کامران چوہدری
محفلین
وہ بمشکل اڑھائ تین سال کے لگ بھگ تھا کہ والد کا ہارٹ اٹیک سے اچانک انتقال ہوگیا۔جوان عورت کے سر پہ افتادہ ٹوٹ پڑی تھی ایک جوانی میں سہاگ اجڑ گیا اور دوسرا بچوں کا کوئ آسرا نظر نہیں آرہا تھا مالی حالات بھی اس قدر موافق نہیں تھے کہ گھر بیٹھ کر بچوں کو پال سکے۔
بچپن سے ہی اسکی محرومیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔اب وہ تقریبا چھ سال کا تھا کہ اسے چھوٹے بائسائیکل کا جنون کی حد کا شوق ہوا اپنی ماں سے وہ ہر قیمت پر سائیکل دلوانے کی ضد کرنے لگا تھا۔مگر کپڑے سلائ کر کر کےبچوں کے سکول کی فیس ادا کرنے والی عورت کس طرح اتنی بڑی رقم کا بندوبست کر سکتی تھی مگر وہ تھا کہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر زاروقطار روئ جارہا تھا کہ بس سائیکل چاہئے۔۔۔
اس نے ایک جگہ پرانی سائیکل دیکھ لی تھی جو بکاو تھی وہ روزانہ اسے ترستی نگاہوں سے دیکھتا اور ہر حال میں بس وہی سائیکل لینا چاہتا تھا۔
آخر اسکی ماں نے کسی رشتہ دار سے 1200 روپے ادھار مانگ کر اسکے سائیکل کر رقم کا بندوبست کردیا تھا وہ آج اس قدر خوش تھا کہ کھانا تک بھول گیا سکول سے آتے ہی اپنے نانا کیساتھ سائیکل لینے انکے گھر پہنچ گئے۔
وہ جاتے ہی سائیکل کے معائنے کے لیے سائیکل پہ چڑھ گیا کھڑے سائیکل کے خوب پیڈل گھمائے اور ساتھ مسکرائ جائے کیونکہ آج وہ اس کا مالک بننے جا رہا تھا۔
ادھر نانا ابو نے سائیکل کے فروخت کنندہ سے بات چیت شروع کردی تھی۔مالک 1500 روپے سے ایک روپے کم پہ دینے پر راضی نہیں ہو رہا تھا جبکہ انکے پاس پورے تین سو روپے کم تھے۔تمام تر بحث لاحاصل رہی سودا نہیں ہوسکا۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سائیکل سے نیچے اتر آیا اسکی آنکھوں میں ایک محرومی اور بےچارگی تھی۔وہ جاتے ہوئے بھی مڑ مڑ کر سائیکل کو ترستی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔سائیکلا کا پہیہ گھوم رہا تھا تھا اسکی آنکھیں تر تھیں۔اس دن وہ ماں سے لپٹ کر خوب رویا تھا۔۔۔۔۔
بچپن سے ہی اسکی محرومیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔اب وہ تقریبا چھ سال کا تھا کہ اسے چھوٹے بائسائیکل کا جنون کی حد کا شوق ہوا اپنی ماں سے وہ ہر قیمت پر سائیکل دلوانے کی ضد کرنے لگا تھا۔مگر کپڑے سلائ کر کر کےبچوں کے سکول کی فیس ادا کرنے والی عورت کس طرح اتنی بڑی رقم کا بندوبست کر سکتی تھی مگر وہ تھا کہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر زاروقطار روئ جارہا تھا کہ بس سائیکل چاہئے۔۔۔
اس نے ایک جگہ پرانی سائیکل دیکھ لی تھی جو بکاو تھی وہ روزانہ اسے ترستی نگاہوں سے دیکھتا اور ہر حال میں بس وہی سائیکل لینا چاہتا تھا۔
آخر اسکی ماں نے کسی رشتہ دار سے 1200 روپے ادھار مانگ کر اسکے سائیکل کر رقم کا بندوبست کردیا تھا وہ آج اس قدر خوش تھا کہ کھانا تک بھول گیا سکول سے آتے ہی اپنے نانا کیساتھ سائیکل لینے انکے گھر پہنچ گئے۔
وہ جاتے ہی سائیکل کے معائنے کے لیے سائیکل پہ چڑھ گیا کھڑے سائیکل کے خوب پیڈل گھمائے اور ساتھ مسکرائ جائے کیونکہ آج وہ اس کا مالک بننے جا رہا تھا۔
ادھر نانا ابو نے سائیکل کے فروخت کنندہ سے بات چیت شروع کردی تھی۔مالک 1500 روپے سے ایک روپے کم پہ دینے پر راضی نہیں ہو رہا تھا جبکہ انکے پاس پورے تین سو روپے کم تھے۔تمام تر بحث لاحاصل رہی سودا نہیں ہوسکا۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سائیکل سے نیچے اتر آیا اسکی آنکھوں میں ایک محرومی اور بےچارگی تھی۔وہ جاتے ہوئے بھی مڑ مڑ کر سائیکل کو ترستی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔سائیکلا کا پہیہ گھوم رہا تھا تھا اسکی آنکھیں تر تھیں۔اس دن وہ ماں سے لپٹ کر خوب رویا تھا۔۔۔۔۔