ابن جمال
محفلین
کلیم آکہ چلتی ہیں پروائیاں
سناکوئی تازہ غزل سائیاں
توسائیںہے اورسائیں کی جھولی میں
چھپی ہے بہت بزم آرائیاں
میں کیاحال ان کابتائوں تجھے
دکھاتے پھرے ہیں جو مرزائیاں
حقیت میں ہے مال سستامگر
بڑھاتے ہیں پیکنگ سے مہنگائیاں
لفافے ہیں لمبے ،مضامیں سبک
غزل ہوں کہ نظمیں کہ چوپائیاں
کرائے کے اجرائ،کرائے کے جشن
کرائے کی مضمون آرائیاں
اب ایسے میں کاہے توخاموش ہے
سناسائیاں کچھ سناسائیاں
محقق نہ ہم کوئی نقاد ہیں
مبارک انہیں کو ہوں چتورائیاں
تیرے طرزواسلوب وانداز کو
دعادیتی ہیں دل کی گہرائیاں
وہ یادیں مری ہاں وہ یادیں مری
وہ پرچھائیاں ہاں وہ پرچھائیاں
وہ پرچھائیاں جن سے بھرپور ہیں
مری شاعری کی توانائیاں
ہے رنگین جن سے مری انجمن
حسین جن سے ہیں مری تنہائیاں
مرے گائوں کے وہ بغیچے وہ پھول
وہ تالاب وہ ندیاں کھائیاں
وہ منڈے وہ بارات وہ رت جگے
وہ ڈیوڑھی اسارے وہ انگنائیاں
وہ شامیں وہ کمرے وہ باتیں وہ گیت
وہ مچئے کھٹولے وہ چرپائیاں
وہ گھر وہ نمونے مساوات کے
برابرجہاں بیبیاں دائیاں
وہ انگنائیوں میں چمیلی کے پھول
بہاریں جنہیں دیکھ شرمائیاں
وہ جھولااک امردو کی شاخ پر
وہ جھولے پر بیٹھی بہن بھائیاں
وہ جھولاہنڈولاجسے کہتی تھیں
ہمارے دیہاتوں کی ماجائیاں
وہ گائوں کی بولی کہ جس پر فدا
ترنم تغزل کی رعنائیاں
سناکوئی تازہ غزل سائیاں
توسائیںہے اورسائیں کی جھولی میں
چھپی ہے بہت بزم آرائیاں
میں کیاحال ان کابتائوں تجھے
دکھاتے پھرے ہیں جو مرزائیاں
حقیت میں ہے مال سستامگر
بڑھاتے ہیں پیکنگ سے مہنگائیاں
لفافے ہیں لمبے ،مضامیں سبک
غزل ہوں کہ نظمیں کہ چوپائیاں
کرائے کے اجرائ،کرائے کے جشن
کرائے کی مضمون آرائیاں
اب ایسے میں کاہے توخاموش ہے
سناسائیاں کچھ سناسائیاں
محقق نہ ہم کوئی نقاد ہیں
مبارک انہیں کو ہوں چتورائیاں
تیرے طرزواسلوب وانداز کو
دعادیتی ہیں دل کی گہرائیاں
محبت کی دنیاکاجوگی ہے تو
توجوگی بناکیوں بتاسائیاں
بتااومحبت کے مارے بتا
محبت کی کیاکیاسزاپائیاں
بتادل تراکاہے چھلنی ہوا
کلیجے پہ کیوں برچھیاں کھائیاں
ذراچھیڑ جذبات کی بانسری
بجادل کے کانوں میں شہنائیاں
توجوگی بناکیوں بتاسائیاں
بتااومحبت کے مارے بتا
محبت کی کیاکیاسزاپائیاں
بتادل تراکاہے چھلنی ہوا
کلیجے پہ کیوں برچھیاں کھائیاں
ذراچھیڑ جذبات کی بانسری
بجادل کے کانوں میں شہنائیاں
وہ یادیں مری ہاں وہ یادیں مری
وہ پرچھائیاں ہاں وہ پرچھائیاں
وہ پرچھائیاں جن سے بھرپور ہیں
مری شاعری کی توانائیاں
ہے رنگین جن سے مری انجمن
حسین جن سے ہیں مری تنہائیاں
مرے گائوں کے وہ بغیچے وہ پھول
وہ تالاب وہ ندیاں کھائیاں
وہ منڈے وہ بارات وہ رت جگے
وہ ڈیوڑھی اسارے وہ انگنائیاں
وہ شامیں وہ کمرے وہ باتیں وہ گیت
وہ مچئے کھٹولے وہ چرپائیاں
وہ گھر وہ نمونے مساوات کے
برابرجہاں بیبیاں دائیاں
وہ انگنائیوں میں چمیلی کے پھول
بہاریں جنہیں دیکھ شرمائیاں
وہ جھولااک امردو کی شاخ پر
وہ جھولے پر بیٹھی بہن بھائیاں
وہ جھولاہنڈولاجسے کہتی تھیں
ہمارے دیہاتوں کی ماجائیاں
وہ گائوں کی بولی کہ جس پر فدا
ترنم تغزل کی رعنائیاں
یکایک چُھری کی ہوائیں چلیں
لہو کی گھنی بدلیاں چھائیاں
وہ بولی کہاں جاکے گم ہوگئی
کہاں جاچھپیں وہ بہن بھائیاں
وہ جھولانہ شاخیں وہ امردو کی
نہ اب وہ چمیلی نہ انگنائیاں
اب آگے نہ مجھ سے کہاجائے ہے
مری دونوں آنکھیں ہیں بھرآئیاں
نہ اب وہ مکاں ہیں نہ اب وہ مکیں
ہم ہمسائے اب ہیں نہ ہمسائیاں
انہیں دیکھنے توترستاہوں میں
بتامجھ کوان کا پتہ سائیاں
لہو کی گھنی بدلیاں چھائیاں
وہ بولی کہاں جاکے گم ہوگئی
کہاں جاچھپیں وہ بہن بھائیاں
وہ جھولانہ شاخیں وہ امردو کی
نہ اب وہ چمیلی نہ انگنائیاں
اب آگے نہ مجھ سے کہاجائے ہے
مری دونوں آنکھیں ہیں بھرآئیاں
نہ اب وہ مکاں ہیں نہ اب وہ مکیں
ہم ہمسائے اب ہیں نہ ہمسائیاں
انہیں دیکھنے توترستاہوں میں
بتامجھ کوان کا پتہ سائیاں