٹر کو لانا بہت مشکل تھا ۔ اسی لئے لوگوں نے ہمت ہار دی اور اب فیس بک پر ہی تکیہ کئے ہوئے ہیں ۔ حالانکہ فیس بک میں حد درجہ کے مسائل ہیں۔ لوگ ایک ہی طرح کے سوال بار بار کرتے ہیں جن کے جواب پہلے ہی دیئے جاچکے ہوتے ہیں تاہم کیونکہ نہ تو فیس بک کی پوسٹ کو آرگنائزکیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کی تلاش کا فنکشن اتنا طاقتور ہے لہٰذا کوئی تلاش کی زحمت نہیں کرتا اور ایڈمن ایک ہی سوال کے بار بار جواب دیئے جاتے ہیں۔ اسی مسئلے کو ختم کرنے کے لئے فورم کا سوچا تھا۔
ارے بھائی، ہمت ہارنے سے پہلے کوشش کا حق ادا کر کے تو دیکھیے۔ اتنے کم وقت میں تو کسی بھی نئی ویب سائٹ کا ٹریفک نہیں بنتا جتنے وقت میں آپ نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ ساڑھے چھے سال تو تجسس سائنس فورم کو ہو گئے ہیں، لیکن ٹریفک کو پریشانی بنانے کے بجائے کوشش یہی رکھی ہے کہ معیاری مواد کی مقدار اس حد تک بڑھا لی جائے کہ یہ فورم ایک معیار بن جائے سائنسی گفتگو کے لیے، جیسے انگریزی میں Physics Forums کا ایک معیار ہے۔ یہ الگ بات کہ اپنی تعلیم کو بھی ساتھ ساتھ چلانا پڑتا ہے تو رفتار سست ہی رہی ہے۔ :D
 

زہیر عبّاس

محفلین
ارے بھائی، ہمت ہارنے سے پہلے کوشش کا حق ادا کر کے تو دیکھیے۔
جناب میں نے اپنی ہمت کے ہارنے کی بات نہیں کی تھی بلکہ تجمل بھائی کے سوال کے جواب میں عرض کی تھی کہ جو بھائی فورم اور ویب سائٹ بنانے میں مہارت رکھتے تھے انہوں نے کم ٹریفک کی وجہ سے اس میں مزید دلچسپی نہیں لی۔ میں اس طرح کی چیزوں سے نابلد ہوں وگرنہ خدا کا شکر ہے کہ میں ہار ماننے سے پہلے پوری جان لڑا تا ہوں :)

اتنے کم وقت میں تو کسی بھی نئی ویب سائٹ کا ٹریفک نہیں بنتا جتنے وقت میں آپ نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔
جناب میں نے کب کہا کہ میں نے ہاتھ کھڑے کردیئے۔ میرے بلاگ جہان سائنس میں تو الله کے فضل سے تقریباً روز ہی کوئی نہ کوئی پوسٹ شایع ہوتی ہے۔ ہاں اس پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی تاہم اب جو طریقہ میں نے استعمال کیا ہے اس سے صرف ایک ہی ماہ میں ٹریفک پچھلے چار ماہ کے مقابلے میں چار گنا زیادہ بڑھ گئی ہے۔

ویسے آپ بھی یہ فیس بک گروپ جوائن کرسکتے ہیں۔ سائنسی سوال و جواب کے لئے یہ کافی اچھا اور متاثر کن ہے ۔ جوابات کا معیار بھی کافی اچھا ہے۔ محفل کے کئی ساتھی بشمول بلال اعظم صاحب اور قیصرانی صاحب بھی اس کے رکن ہیں اور اپنا اپنا حصّہ اکثر ڈالتے رہتے ہیں ۔
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
دماغ کا انعامی نظام.. ( ہمین لذت کا احساس کیوں ہوتا ہے اور نشہ انسان کے دماغ پہ کیسے اثر انداز ہوتا ہے ) اردو میں
ترجمہ : قدیر قریشی
آواز: زرتاشہ قریشی
ایڈٹنگ: اختر علی شاھ
پیشکش: سائنس کی دنیا پراجیکٹس

دماغ کا انعام کا نظام

دماغ ہمارے وجود کا مرکز ہے – ہم جو چیز بھی محسوس کرتے ہیں اور جو کام بھی کرتے ہیں وہ دماغ کی بدولت ہی ممکن ہے – یہ باہر کی دنیا سے آنے والے احساسات مثلاً کھانے کی خوشبو اور جسم کے اندر پیدا ہونے والی معلومات مثلاً بھوک کے احساس کو پراسیس کرتا ہے -

T-0.31 ان معلومات کو پراسیس کرکے دماغ اس کا مناسب ردِ عمل تجویز کرتا ہے یعنی جسم میں وہ حرکات پیدا کرتا ہے جو ہمیں کامیابی سے زندہ رکھنے میں مددگار ہوتی ہیں – مثال کے طور پر بھوک لگنے پر کھانا تلاش کرنا

T-0.47 دماغ کی گہرائیوں میں ایک حصہ ہے جسے limbic system کہا جاتا ہے اور جو دماغ کی سطحی پرتوں یعنی cortex کے نیچے واقع ہے – ارتقاء کے حوالے سے cortex کی نسبت یہ limbic system بہت پرانا ہے – limbic system کا ایک حصہ hippocampus کہلاتا ہے جو ہماری یادوں کو محفوظ کرنے اور سیکھنے میں معاون ہوتا ہے – Amygdala جذبات پیدا کرتا ہے – striatum ایسی عادتیں بنانے میں مدد دیتا ہے جنہیں ہم بغیر سوچے سمجھے سرانجام دے سکتے ہیں – اس کے علاوہ یہ دماغ میں انعام کے نظام کا حصہ بھی ہے – limbic system دماغ میں انعام کا نظام بھی قائم کرتا ہے جو دماغ کے کئی حصوں کو آُپس میں ملاتا ہے اور یہ سب حصے مل کر ہم میں لذت کا احساس پیدا کرتے ہیں – ہم مجبور ہوجاتے ہیں کہ وہ کام بار بار کریں جنہیں کرنے سے یہ لذت کا احساس پیدا ہوتا ہے– ان میں خوش ذائقا کھانا اور ایسے دوسرے کام شامل ہیں جو ہماری بقاء کے لیے اہم ہیں –

T-1.41 انعام یا انعام سے متعلقہ چیزیں دماغ کے درمیانی حصے کو فعال بناتی ہیں جسے (VTA) ventral tegmental area کہتے ہیں – یوں اس انعام کے نظام میں ایک مسلسل تعامل (chain reaction) شروع ہوتا ہے – اس حصے سے نکلنے والے لمبے ریشے دماغ کے ایک دوسرے حصے میں پہنچتے ہیں جسے ventral straitum (VS) کہا جاتا ہے – جب VS میں موجود Nucleus Accumbens کے نیورونز ان ریشوں کی فائرنگ کی بدولت کام کرنا شروع کرتے ہیں تو ہمیں لذت محسوس ہوتی ہے - Nucleus Accumbens کو عام طور پر دماغ میں لذت کا مرکز کہا جاتا ہے – جب اس حصے میں موجود نیورونز کام کرنا شروع کرتے ہیں تو ہر نیورون ایک برقی سگنل پیدا کرتا ہے جس کے نتیجے میں ایسے مالیکولز خارج ہوتے ہیں جنہیں نیوروٹرانسمٹر کہا جاتا ہے اور جو کیمیائی پیغام رساں کے طور پر کام کرتے ہیں

T-2.32 یہ کیمیائی پیغامات دوسرے نیورونز وصول کرتے ہیں – اس طرح ایک نیوروسرکٹ کے مختلف نیورونز ایک دوسرے سے پیغامات کا تبادلہ کرتے ہیں – دماغ میں کئی قسم کے نیوروٹرانسمٹرز ہوتے ہیں جن کے ذمہ مختلف کام سرانجام دینا ہے – پیغام بھیجنے والے اور پیغام وصول کرنے والے نیورون کے درمیان کچھ فاصلہ ہوتا ہے جسے synapse کہا جاتا ہے – جو نیورون پیغام بھیچ رہا ہو اسے presynaptic کہا جاتا ہے اور جو پیغام وصول کر رہا ہو اسے postsynaptic کہتے ہیں - presynaptic خلیے میں برقی سگنل کی موجودگی کی وجہ سے کیمیائی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں

T-3.07 نیوروٹرانسمٹر مالیکیولز کچھ پیکٹس میں مقید ہوتے ہیں – برقی سگنلز کی وجہ سے یہ پیکٹ خلیے کی جھلی کے پاس پہنچ جاتے ہیں جہاں یہ پیکٹ کھلتے ہیں اور نیوروٹرانسمٹر مالیکیولز synapse میں آزاد ہوجاتے ہیں – دماغ کے انعام کے نظام میں ان نیورو ٹرانسمٹرز کو dopamine کہا جاتا ہے – dopamine کے مالیکیولز synapse میں حرکت کرتے ہوئے اگلے نیورون کی جھلی میں موجود dopamine receptors سے جاملتے ہیں – یہ ریسیپٹرز postsynaptic نیورون کی جھلی پر جگہ جگہ موجود ہوتے ہیں اور ان کا آدھا حصہ نیورون کے باہر ہوتا ہے اور آدھا نیورون کے اندر –

T-3.44 جب ڈوپامین مالیکیول اس ریسپٹر کے بیرونی حصے سے ملتا ہے تو تالے میں چابی کی طرح فٹ ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں postsynaptic نیورون میں بہت سی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں - جب اس میں ڈوپامین کی مقدار زیادہ ہوتی ہے تو کچھ پروٹٰین جو ان ریسیپٹرز کے اندرونی حصے سے جڑی ہوتی ہیں اس سگنل کو نیورون کے مرکز تک پہنچا دیتی ہیں – اس دوران ڈوپامین کے مالیکیول اپنا کام مکمل کرکے فارغ ہوچکے ہوتے ہیں – ان میں سے کچھ مالیکیولز dopamine transporter نامی پروٹین کے ذریعے presynaptic نیورون میں واپس جاکر دوبارہ پیکٹس میں چلے جاتے ہیں جہاں سے انہیں دوبارہ چھوڑا جاسکتا ہے

T-4.23 ایک صحت مند دماغ میں اگر انعامی نظام فعال نہ ہو تو بھی synapses کے درمیان کچھ مقدار میں ڈوپامین موجود رہتی ہے – جب انعامی نظام کام شروع کرتا ہے (مثلاً جب ہم کھانا کھاتے ہیں) تو presynaptic نیورون ڈوپامین کو بہت زیادہ مقدار میں خارج کرتا ہے - dopamine transporter اس اضافی ڈوپامین کو کچھ دیر بعد واپس presynaptic خلیے میں پہنچا دیتے ہیں اور synapse میں ڈوپامین کی مقدار پہلے جیسی ہوجاتی ہے

T-4.55 اس انعام کے نظام میں ڈوپامین کی کمی اور زیادتی سے دماغ دنیا کے پیچیدہ نظام میں جلد یہ سیکھ لیتا ہے کہ اسے اپنی بقاء کے لیے کیا کرنا ہے - ڈوپامین کا نارمل کام دماغ کےVS نامی حصے کے ذمے ہوتا ہے جس کی وجہ سے striatum اور لمبک سیسٹم کے علاقے سرگرمِ عمل ہوتے ہیں – دماغ کے انعام کے نظام کے سرگرم ہونے سے دماغ کے باقی حصوں میں بھی بہت سی تبدیلیاں آتی ہیں – VS کے علاقے سے انعامی نظام کی شاخیں prefrontal cortex تک پہنچتی ہیں جس میں سوچنے، سمجھنے، پلاننگ کرنے اور فیصلے کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے – انعام کا نظام لمبک سیسٹم کے علاوہ دماغ کے ان حصوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے جہاں حسیات اور عضلات کے کنٹرول کی پراسیسنگ ہوتی ہے

T-5:40 انعامی نظام کے سرگرم ہونے سے cerebellum پر بھی اثر پڑتا ہے جو کہ دماغ کے پچھلے حصے میں ہوتا ہے اور جہاں سے ہماری حرکات اور ہماری توجہ کو کنٹرول کیا جاتا ہے – انعامی نظام کی نارمل سرگرمی سے دماغ کے تمام حصوں پر اثر پڑتا ہے – اس نظام کی بدولت ایسے محرکات کی موجودگی میں انعام دیا جاتا ہے جو ہماری زندہ رہنے کی بنیادی ضرورتوں مثلاً غذا کی تلاش کو پورا کریں – اس انعام کے نتیجے میں ہم ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں تاکہ ہمیں یہ انعام مل سکے -

T-6:12 جب ایک دفعہ دماغ ایسے محرکات کے نتیجے میں انعام جاری کرنے لگے تو اس محرک کو صرف دیکھ لینے سے ہی دماغ کے انعامی نظام میں ڈوپامین کا اخراج ہونے لگتا ہے - جب کوئی شخص پہلی دفعہ کوکین استعمال کرتا ہے تو یہ بہت جلد دماغ تک پہنچ جاتی ہے جہاں پر یہ presynaptic نیورونز کے transporters کو بند کردیتی ہے – چونکہ ڈوپامین اب presynaptic نیورون میں واپس نہیں جاسکتی اس لیے یہ synapse میں جمع ہونے لگتی ہے جس وجہ سے اس کی مقدار نارمل سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور بہت دیر تک زیادہ رہتی ہے – اس وجہ سے postsynaptic نیورون بہت تیزی سے کام کرنے لگتا ہے جس وجہ سے شدید راحت کا احساس پیدا ہوتا ہے – اس وجہ سے دماغ میں کوکین اور لذت کی ایک رفاقت یعنی association بن جاتی ہے جس وجہ سے وہ شخص بار بار کوکین استعمال کرکے اس راحت کا احساس پیدا کرنا چاہتا ہے

T-6:55 جب کوئی شخص پہلی بار Methamphetamine استعمال کرتا ہے تو یہ بھی بہت جلد دماغ تک پہنچ جاتی ہے – کم مقدار میں استعمال کرنے سے Methamphetamine کے مالیکیول کوکین کی طرح ڈوپامین کو presynaptic خلیے میں جانے سے روکتے ہیں – لیکن کوکین کے برعکس، اگر Meth کو زیادہ مقدار میں استعمال کیا جائے تو یہ ڈوپامین کی پیداوار کی رفتار کو بھی بڑھا دیتی ہے جس سے synapse میں ڈوپامین کی مقدار بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جہاں یہ ڈوپامین مقید ہوجاتی ہے کیونکہ meth ڈوپامین کو واپس presynaptic خلیے میں جانے سے بھی روک دیتی ہے – کیونکہ اتنی زیادہ مقدار میں ڈوپامین
Synapse میں بہت زیادہ دیر تک رہتی ہے اس لیے postsynaptic نیورون کی کارکردگی خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے جس سے اس شخص کو شدید لذت کا احساس ہوتا ہے - اس وجہ سے meth بے انتہا نشہ آور دوا ہے

T-7:45 کوکین اور meth کے استعمال کے نتائج انتہائی خطرناک ہوتے ہیں – ان منشیات کے استعمال کی وجہ سے دماغ کے انعام کے نظام کا دماغ کے باقی حصوں سے تعلق مستقل طور پر خراب ہوجاتا ہے جس وجہ سے جذبات، حرکت کرنے، سوچنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت پر اثر پڑتا ہے – ان دواؤں کے مسلسل استعمال سے دماغ کی وائرنگ بگڑ جاتی ہے جس وجہ سے مسلسل استعمال کرنے والا نشئی ان کے استعمال سے وہ راحت محسوس نہیں کر پاتا جو اسے منشیات کے استعمال کے شروع کے دنوں میں محسوس ہوئی تھی – اسے محض اپنے آپ کو نارمل رکھنے کے لیے بھی یہ ادویات استعمال کرنا پڑتی ہیں اور وہ نتائج سے بے پرواہ ہو کر یہ ادویات مسلسل استعمال کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے - اس حالت کو ادویات کی لت پڑ جانا یعنی addiction کہا جاتا ہے -​
 

محمد سعد

محفلین
جناب میں نے اپنی ہمت کے ہارنے کی بات نہیں کی تھی بلکہ تجمل بھائی کے سوال کے جواب میں عرض کی تھی کہ جو بھائی فورم اور ویب سائٹ بنانے میں مہارت رکھتے تھے انہوں نے کم ٹریفک کی وجہ سے اس میں مزید دلچسپی نہیں لی۔ میں اس طرح کی چیزوں سے نابلد ہوں وگرنہ خدا کا شکر ہے کہ میں ہار ماننے سے پہلے پوری جان لڑا تا ہوں :)


جناب میں نے کب کہا کہ میں نے ہاتھ کھڑے کردیئے۔ میرے بلاگ جہان سائنس میں تو الله کے فضل سے تقریباً روز ہی کوئی نہ کوئی پوسٹ شایع ہوتی ہے۔ ہاں اس پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی تاہم اب جو طریقہ میں نے استعمال کیا ہے اس سے صرف ایک ہی ماہ میں ٹریفک پچھلے چار ماہ کے مقابلے میں چار گنا زیادہ بڑھ گئی ہے۔

ویسے آپ بھی یہ فیس بک گروپ جوائن کرسکتے ہیں۔ سائنسی سوال و جواب کے لئے یہ کافی اچھا اور متاثر کن ہے ۔ جوابات کا معیار بھی کافی اچھا ہے۔ محفل کے کئی ساتھی بشمول بلال اعظم صاحب اور قیصرانی صاحب بھی اس کے رکن ہیں اور اپنا اپنا حصّہ اکثر ڈالتے رہتے ہیں ۔
یہ تو مجھے اندازہ تھا ہی کہ ٹیم کے مستقل مزاج ترین افراد میں آپ اوپر اوپر ہیں۔ میں یہ پیغام بالراست طور پر باقی ٹیم کو پہنچانا چاہ رہا تھا، توجہ بھٹکنے سے الفاظ کا چناؤ غلط ہو گیا جس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ :shut-mouth:
فیسبک گروپ میں غالباً میں پہلے سے موجود ہوں۔ کچھ عرصے سے زیادہ وقت نہیں نکال پایا۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
کیا آپ کو کبھی ایسا محسوس ہوا ہے،، کہ یہ واقعہ آپ کے ساتھ پہلے بھی ہوچکا ہے
(deja vu) ڈے ژا وو
کیا ہے (اردو میں)
ترجمہ : قدیر قریشی
آواز: اندر کشن
پیشکش: سائنس کی دنیا پراجیکٹس


کیا آپ کو کبھی ڈے ژا وو (deja vu) کا تجربہ ہوا ہے - یہ وہ موہوم سا احساس ہے کہ ہم اس جگہ پہلے بھی آ چکے ہیں – مثلاً آپ کسی ریسٹورانٹ میں جائیں اور آپ کو اچانک محسوس ہو کہ آپ کے ساتھ جو بھی ہورہا ہے وہ پہلے بھی ہوچکا ہے – لیکن یہ آپ کی یاد نہیں ہو سکتی کیونکہ آپ اس ریسٹورانٹ میں پہلی دفعہ جا رہے ہیں – آپ نے جو ڈش آرڈر کی ہے وہ بھی آپ نے پہلے کبھی آرڈر نہیں کی – یہ سب کیا ہے؟

ڈے ژا وو کی کوئی واحد وضاحت ممکن نہیں ہے – اس قسم کا تجربہ عموماً اچانک ہوتا ہے اور اس کا دورانیہ عموماً بہت کم ہوتا ہے جس کی وجہ سے سائنس دانوں کے لیے اس تجربے کو ریکارڈ کرنا اور اس کا تجزیہ کرنا ناممکن ہوتا ہے – سائنس دان سارا سارا دن لیبارٹری میں بیٹھ کر اس تجربے کا انتظار نہیں کر سکتے – ایسا کرنے میں ممکن ہے سالوں لگ جائیں – اس کی کوئی جسمانی علامات نہیں ہوتیں – لوگ اسے محض ایک احساس ہی بتلاتے ہیں – چونکہ اس کے سائنسی ثبوت موجود نہیں ہیں اس لیے اس پر بہت قیاس آرائیاں کی گئی ہیں –

امیل بوراک نامی سائنس دان نے سب سے پہلے ہمیں ڈے ژا وو کی ترکیب سے روشناس کرایا – یہ فرانسیسی زبان کا لفظ ہے اور اس کا لفظی مطلب ہے 'پہلے سے دیکھا ہوا' – اب تک اس کی توجیہہ کے لیے 40 سے زیادہ مفروضات پیش کیے جاچکے یہں – نیورو سائنس، دماغ کی امیجنگ کی ٹیکنالوجی اور سائیکالوجی میں ترقی کی وجہ سے اب بہت سے مفروضات کو رد کیا جاچکا ہے – آئیے اس ریسٹورانٹ کی مثال استعمال کرتے ہوئے ان تین مفروضات پر نظر ڈالتے ہیں جو آج کل زیادہ معتبر مانے جاتے ہیں

پہلے مفروضے کو ڈبل پراسیسنگ کہا جاسکتا ہے – فرض کیجیے ریسٹورانٹ میں ایک ویٹر کے ہاتھ سے ایک ٹرے گر جاتی ہے – جب اس نظارے کے بارے میں انفارمیشن آپ کے دماغ تک پہنچتی ہے تو دماغ کے مختلف حصے اس انفارمیشن کو پراسیس کرتے ہیں – آپ ویٹر کے بازو دیکھتے ہیں، اس کا مدد کے لیے پکارنا سنتے ہیں، اور کھانے کی خوشبو سونگھتے ہیں، یہ تمام انفارمیشن ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں دماغ کے مختلف راستوں سے گذرتی ہے جسے دماغ پراسیس کر کے ان کے تانے بانے جوڑ کر شعور کو ایک مربوط تجربہ فراہم کرتا ہے – عموماً دماغ مختلف حسیات کو جوڑ کر انہیں مربوط لمحوں میں سمونے میں کامیاب رہتا ہے لیکن کبھی کبھار دماغ کے کسی ایک راستے سے گذرتی انفارمیشن کی رفتار باقی راستوں کی نسبت کچھ سست ہوجاتی ہے – چنانچہ شعور میں یہ انفارمیشن اس سے متعلقہ باقی انفارمیشن کی نسبت دیر سے پہنچتی ہے چنانچہ دماغ اسے غلطی سے ایک علیحدہ واقعہ سمجھ بیٹھتا ہے – جب یہ انفارمیشن دوسری راستوں سے پہنچی انفارمیشن کے بعد شعور میں پہنچتی ہے تو شعور میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ یہ انفارمیشن دماغ مین پہلے بھی موجود ہے –

دوسرا مفروضہ اسے حال کی غلطی کی بجائے 'ماضی' کی الجھن بتلاتا ہے – اسے hologram theory کہا جاتا ہے – اسے بیان کرنے کے لیے ہم میز پر پڑے میزپوش کی مثال لیتے ہیں - جب آپ اس کپڑے پر بنے پیٹرن کو دیکھتے ہیں تو اس پیٹرن سے دماغ میں اس سے ملتی جلتی کوئی پرانی یاد جاگ اٹھتی ہے – یہ مفروضہ اس کی وجہ یہ بتلاتا ہے کہ دماغ میں یادیں ہولوگرام کی طرح ہوتی ہیں – ہولوگرام کے ایک چھوٹے سے حصے میں بھی پوری تصویر دیکھی جاسکتی ہے - ہو سکتا ہے کہ آپ کے دماغ نے میز پوش سے آپ کی دادی جان کے گھر سے جڑٰی ایک پرانی یاد کا ناتا جوڑ دیا ہو – البتہ چونکہ یاد کا کنکشن کمزور ہے اس لیے آپ کو یہ تو یاد آ جائے گا کہ یہ پیٹرن دیکھا بھالا لگتا ہے لیکن یہ شاید یاد نہ آئے کہ یہ پیڑرن آپ نے دادی جان کے گھر میں دیکھا تھا – دوسرے لفظوں میں آپ کے دماغ نے ایک پرانی یاد ڈھونڈ نکالی ہے لیکن یہ یاد کہاں کی ہے یہ آپ کے شعور میں واپس نہیں آیا – اس سے آپ کو یہ تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ پیٹرن جانا پہجانا ہے لیکن یہ یاد نہیں آتا کہ کیوں – آپ کو بس یہی احساس ہوتا ہے کہ اگرچہ آپ اس ریسٹورانٹ میں پہلی دفعہ آئے ہیں لیکں آپ نے یہ ٹیبل کلاک پہلے بھی دیکھ رکھا ہے

ذرا اس کانٹے کی طرف تو دیکھیے - ہمارا آخری مفروضہ 'نامکمل توجہ' ہے – اس مفروضے کے مطابق ڈے ژا وو اس وقت ہوتا ہے جب ہمارا دماغ ایک واقعہ دیکھ رہا ہوتا ہے لیکن اس کی توجہ ایک خاص چیز پر رہنے کی وجہ سے بٹ جاتی ہے – جب توجہ واپس اس واقعے کی طرف آتی ہے تو ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے گویا ہم پہلے بھی یہاں آچکے ہیں – مثلاً ابھی آپ نے اس کانٹے کہ طرف توجہ دی تھی چنانچہ اس وقت آپ کی توجہ میز پوش یا ویٹر کی طرف نہیں تھی – اگرچہ آپ کا دماغ آپ کے بصری نظام سے تمام سگنلز کو پراسیس کر رہا تھا لیکن یہ پراسیسنگ شعوری نہیں تھی - جب آُپ کانٹے سے توجہ ہٹاتے ہیں تو اجانک آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ یہی منظر پہلے بھی دیکھ چکے ہیں (اور یہ سج بھی ہے کہ ابھی ابھی آپ نے یہی منظر دیکھا تھا لیکن آپ نے توجہ نہیں دی تھی)

یہ تینوں مفروضات ڈے ژا وو کی عمومی خصوصیات کی وضاحت کرتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی مفروضہ بھی حتمی ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا – جب تک سائنس دان اس مظہر کی بہتر توجیہہ نہیں کر پاتے اس وقت تک ہم ڈے ژا وو کو خود سے سٹڈی کر سکتے ہیں – یوں بھی ڈے ژا وو کے زیادہ تر قصے لوگوں کی زبانی ہی سننے کو ملتے ہیں – ان میں آپ کا قصہ بھی شامل ہوسکتا ہے – آئیندہ آپ کو کبھی ڈے ژا وو کا تجربہ ہو تو کچھ لمحے رک کر اس کے بارے میں سوچیے گا – کیا آپ کی توجہ بٹی ہوئی تھی؟ کیا آپ نے کوئی مانوس چیز دیکھی – کیا آپ کو اپنا دماغ سست روی کا شکار لگتا ہے – یا یہ کچھ اور ہی چیز ہے

 

زہیر عبّاس

محفلین
اسٹرنگ تھیوری
ترجمہ: قدیر قریشی
آواز : اختر علی شاھ
پیشکش: سائنس کی دنیا پراجیکٹس



سٹرنگ تھیوری

سٹرنگ تھیوری کی مدد سے ہم بگ بینگ کے راز افشا کر سکتے ہیں – آئن سٹائن کے فارمولے عین بگ بینگ کے لمحے پر اور بلیک ہول کے مرکز میں ناکام ہوجاتے ہیں - کائنات کی یہ دو سب سے زیادہ لچسپ جگہیں ہیں جو آئن سٹائن کے فارمولے کی اس کمزوری کی وجہ سے ہماری سمجھ سے باہر ہیں – ہمیں اس سے بہتر نظریے کی ضرورت ہے اور سٹرنگ تھیوری یہ ضرورت پوری کر سکتی ہے – سٹرنگ تھیوری ہمیں بگ بینگ سے پہلے کے حالات کا پتا دے سکتی ہے جس سے ہم کائنات کی تخلیق کے محرکات سمجھ سکتے ہیں –

سٹرنگ تھیوری کا دعویٰ ہے کہ ہماری کائنات اکیلی نہیں ہے بلکہ ایک ملٹی ورس کا حصہ ہے جس میں کھربوں اور کائناتیں بھی موجود ہیں – بگ بینگ کیسے ہوا؟ آئن سٹائن کی مساوات ہمیں یہ بتلاتی ہیں کہ ہم گویا ایک کیڑے کی مانند ہیں جو صابن کے ایک ایسے بلبلے پر ہے جو پھیل رہا ہے – یہ بگ بینگ تھیوری کا لبِ لباب ہے – سٹرنگ تھیوری ہمیں بتلاتی ہے کہ اس قسم کے بہت سے اور بلبلے بھی ملٹٰی ورس میں موجود ہیں - ہر بلبلہ ایک کائنات ہے – جب دو بلبلے آپس میں ٹکراتے ہیں تو ایک نئی کائنات وجود میں آتی ہے – جب ایک بلبلہ دو بلبلوں میں تقسیم ہوتا ہے تو ایک کائنات دو کائناتوں میں بٹ جاتی ہے – ہمارا خیال ہے کہ بگ بینگ یا تو دو کائناتوں کے ضم ہونے سے وجود میں آیا اور یا پھر ایک کائنات کے دو کائناتوں میں تقسیم ہونے کا نتیجہ ہے –

اگر تین سے زیادہ سمتیں یا جہتیں (جنہیں انگریزی میں ڈایمنشنز کہا جاتا ہے) موجود ہیں اور اگر ایک سے زیادہ کائناتیں موجود ہیں تو کیا ہم ایک کائنات سے دوسری کائنات میں سفر کرسکتے ہیں؟ ایسا کرنا تقریباً ناممکن ہے - ایلس ان ونڈرلینڈ نامی کتاب سے ہمیں یہ امکان ملتا ہے کہ شاید ایک دن ہم کائناتوں کے درمیان ایک ورم ہول بنا سکیں – یہ ایک ورم ہول کا خاکہ ہے – ایک کاغذ لیجیے اور اس پر دو نقطے لگا دیجیے – ان دو نقطوں کے درمیان کم سے کم فاصلہ ایک سیدھی لکیر ہوگا – لیکن اگر ہم اس کاغذ کو تہہ کر سکیں تو شاید ان نقطوں کے درمیان ایک شارٹ کٹ دستیاب ہوسکے - اسی طرح ورم ہول سپیس ٹائم میں ایک شارٹ کٹ ہوتا ہے – ورم ہولز محض ایک مفروضہ نہیں ہیں بلکہ یہ آئن سٹائن کی مساوات کا ایک حقیقی حل ہے - سٹرنگ تھیوری بھی ورم ہولز کی پیش گوئی کرتی ہے –

کیا ورم ہولز میں سے گذرنا عملی طور پر ممکن ہے؟ ہمیں فی الحال اس کا علم نہیں ہے –سٹیفن ہاکنگ اور بہت سے دوسرے ماہرین میں یہ بحث چل رہی ہے کہ کیا انسان ورم ہول سے گذر کر کسی دوسری کائنات میں جاسکتا ہے – اگر ایسا ممکن ہو تو پھر ورم ہولز کو ٹائم مشین کے طور پر استعمال کرنا ممکن ہوگا - چونکہ سٹرنگ تھیوری کائنات اور ملٹٰ ورس کی ہر چیز کے بارے میں ہے اس لیے یہ تھیوری وقت کے بارے میں بھی ہے – آئن سٹائن کی مساوات کی رو سے اصولاً ٹائم مشین بنانا ممکن ہے لیکن عملاً اسے بنانا بے انتہا مشکل ہے – ایسا کرنے کے لیے بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہے جو ڈیلوریم اور پلوٹونیم سے حاص نہیں ہوسکتی –

اب سے کھربوں سالوں بعد کائنات بے انتہا سرد ہوجائے گی – ہمارا خیال ہے کہ کائنات کا مستقبل ہر چیز کا جم جانا ہے جسے بگ فریز کہا جاتا ہے – اس وقت تمام ستارے ختم ہوجائیں گے اور ٹمٹمانا بند کردیں گے – کائنات بے انتہا وسیع اور بے انتہا سرد ہوجائے گی– طبیعات کے قوانین اس بات کے ضامن ہیں کہ اس وقت تمام ذہین مخلوقات فنا ہوجائیں گی – کائنات کی موت سے بچنے کا صرف ایک ذریعہ ہے کہ ذہین مخلوق یہ کائنات چھوڑ کر کسی اور کائنات میں چلی جائے – اب ہم سائنس فکشن کے دائرے میں داخل ہورہے ہیں لیکن کم از کم ہمارے پاس سٹرنگ تھیوری کی مساوات ہیں جو ہمیں یہ حساب لگانے میں مدد دے سکتی ہیں کہ آٰیا ورم ہول سے گذرنا ممکن ہے یا نہیں تاکہ ہم کسی دوسری کائنات میں جاسکیں جہاں درجہِ حرارت کچھ زیادہ ہو اور ہم دوبارہ سے انسانی تہذیب کا آغاز کر سکیں​
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
ان سحر انگیز اینی میشنز کو دیکھ کر جی جلتا ہے کہ یہ آخر ہمارے تاریک دور میں دسترس میں کیوں نہ تھیں ۔
بجا کہتے ہیں۔ ابھی تین چار روز قبل اپنے @ محمود احمد غزنوی صاحب نے جیومیٹری سے متعلق ایک انتہائی خوبصورت اینیمیشن فیس بک پر لگائی تھی ارو اس پر میری رائے بھی یہی تھی کہ کاش ایسی اینیمیشنز ہمارے دور میں موجود ہوتیں تو ہمارے لیے جیومیٹری سمجھنا کتنا آسان ہو جاتا۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ایک خلیہ اپنی کاپی کیسے بناتا ہے(اردو)
آواز -- ازن حفیظ
ترجمہ-- کاشی آرائیں
پیشکش-- سائنس کی دنیا پراجیکٹس



گو کہ ایک بالغ انسان تقریباَ 100ٹریلین (یعنی ایک کروڑ کھرب) سیلز (یا خلیات) پر مشتمل ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی ہماری زندگی کی ابتداء فقط ایک خلیے سے ہوتی ہے۔ خراب یا ٹوٹے ہوئے بافتوں (یعنی ٹشوز) کی نمو، ترقی اور تلافی کے لیے ہم سیل ڈویژن یعنی خلیاتی تقسیم کے عمل پر انحصار کرتے ہیں۔

۔ یو کریوٹک سیلز میں اس تقسیمی عمل کی تکمیل، ترتیب وار مرحلوں کے ایک منظم تسلسل کی صورت میں ہوتی ہے۔ جسے ہم مائی ٹوسس (یا بلا راست تقسیم) کا نام دیتے ہیں۔
ہر روز لاکھوں کے حساب سے جلدی خلیات یعنی سکن سیلز کو پیدا کرنا، اور پھر تباہ شدہ خلیوں کے ساتھ اُن کی ردو بدل کرنا ہمارے بدن کے لیے انتہائی اہم ہے۔
ہر پیدا ہونے والے ہر خلیے پہ لازم ہےکہ وہ جینیاتی مادے کا کمپلیمنٹ یعنی تکمیلی جُز ہو۔
خلیات کا تقسیمی عمل یعنی ایک سیل کے دو جڑواں سیلز میں سےتقسیم ہو نے سے پہلے، ڈی کی ریپلیکیشن انتہائی ضروری ہے تاکہ ہر ڈاٹر سیل (یعنی دختر خلیے) کو ڈی این اے کی صحیح کاپی بر وقت مل سکے۔
ڈی کی ریپلیکیش کے بعد سیل کے نیوکلیس میں کروموسومز کنڈینس ( یعنی کثیف) ہونے لگتےہیں۔
ڈی-این-اے نیوکلیوسوم بنانے والی ہسٹان پروٹین کا لبادہ اوڑھتے ہوئے گھنا ہوتا چلا جاتا ہے۔ دھاگا نما ساخت (یعنی سٹرِنگ سٹرکچر) پرموجود یہ موتی کروماٹن (رنگ دار لونین مادہ) کہلاتے ہیں۔
جیسے جیسے سیل تقسیم ہونے کے لیے تیار ہورہا ہوتا ہے، ویسے ویسے کرماٹن دائروں کی صورت اکھٹا ہونے لگتا ہے۔ اور
اور کرموسومز کومزید مختصر اور گھنا کرتاچلا جاتا ہے۔
ریپلیکیٹد (نقل شدہ) کروموسومز کو ہم سسٹر کروماٹڈز کہتے ہیں۔
ڈی-این-اے کی ریپلیکیشن اور سسٹرز کروماٹدز کی افزائش سیل سائکل کا ایک جز ہے۔
خلیاتی تقسیم کی تیاری کے لیے سیل انٹر فیز سے گزرتا ہے۔ انٹر فیز کو ہم 3 نمایاں فیزز(یعنی مرحلوں) میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
جی 1 یا گیپ1 فیز کے دوراں، تمام آرگینلز (خلوی عضویے) اور سیائٹو پلازمک کمپونینٹش (یعنی مایۃِحیات کے ترکیبی اجزا) بشمول سنٹریولز (خلیے کےمرکزی ذروں) کے علاوہ ا نیملز سیلز (حیوانی خلیات) کی ریپلیکیشن ہوتی ہے
پھر ایس یا سنتھیسز فیز کے دوران، ڈی-این-اے ریپلیکیٹ ہوتا ہے۔ آخر میں جی2 یا گیپ 2 فیز میں،وہ تمام اینزئمز(خامرے) پیدا ہوتے ہیں، جن کی خلیاتی تقسیم کے دوران مدد درکار ہوتی ہے۔
زیادہ تر یوکیریوٹک سیلز وقت کا ایک بڑا حصہ انٹر فیز میں گزارتے ہیں۔ اور بہت ہی کم وقت اپنے اس تقسیمی عمل میں گزارپاتے ہیں جسےہم بلاراست خلیاتی تقسیم یا مائی ٹوسس کا نام دیتے ہیں۔
اب سیل مائی ٹوسس کے عمل سے گزرنے کے لیے تیار ہے۔
یہ طریقہ پروفیز، میٹا فیز، اینافیز اور ٹیلوفیز پر مشتمل ہوتا ہے۔
پروفیز کے دوران سیلز گھنے ہو کرنظر آنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ اور یوں سسٹر کروماٹڈز کی شکل میں ان کا ظہور ہوتا ہے، یہ کرماٹڈز سینٹرو میرز کے زریعےاک دوجے کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں۔
جب سپنڈلزبننا شروع ہوتے ہیں تو سایٹو سکیلٹن اکھڑ نے لگتا ہے ۔ جانورں کے سیلز میں موجود سینٹریولز تقسیمی سیلز میں رُونما ہونے والے کروموسومز کی درجہ بندی میں اہم کردار نبھاتے ہیں۔
سینٹریولز مخالف قطبین کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں۔ اور مائیکرو ٹیوبیولز کا ایک پُل بنادیتے ہیں۔ جس کو سپنڈل ایپریٹس کا نام دیا جاتا ہے۔ اور پھر نیوکلیس انویلپ (یعنی مرکزے کا غلاف) پاش پاش ہو جاتا ہے۔
پروفیز کے آخر میں، کروموسومز اپنے سینٹرو میرز میں جمع شدہ پروٹینز یعنی کائنیٹو کورز(یا عنق پارے) کے زریعے ہر پول کی مائیکرو ٹیوبیولز (یعنی لحمیاتی دھاگوں) کے ساتھ جڑ جا تے ہیں، اور کروموسومز کو سیل کے خطِ استواء کی طرف حرکت دیتے ہیں۔
میٹا فیز کے دوران، تمام کروموسومز سیلز کےخطِ استواء یعنی میٹافیز پلیٹ پر قطار اندر قطار جمع ہونے لگ جاتے ہیں۔
اینا فیز کا آغاز تب ہوتا ہے جب سسٹر کروماٹڈز کو اک ساتھ جوڑ کے رکھنے والی پروٹین کا انحطاط شروع ہوجاتا ہے۔ اس مرحلے میں ہر کروموسومزدوسرے سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اور پھریہ آزاد کروموسومزاپنے اپنے کائینیٹو کورزکے زریعے مخالف پول کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔
ٹیلو فیز کے دوران، Cleavage furrow یعنی ایک شگاف دار لکیر سیل کے مرکز میں بنتی چلی جاتی ہے۔
یہ شگاف ان ایکٹن فلامنٹ کی سکیڑنے والی پٹی (Constricting Belt) سے بنتا ہےجس نے سیلز کے محیط کا اندر والا حصہ گھیرا ہوتا ہے۔ کروموسومز مخالف پولز پر جمع ہوتے جاتے ہیں۔ اور جیسے جیسے نیوکلیر ان ویلپ ( یعنی نیوکلیائی غلاف) ان کے گرد دوبار بننے لگتا ہے، ویسے ویسے یہ ڈھیلے ہوتے جاتے ہیں ۔ جب مائیکروٹیوبلز، کئی ٹیوبیو لز مانو مرز کی شکل میں ٹوٹتے ہیں تو سپنڈل اپریٹس کے اجزا علیحدہ علیحدہ ہونے لگ جاتے ہیں۔ جو کہ آگے چل کر داٹر سیلز کا سائٹو سکیلٹن بنانے کے کام آتے ہیں۔ اینمل سیل میں، سائٹو کنیسز، نئے بننے والے ڈاٹر سیلز کو مکمل طور پر علیحدہ کرتے ہوئے کلیوج فرو کو باہر کی طرف پھیلا تا چلا جاتا ہے اور یوں خلیاتی تقسیم کی تکمیل کرتا جاتا ہے۔
پودوں کے سیلز کی دیواریں چونکہ ایکٹن فائیبرز سے سکیڑی نہیں جا سکتیں۔ اس لیے ویسیکلز ایک پھیلتی ہوئی ممبرین کی تقسیم کر دیتا ہے یعنی سیل پلیٹ بنا دیتا ہے۔
حیوانی سیل کی طرح، نباتانی سیل بھی دو جڑواں سیلز کے سائٹو پلازم کے مواد کی تقسیم روکنے کے لیے سائٹو کنیسز استعمال کرتا ہے۔ سیل سائیکل کے دوران وقوع پزیری ہونے والے عمل کی درستگی کو یقینی بنانے کے لیے کچھ پڑتال چوکیاں یعنی چیک پوائنٹس سے گزرنا پڑتا ہے ۔ اگر عمل درستگی کے ساتھ وقوع پزیر نہ ہو ، تو سیل سائیکل چیک پوانٹ پر رک جائے گا اور اس کو درست کرے گا،۔۔۔۔۔۔۔ یا پھر ممکنہ طور پر سیل کومزید تقسیم ہونے سے روک دے گا۔
پہلا چیک پوائنٹ جی1/ایس ہے، اس کو پرائمری پوائنٹ خیال کیا جاتا ہے جس پر سیل سائکل یا تو چلتا جاتا ہے یا پھر رک جاتا ہے۔
بیرونی اشارات یا گروتھ فیکٹرزیقنناٗ سیل سائیکل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اور ترقی کواس نازک چیک پوئنٹ پر یا پھر اس سے پہنچنے سے پہلےہی متاثر کر سکتے ہیں۔
جی2/ایم چیک پوائنٹ صرف ان سیلز کومائٹوسس کا عمل شروع کرنے کی اجازت دیتا ہے جو کہ انٹر فیز کے تینوں مرحلوں کو کامیابی کے ساتھ طے کر لیتے ہیں۔
آخری چیک پوائنٹ کا نام سپنڈل چیک پے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ تمام کروموسومز اینافیز کی تیاری کے لیے سپنڈل کے ساتھ جڑ چکے ہوں۔
گروتھ فیکٹرز، سیل کا سائز اور غذائی حالت یہ وہ تمام فیکٹرز ہیں جو کہ سیل سائکل کی ریگولیشن ( یعنی باقاعدگی) میں اہم کردارنبھاتے ہیں تا کہ صرف مخصوص قسم کے ہی سیلزکی تقسیم مناسب وقت پرممکن ہو سکے۔ ان تمام چیک پواینٹس سے گزرنے کے بعد ہی مائٹوسیس کا یہ عمل مکمل ہوسکتا ہے۔ انٹر فیز سے لیکر سائٹو کنیسز تک، سیل ڈویژن کے سارے عمل کو پورا ہونے کے لیے ایک عام پودے یا جانور میں تقریباٗ 10 سے 20 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔
سیل کی نیچر اور استعمال کی بنا پر، اس عمل کی وقوع پذیری کے لمحات مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔ ہم انسانوں میں، نیرنگئِ زمانہ کی وجہ سے جلدی خلیات یعنی سکن سیلز کے بدلاؤ کی شرح مائٹوسس کے دوران زیادہ ہوتی ہے۔ جبکہ پختہ نیورانز اور مسل سیلز جیسے دوسرے کئی سیلز کی شرعِ تقسیم کم کم ہوتی ہے۔
انٹر فیز کے دوران، مائٹوسس کی درستی اور ہم آہنگی اس بات کو یقنیی بناتی ہے کہ یوکیریوٹک جاندار اپنے جیسے سیلز کی ہو بہو نقول تیار کر سکیں۔ یہ عمل نہ صرف جسم کو فُعال بلکہ بذاتِ خود زندگی کو دراز کرنے کے لیے سیلز کی نمو اور تلافی کو یقبینی بنائے رکھتا ہے
 

زہیر عبّاس

محفلین
سائنس کی دنیا
وقت صرف نظروں کا دھوکا ہے.. (اردو میں)
آواز اختر علی شاھ
ترجمہ قدیر قریشی
پیشکش ۔۔ سائنس کی دنیا پراجیکٹس


1971 میں ایک تجربہ کیا گیا تھا جس میں سائنس دانوں نے دو ایٹمی گھڑیاں لیں جو کہ ایک ہی وقت دکھا رہی تھیں - ان میں سے ایک کو جہاز میں رکھ کر جہاز کو دیر تک اڑایا گیا - جہاز کے اترنے کے بعد اس گھڑی کے وقت کا زمین پر موجود گھڑی کے وقت سے موازنہ کیا گیا – آئن سٹائن کی پیش گوئی کے عین مطابق یہ دونوں گھڑیاں اب مختلف وقت دکھا رہی تھیں – ان دونوں میں فرق صرف ایک سیکنڈ کے کھربویں حصے کے برابر تھا لیکن یہ فرق اس بات کا ثبوت تھا کہ حرکت کرنے سے وقت کی رفتار متاثر ہوتی ہے
'آئن سٹائن کے نظریہِ اضافت کو بار بار پرکھا جاچکا ہے - یہ ہر دفعہ درست ثابت ہوا ہے اور فطرت کی بالکل صحیح عکاسی کرتا ہے'
'جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہم اس نظریے کی ایسی پیش گوئیاں ثابت کر سکتے ہیں جو انتہائی مبہم ہیں اور اب سے کچھ عرصہ پہلے تک ان کا مشاہدہ ناممکن تھا'
مکان (یعنی سپیس) اور زمان (یعنی وقت) میں غیر متوقع تعلق کی دریافت کے بعد آئن سٹائن نے یہ جان لیا کہ وقت اور سپیس کو علیحدہ علیحدہ سمجھنا غلط ہوگا – یہ دونوں ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہیں کہ انہیں ایک ہی نام زمان-و-مکان (یعنی سپیس-ٹائم) دیا جانا چاہیے
'آئن سٹائن نے زمان اور مکان کی تین جہتوں (یعنی سمتوں) کو ایک چہار جہتی (یعنی چار سمتوں والے) تصور زمان-و-مکان میں ضم کر دیا'
اس نئی دریافت کی وجہ سے آئن سٹائن نے ہمیں سائنس کا سب سے مشکل تصور دیا جس کی رو سے ماضی، حال، اور مستقبل کو الگ الگ محسوس کرنا محض نظر کا دھوکہ ہے – عام زندگی میں ہم وقت کو مسلسل بہتا ہوا محسوس کرتے ہیں لیکن وقت کو الگ الگ لمحوں کی تصویروں کا مجموعہ بھی تصور کیا جاسکتا ہے – اسی طرح جو کچھ بھی وقوع پذیر ہوتا ہے اسے ان تصویروں کے مجموعے کا ہماری آنکھوں کے سامنے سے ایک ایک کر کے گذرنا سمجھا جاسکتا ہے – اگر ہم ان تمام لمحات کی تصویروں کو ایک دوسرے کے ساتھ رکھ کر ان کی ایک لمبی سی لکیر بنائیں جس میں کائنات میں گذرے ہوئے ہر پل کی تصویر ہو تو ان تصویروں میں ہم ان تمام واقعات کو دیکھ پائیں گے جوکائنات میں اب تک وقوع پذیر ہوچکے ہیں اور ان سب کو بھی جو آئندہ وقوع پذیر ہوں گے – اس میں کائنات کی ہر جگہ اور ہر لمحے کی تصوہر ہوگی مثلاً تقریباً چودہ ارب سال پہلے کائنات کی پیدائش سے لے کر کہکشاؤں کے بننے، کہکشاؤں میں ستاروں کے بننے، ساڑھے چار ارب سال پہلے زمین کے بننے، ڈائنوسارز کے ارتقاء، اور کائنات میں موجودہ دور میں ہونے والے واقعات مثلاً میں اپنے دفتر میں کام کرتے ہوئے – اس طرح آئن سٹائن ماضی، حال، اور مستقبل کے بارے میں روائتی سوچ کو بدلنے میں کامیاب ہوگیا
اس بات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے آپ کو 'اب' (یعنی انگریزی کا لفظ now) جیسے ظاہراً بہت سادہ سے تصور کے بارے میں سوچنا ہوگا – میرے 'اب' کا تصور یہ ہے: گھڑی کے بارہ بجانا ، میری بلی کا کھڑکی سے ابھی ابھی چھلانگ لگانا، دور دراز ہونے والے واقعات مثلاً وینس شہر میں ابھی ابھی اڑتے ہوئے کبوتر، چاند پر ابھی ابھی گرتا ہوا شہابیہ، کائنات کے دور دراز حصوں میں پھٹتے ہوئے ستارے – یہ اور ایسے بہت سے واقعات جو کائنات کے کسی بھی حصے میں اس لمحے میں وقوع پذیر ہورہے ہیں میرے 'اب' کے سادہ سے تصور میں شامل ہیں – آپ انہیں چشمِ تصور میں زمان-و-مکان کے ایک ٹکڑے یا تصویر میں دیکھ سکتے ہیں جسے ہم 'اب' کا ٹکڑا کہہ سکتے ہیں – ظاہراً عقلِ سلیم ہمیں یہ بتلاتی ہے کہ مشاہدہ کرنے والے کائنات میں کہیں بھی ہوں وہ تمام اس بات پر متفق ہوں گے کہ 'اب' کا لمحہ کون سا ہے یعنی ہم اس بات پر متفق ہوں گے کہ یہ تمام کون سے 'اب' کے ٹکڑے میں ہیں – لیکن آئن سٹائن نے یہ دریافت کیا کہ اگر مشاہدہ کرنے والے تیز رفتار سے حرکت کر رہے ہوں تو وہ 'اب' کے لمحے پر اتفاق نہیں کر پائیں گے
اس تصور کو سمجھنے کے لیے زمان-و-مکان کو ایک سالم ڈبل روٹی ( یعنیbread ) کی مانند تصور کیجیے - آئن سٹائن نے دریافت کیا کہ جس طرح ڈبل روٹی کو چھری سے کاٹ کر توس کی شکل میں علیحدہ علیحدہ ٹکڑوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے اسی طرح زمان-و-مکان کو بھی مختلف طریقوں سے علیحدہ علیحدہ 'اب' کے ٹکڑوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے – ایسے لوگ جو حرکت کر رہے ہوں گے ان کے زمان-و-مکان کے ٹکڑے فرق ہوں گے اور ان کے 'اب' کا تجربہ ساکن لوگوں کے 'اب' سے مختلف ہوگا – ان کے زمان-و-مکان کے ٹکڑے مختلف زاویوں پر ہوں گے –
"حرکت کرنے والے لوگوں کی چھری خمیدہ چلے گی اور وہ زماں-و-مکاں کو مختلف زاویوں سے کاٹیں گے جو میرے زمان-و-مکان کے ٹکڑوں کے متوازی نہیں ہوں گے"
اس حقیقت کے حیران کن نتائج کو سمجھنے کے لیے فرض کیجیے کہ ایک خلائی مخلوق ہم سے 10 ارب نوری سال کے فاصلے پر ہے اور یہاں زمین پر ایک پیٹرول پمپ پر ایک آدمی موجود ہے – اگر یہ دونوں ایک دوسرے کے ریفرنس سے ساکن ہیں تو ان دونوں کا وقت ایک ہی رفتار سے گذر رہا ہوگا – یہ دونوں زمان-و-مکان کے ایک جیسے ٹکڑوں کو دیکھیں گے
لیکن آئیے دیکھیں کہ اگر یہ خلائی مخلوق اپنی بائیسکل پر بیٹھ کر ہم سے دور جانے لگے تب کیا ہوگا – چونکہ حرکت کرنے سے وقت کی رفتار کم ہوجاتی ہے اس لیے ان دونوں کی گھڑیاں اب مختلف رفتار سے چلیں گی اور چونکہ ان کی گھڑیاں ایک دوسرے سے مختلف ہیں لہٰذا ان کے 'اب' کے ٹکڑے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے – خلائی مخلوق کی چھری اب زمان-و-مکان کو ایک زاویے پر کاٹے گی اور ماضی کی طرف جائے گی – چونکہ خلائی مخلوق کی رفتار بہت کم ہے اس لیے اس کی چھری کا زاویہ بھی بہت کم ہوگا لیکن چونکہ خلائی مخلوق کا زمین سے فاصلہ بہت زیادہ ہے اس لیے زاویے کے اس معمولی فرق کا نتیجہ بھی بہت زیادہ وقت کے فرق کی صورت میں ہوگا – اس وجہ سے خلائی مخلوق کا 'اب' نہ صرف پٹرول پمپ والے شخص کے 'اب' سے مختلف ہوگا بلکہ وہ پٹرول پمپ والے شخص کا صرف ماضی ہی دیکھ پائے گا – محض چالیس سال پہلے کا ماضی نہیں جب پٹرول پمپ والا شخص ایک بچہ تھا بلکہ دو سو سال پہلے کا ماضی جسے ہم ماضی بعید سمجھتے ہیں جیسے (مشہور موسیقار) بیتھون اپنی پانچویں سیمفونی مکمل کرتے ہوئے
'بہت کم رفتار سے سفر کرتے ہوئے بھی ہمارے 'اب' اور خلائی مخلوق کے 'اب' میں بہت زیادہ فرق ہوسکتا ہے اگر ہم ایک دوسرے سے بہت زیادہ فاصلے پر ہیں '
اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حرکت کی سمت تبدیل کرنے سے سے بھی دونوں کے 'اب' میں فرق آ سکتا ہے – ذرا غور کیجیے کہ اگر خلائی مخلوق زمین کی طرف حرکت کرنے لگے تو کیا ہوگا – اس صورت میں خلائی مخلوق کے 'اب' کا نیا ٹکڑا مستقبل کی طرف جھکا ہوگا – چنانچہ اب وہ خلائی مخلوق زمیں پر دو سو سال بعد ہونے والے واقعات مثلاً پٹرول پمپ پر بیٹھے شخص کی پڑپوتی کو پیرس سے نیو یارک ٹیلی پورٹ ہوتے دیکھ سکے گی
جب ہم یہ بات سمجھ لیں کے آپ کا 'اب' میرا ماضی بھی ہوسکتا ہے اور میرا مستقبل بھی اور آپ کا 'اب' اتنا ہی قابلِ اعتبار ہے جتنا کہ میرا 'اب' تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی، حال اور مستقبل تمام ایک حقیقت ہیں جو ہمیشه سے موجود ہیں
'اگر آپ طبیعات کے قوانین کو درست سمجھتے ہیں تو مستقبل اور ماضی بھی اتنے ہی حقیقی ہیں جتنا کہ حال ہے'
'ماضی کہیں گیا نہیں ہے اور مستقبل ابھی سے موجود ہے – ماضی، حال، اور مستقبل سب ایک ہی طریقے سے موجود ہیں'
جس طرح ہم مکان (یعنی سپیس) کے بارے میں یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ حقیقت میں موجود ہے اسی طرح تمام کا تمام وقت بھی حقیقت میں بیک وقت موجود ہے – واقعات جو وقوع پذیر ہوچکے ہیں یا جو آئندہ وقوع پذیر ہوں گے وہ تمام کے تمام اپنا وجود رکھتے ہیں – لیونارڈو ڈاونچی مونا لیزا بناتا ہوا، امریکہ کے فرمانِ آزادی پر دستخط، سکول میں آپ کا پہلا دن، اور وہ واقعات جو ہمارے نکتہِ نظر سے ابھی وقوع پذیر نہیں ہوئے جیسے مریخ پر پہلے انسان کا اترنا وغیرہ یہ تمام حقیقی اور موجود ہیں
اس چونکا دینے والے نظریے سے آئن سٹائن نے زمان و مکان کے بارے میں ہمارے پرانے تصورات کو چکناچور کردیا – اس کا کہنا تھا کہ ماضی، حال، اور مستقبل میں فرق صرف نظر کا دھوکا ہے اس کے سوا کچھ نہیں
 

زہیر عبّاس

محفلین
فٹ بال کک کی سائنس ( اردو میں)
ترجمہ: قدیر قریشی
آواز: زرتاشہ قریشی
ایڈٹنگ: اختر علی شاھ
پیشکش: سائنس کی دنیا پراجیکٹس


1997 میں سپین اور برازیل کے درمیان ایک فٹ بال میچ میں برازیل کے ایک نوجوان کھلاڑی روبرٹو کارلوس کو 35 میٹر لمبی فری کک لگانے کو کہا گیا – چونکہ گول کے سامنے مخالف ٹیم کے کھلاڑی موجود تھے اس لیے کارلوس نے ایک ایسی کک لگانے کا فیصلہ کیا جو ناممکن نظر آتی ہے – اس نے مخالف کھلاڑیوں سے ہٹ کر کک لگائی لیکن میدان سے باہر جانے سے پہلے یہ بائیں طرف مڑ کر گول میں جا پہنچی – نیوٹن کا حرکت کا قانون ہمیں بتلاتا ہے کہ اگر کوئی جسم حرکت کر رہا ہو تو وہ مستقل رفتار سے خطِ مستقیم میں حرکت کرتا رہے گا جب تک کہ اس پر قوت نہ لگائی جائے – جب کارلوس نے گیند کو ضرب لگائی اسی وقت گیند کی رفتار اور سمت کا تعین ہوگیا - لیکن وہ کون سی قوت تھی جس کی بدولت گیند کی سمت تبدیل ہوئی اور فٹ بال کی تاریخ کا بہترین گول ہوا؟

اس گتھی کا حل گیند کے گھماؤ یعنی spin میں ہے - کارلوس نے گیند کے نچلے اور داہنے حصے پر ضرب لگائی جس کی وجہ سے گیند اوپر اچھلی اور دائیں طرف گئی لیکن ساتھ ہی ساتھ گیند اپنے محور کے گرد بھی گھومنے لگی – گیند نے شروع میں ایک خطِ مستقیم میں ہی حرکت کی کیونکہ اس کے دونوں طرف ہوا کی رگڑ تھی جو اس کی رفتار کم کر رہی تھی – لیکن گیند کے ایک طرف ہوا کی رگڑ گیند کے گھماؤ کی مخالف سمت میں تھی جس وجہ سے اس طرف ہوا کا دباؤ زیادہ تھا جبکہ دوسری طرف ہوا کی رگڑ گیند کے گھماؤ کی سمت میں ہی تھی جس وجہ سے اس طرف ہوا کا دباؤ کچھ کم تھا – ہوا کے دباؤ کے اس فرق نے گیند کو آہستہ اہصۃ گول کی طرف موڑ دیا – اس مظہر کو Magnus effect کہا جاتا ہے - اس قسم کی کک کو banana kick کہا جاتا ہے جو فٹ بال میں اکثر استعمال ہوتی ہے اور اس کھیل کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتی ہے -

گیند کو اس انداز سے ضرب لگانے کے لیے کہ وہ صحیح موقعہ پر خم کھاتی ہوئی گول میں جا پہنچے جس مہارت کی ضرورت ہوتی ہے وہ بہت مشکل سے پیدا ہوتی ہے – اگر گیند ذرا سی اوپر ہو تو گول کے اوپر سے گذر سکتی ہے اور اگر ذرا نیچے ہو تو خم کھانے سے پہلے ہی زمین پر گر سکتی ہے – اگر بہت زیادہ دائیں طرف ہو تو یہ گول تک نہیں پہنچ پاتی لیکن اگر ضرورت سے کم دائیں طرف ہو تو مخالف کھلاڑی گیند تک پہنچ سکتے ہیں – اگر اس کی رفتار کچھ کم ہو تو یہ ضرورت سے پہلے ہی خم کھا جاتی ہے یا پھر خم کھاتی ہی نہیں لیکن اگر رفتار کچھ تیز ہو تو یہ دیر سے خم کھاتی ہے - فزکس کا یہی اصول ایک اور کک کو بھی ممکن بناتا ہے جو دیکھنے میں ناممکن لگتی ہے اور وہ ہے کارنر کک جو کسی کھلاڑی کو چھوئے بغیر گول میں جا پہنچے


Magnus Effect کو سب سے پہلے مشہور سائنس دان سر آئزک نیوٹن نے قلمبند کیا – 1670 میں ٹینس کی ایک گیم کے دوران نیوٹن نے گیند کے یوں خم کھانے کا مشاہدہ کیا – اس اصول کا اطلاق گالف اور بیس بال کے گیندوں اور فرزبی پر بھی ہوتا ہے – ان تمام صورتوں میں بنیادی اصول ایک ہی ہے کہ گیند کا گھماؤ گیند کے اطراف میں ہوا کے دباؤ کا فرق پیدا کردیتا ہے جس وجہ سے بال گھماؤ کی سمت میں خم کھانے لگتی ہے

اب اس سوال پر غور کرتے ہیں کہ کیا اصولاً ہم ایسے انداز میں گیند پھینک سکتے ہیں کہ یہ بوم رینگ کی طرح ہم تک واپس آ پہنچے؟ اس کا جواب نفی میں ہے – اگر گیند ضرب لگانے سے پھٹ نہ جائے اور نہ ہی کسی اور چیز سے جا ٹکرائے تب بھی جیسے جیسے ہوا کی رگڑ سے گیند کی رفتار کم ہوگی ویسے ویسے گیند میں خم بڑھتا جائے گا جس وجہ سے گیند ایک مرغولے کی شکل میں گھومنے لگے گی جس کی جسامت کم ہوتی جائے گی حتیٰ کہ گیند رک جائے – ایسا مرغولہ بنانے کے لیے آپ کو گیند کو اتنی شدت سے ضرب لگانا ہوگی کہ یہ کارلوس کی مشہورِ زمانہ کک سے 15 گنا زیادہ تیزی سے گھومنے لگے

 
Top