گل زیب انجم
محفلین
سیری نالا بان سے لیا گیا اقتباس
سائیں شیدو.
تحریر :- گل زیب انجم.
وقت کا سدا ایک سا نہ رہنا بھی نعمت خداوندی ہے. اگر اس کا بدلنا نہ ہوتا تو چنگے مندے کی تہذیب ہی نہ ہوتی. ہم دیکھتے ہیں کہ بہت ساری حسین عمارتیں کھنڈرات میں اور کھنڈرات محلات میں بدل جاتے ہیں یہ بدلنا ہی وقت کا تغیر کہلاتا ہے.
سیری نالا بان جہاں سے ھلہ جانے والوں کا رستہ ہے اس کی دائیں جانب تقریباً آٹھ دس فٹ کے فاصلے پر پانی کا کچھ گہرا حصہ ہوتا تھا جس کو مقامی زبان میں ڈبہورا کہا جاتا تھا. اس ڈبہورے کی نسبت برلب بان بسنے والے ایک بابا جی سے تھی جو راجپوت قبیلے کے تھے. وہ اپنے دو بیٹوں اور ان کے بال بچوں کے ساتھ رہتے تھے. اس دور کے خوبصورت گھروں میں بابا جی کا گھر بھی شامل تھا جس کو سگھڑ خواتین نے صاف ستھرا رکھا ہوا تھا. لیکن بابا جی کا یہ ساتھ دیرپا نہ رہ سکا کیونکہ دونوں بیٹے اور ایک بہو بان میں آنے والی تغیانی کے اس وقت نذر ہو گئے جب ستائیسویں شب کی سحری کو کچھ ہی ساعتیں باقی تھی. تغیانی کے گزر جانے کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہاں کبھی کوئی خاندان بھی آباد تھا.
باوے کے ڈبہورے کے سامنے سیری کی جانب ایک چٹان نما جگہ ہے جسے لوگ مندو ہوراں نا دندا کہتے ہیں. یہ نہیں پتہ چلا کہ اسے مندو جی سے کیوں منسوب کیا گیا جبکہ دندے کی جانب پہلا گھر ان کے بھائی بشیر کا ہے. یہاں مندو جی اپنے چار بھائیوں کے ساتھ رہا کرتے تھے. اولادیں ہوئیں جگہ کم لگنے لگی تو دو بھائی رشید اور مجید دندے کو چھوڑ کر اپنی الاٹمنٹ اراضی پر جا بسے. چاروں بھائی اپنی عادات و اطوار سے بہت ہی مختلف تھے. ہر کسی کا اپنا ہی طرز زندگی تھا. لیکن ان میں سے رشید(اصل نام محمد صدیق تھا جو صرف کاغذات تک ہی محدود رہا) بالکل ہی الگ تھے. آپ نے زندگی کے تقریباً تمام ہی رنگ دیکھے تھے . لیکن جب ہم نے آپ کو دیکھا تھا تو اس وقت کا رنگ درویشوں والا تھا. اس انداز درویشانہ کی وجہ سے آپ کو اپنے پرائے سبھی سائیں کہنے لگے لیکن بہت سارے لوگوں نے یہ نہیں جانا کہ ہر وقت مسکراہٹ سجائے رکھنے والا دکاندار اور چنگا تگڑا جری رشید کیسے سائیں شیدو بن گیا. ابھی کچھ
ماہ و سال پہلے تک تو آپ کا شمار سیری کے کامیاب ترین دکانداروں میں تھا. پرانے زمانے کی دکانوں کو کوئی نام دینے سے قاصر ہیں کیونکہ اکثر یہی دیکھا کہ ایک ہی دکان سے تمام چیزیں مل جایا کرتی تھی. ایسا کوئی اصول نہ تھا کہ کریانہ والا کپڑا نہ رکھے یا منیاری والا تیل نہ رکھتا ہو بلکہ وہ دکانیں خود تو حجم کے لحاظ سے چھوٹی ہوا کرتی تھی لیکن ضروریات زندگی کی ہر چیز انہی دکانوں سے مل جایا کرتی تھی. مٹی کا تیل بیچنے والوں کے پاس سے اکثر ہم نے الف ب والی پٹی پہاڑے کا قاعدہ اور جنتریاں بھی خریدی ہیں. یہی بات ہے کہ رشید مغل کی دکان سے بھی ہر چیز ملا کرتی تھی. جب ہر چیز موجود ہو تو دکانداری بھی اچھی ہوتی ہے. بس ایک نام چل رہا تھا رشید نی ہٹی. بلکہ دکان کی چہل پہل کی وجہ سے کچھ حلقوں میں سیٹھ رشید بھی کہا جاتا تھا. اچھے برے لوگ ہر دور میں موجود رہے ہیں خیر بروں کی تعداد جن کا شمار حاسدین میں ہوتا ہے اس وقت بھی کم نہ تھے. جب رشید کا کاروبار اُن کو نہ بہایا تو پہلے پہل انہوں نے رشید سے دکان لینے کے حربے آزمائے جب بات نہ بنی تو کوئی جھوٹے الزامات لگا کر کیس بنوا دیا. پھر کیس ایسا لگا کہ دکان کی صرف مٹی سے لپائی کی ہوئی دیواریں ہی رہ گئی. دیکھتے ہی دیکھتے ایک دن دکان بھی ہاتھوں سے نکل گئی. یہ پہلا جھٹکا تھا جو رشید مغل کو سائیں بنانے کے لیے کارآمد ثابت ہوا.
حالات کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے آپ نے پھر سے خانپور گالہ میں دکان رکھ لی. سیری جیسی شہرت تو نہ تھی پھر بھی سائیں ہوراں نی ہٹی مشہور تھی.
بیٹے کا جوان ہونا والدین بالخصوص والد کے لیے ویسی ہی اہمیت رکھتا ہے جیسے گرتے ہوئے شجر کو کوئی سہارا مل جائے. بیٹوں کو جوان ہوتا دیکھ کر والدین ایک بار پھر جوان ہو جاتے ہیں لیکن کل کا سورج کیا پیغام لاتا ہے اس کا کسی کو پتہ نہیں ہوتا. سائیں جی کا بیٹا بھی جوان ہوا، شادی کرا دی گئی تھی اب وہ اصول روزگار کے لئے کراچی جانے لگا تھا. چونکہ سسرال میرپور تھے اس لیے سوچا ایک دو دن سسرال رہ کر پھر چلا جاوں گا. موسم ایسا تھا کہ لوگ ڈیم میں نہانے کو پسند کرتے تھے وہ بھی دوسرے دن دس بجے کے قریب قریب دوستوں کے ساتھ نہانے ڈیم کی طرف گیا لیکن واپسی چل کر آنے کے بجائے دوستوں کے کندھوں پر ہوئی. کیا خبر تھی باپ کی متاعِ حیات یوں آدھے رستے میں ہی ڈوب جائے گی.
جوان بیٹے مانند بازو ہوتے ہیں اگر بازوں ہی کٹ جائیں تو باقی جسم کی کیا اہمیت رہتی ہے. یہی وہ دوسرا جھٹکا تھا جو رشید مغل کو سائیں شیدو بنا گیا.
ناگہانی صدمات نے تمام اعصابی نظام کو مجروح کر دیا تھا. وقت ایسا بھی آتا ہے کہ پاؤں کے آبلوں کو انسان کانٹوں سے چھید کر سکون محسوس کرتا ہے. بس کچھ ایسا ہی ہوا کہ سائیں شیدو غموں کا مداوا قنب سے کرنے لگے. کلائی میں ایک آہنی کڑا اور ہاتھوں میں آہنی عصا رکھنے لگے. بال شانوں تک بڑھ گئے مونچھیں تراشنا ہی بھول گئے کپڑے کبھی دو رنگے پہن لیتے جو ملتا کھا لیتے اور پھر اپنی دنیا میں مست ہو جاتے، سائیں شیدو کچھ عرصہ کے لیے بھول ہی گئے کہ بیٹے کے علاوہ بھی کوئی اس دنیا میں تھا. وقت کا ہی کرشمہ تھا کہ جن ہاتھوں میں رنگلہ ڈنڈا ( اس وقت کے وہ لوگ رکھا کرتے تھے جو پہلوان یا لٹھ مار ہوا کرتے تھے اور یہ دونوں خصوصیات آپ میں آتم درجہ موجود تھی) ہوا کرتا تھا ان ہاتھوں میں عصا آ چکا تھا، دکان سے نکلتے ہی ایک پسٹل جس کا پٹہ کاندھے سے لے کر کمر تک ہوتا تھا یوں گلے میں ڈالتے کہ سینے پر کراس بن جاتا. کوہاٹی کھیڑی کڑھائی والا کڑتا جس کی کلائی پر چونٹیں ہوا کرتی تھی اور دھاری دار لاچا چھ فٹ کے قریب کسرتی جسم پر یوں سجتا کہ جو دیکھتا وہ دیکھتا ہی رہ جاتا تھا لیکن اب اس کی کوئی پرواہ نہ تھی کہ کوئی دیکھ رہا بھی ہے کہ نہیں. ہاں اگر کچھ پہلے سا تھا تو لچھے دار بال تھے جو بے توجہی کا شکار تو تھے لیکن ان کے اسٹائل میں کوئی فرق نہ پڑا تھا.
بادل چاہے جتنے بھی گنگھور ہوں آخر انہیں چھٹ ہی جانا ہوتا ہے، دماغ کچھ آنسوؤں سے کچھ ٹھوکروں سے صاف ہوا تو پھر سے ذریعہ معاش کی فکر ستانے لگی تو مائی ہوراں نہے مکان بازار میں لحاف بھرائی اور روئی پنجائی کی دکان رکھ لی. یہ دکان بہت عرصہ تک رہی. یہاں دوران دکانداری رشید رہے نہ شیدو بس سائیں جی مشیناں والے مشہور ہو گئے. آپ دربار سے سیری پیدل ہی آیا جایا کرتے تھے اور یہ پیدل چلنا آپ کو یوں راس آیا کہ ادھیڑ عمر کے ہونے کے باوجود بھی چاک و چوبند دکھتے تھے.
اچھا وقت تھا ہمدردی کا کچھ کچھ عنصر باقی تھا کسی کو غلط کرتے دیکھا جاتا تو سمجھایا جاتا تھا. دربار سے واپسی پر عارف نسوار فروش کی دکان پر آپ کا اکثر قیام ہوتا تھا. عارف بھی تک دکان بند نہیں کیا کرتا تھا جب تک کھوئی رٹہ سے راجہ مظفر برادر صابر اور دربار سے سائیں شیدو نہ آ جاتے. ایک دن شام کو میں اس دکان پر بیٹھا سگریٹ نوشی کر رہا تھا کہ سائیں جی آ گئے ، نسوار لیتے ہوئے کھنکیوں سے ایک دو بار دیکھا، نسوار کی ایک موٹی سی چٹکی رکھتے ہوئے پورا رخ میری طرف کر کے کہنے لگے بھانجیا اس روپ وچ کوئی چنگا نہے لغا ( بھانجے اس حالت میں کوئی اچھے نہیں لگے). عارف نے سنا تو کہنے لگا سائیں جی آج کل سارے ہی پیتے ہیں سن کر کہنے لگے شاید تساں سنیا نہی کہ میں بلایا کس رشتے نال اے. عارف تو سن کر نسوار بنانے لگا لیکن میں سگریٹ لے کر وہاں سے چلتا بنا. ان کے یوں سمجھانے سے اتنی شرم آئی کہ سگریٹ نوشی ترک نہ کرنے کے باوجود بھی پھر کبھی ان کے سامنے سگریٹ نہیں پیا.
سائیں جی کا دوسرا بیٹا حنیف فوج چھوڑ کر گھر آیا تو ایک دن کہنے لگا ابا جی اب آپ کی عمر دکان کرنے کی نہیں رہی ویسے بھی آپ نے بہت کچھ ہمارے لیے کیا، اب آپ گھر بیٹھیں اور ہمیں خدمت کا موقع دیں. سن کر کہنے لگے ایں ہاں حرکت شرکت لغی رہوے تے نین پران ٹھیک رہنے ہن. لیکن حنیف نے اپنا تکرار جاری ہی رکھا جس کی بنا پر سائیں جی دکان چھوڑ کر گھر بیٹھ گئے. اب بس محلے داری نبھانے لگے. کبھی دل چاہا تو نسوار لینے سیری عارف کے پاس آتے کچھ دیر بیٹھتے گپ شپ لگاتے اور گھر چلے جاتے. بیٹے کی فرمائش پر داڑھی بھی رکھ لی تھی اور نماز کی طرف بھی رغبت ہو چکی تھی. زیادہ تر گھر رہنے سے وہی بات ہوئی جس کا اکثر کہا کرتے تھے کہ نین پران کسی کام کے نہیں رہتے.
غموں کے باوجود بھی مسکرانے والے کو لوگ کہتے ہیں بڑا دل ہے اس کا، دل کے بل بوتے پر ہی انسان بڑے بڑے کام کرتا، لیکن دل بڑھ جائے تو وبال جان بن جاتا ہے، گھر کیا بیٹھے تھے کہ بیماریوں نے آنا جانا شروع کر دیا تھا، کچھ دنوں سے پسلیوں میں درد کی شکایت جو تھی پہلے پہل تو دیسی کاڑھے شاڑھے کا استعمال رہا جب دو دن مذید گزر گئے تب ڈاکٹر کے پاس جانے کا فیصلہ کر ہی لیا. جہاں کچھ مشینری نے یہ بتا ہی دیا کہ بڑے دل والے کا دل بڑھ ہی چکا ہے. پھر کیا ہونا تھا بس موت کو ایک بہانہ ہی چاہیے ہوتا ہے اور یہی بہانہ کارگر ثابت ہوا، کافی علاج معالجے کے باوجود بھی بہتر نہ ہو سکے. ایک دن پسلیوں کو مسلتے مسلتے اکھیوں کو آدھ موہ بند کر گے جن کو مکمل بند کرنے میں شریک حیات نے ساتھ دیا. یوں سائیں شیدو خود کیا گئے کہ گھر کے ساتھ ساتھ ساری بستی کو سوگوار چھوڑ گے.
آج بھی میرا گزر جب بازار میں سے اس دکان کے سامنے سے ہوتا ہے جو کہ اب فروٹ شاپ بن چکی ہے تو وہی تیس پینتیس سال والی کہانی یاد ا جاتی ہے کہ میں سگریٹ کے کش لے رہا ہوں اور سائیں جی کھنکیوں سے دیکھتے ہوئے کہہ رہے ہوں بھانجیا اس روپ وچ کوئی چنگا نہے لغا.
سائیں شیدو.
تحریر :- گل زیب انجم.
وقت کا سدا ایک سا نہ رہنا بھی نعمت خداوندی ہے. اگر اس کا بدلنا نہ ہوتا تو چنگے مندے کی تہذیب ہی نہ ہوتی. ہم دیکھتے ہیں کہ بہت ساری حسین عمارتیں کھنڈرات میں اور کھنڈرات محلات میں بدل جاتے ہیں یہ بدلنا ہی وقت کا تغیر کہلاتا ہے.
سیری نالا بان جہاں سے ھلہ جانے والوں کا رستہ ہے اس کی دائیں جانب تقریباً آٹھ دس فٹ کے فاصلے پر پانی کا کچھ گہرا حصہ ہوتا تھا جس کو مقامی زبان میں ڈبہورا کہا جاتا تھا. اس ڈبہورے کی نسبت برلب بان بسنے والے ایک بابا جی سے تھی جو راجپوت قبیلے کے تھے. وہ اپنے دو بیٹوں اور ان کے بال بچوں کے ساتھ رہتے تھے. اس دور کے خوبصورت گھروں میں بابا جی کا گھر بھی شامل تھا جس کو سگھڑ خواتین نے صاف ستھرا رکھا ہوا تھا. لیکن بابا جی کا یہ ساتھ دیرپا نہ رہ سکا کیونکہ دونوں بیٹے اور ایک بہو بان میں آنے والی تغیانی کے اس وقت نذر ہو گئے جب ستائیسویں شب کی سحری کو کچھ ہی ساعتیں باقی تھی. تغیانی کے گزر جانے کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہاں کبھی کوئی خاندان بھی آباد تھا.
باوے کے ڈبہورے کے سامنے سیری کی جانب ایک چٹان نما جگہ ہے جسے لوگ مندو ہوراں نا دندا کہتے ہیں. یہ نہیں پتہ چلا کہ اسے مندو جی سے کیوں منسوب کیا گیا جبکہ دندے کی جانب پہلا گھر ان کے بھائی بشیر کا ہے. یہاں مندو جی اپنے چار بھائیوں کے ساتھ رہا کرتے تھے. اولادیں ہوئیں جگہ کم لگنے لگی تو دو بھائی رشید اور مجید دندے کو چھوڑ کر اپنی الاٹمنٹ اراضی پر جا بسے. چاروں بھائی اپنی عادات و اطوار سے بہت ہی مختلف تھے. ہر کسی کا اپنا ہی طرز زندگی تھا. لیکن ان میں سے رشید(اصل نام محمد صدیق تھا جو صرف کاغذات تک ہی محدود رہا) بالکل ہی الگ تھے. آپ نے زندگی کے تقریباً تمام ہی رنگ دیکھے تھے . لیکن جب ہم نے آپ کو دیکھا تھا تو اس وقت کا رنگ درویشوں والا تھا. اس انداز درویشانہ کی وجہ سے آپ کو اپنے پرائے سبھی سائیں کہنے لگے لیکن بہت سارے لوگوں نے یہ نہیں جانا کہ ہر وقت مسکراہٹ سجائے رکھنے والا دکاندار اور چنگا تگڑا جری رشید کیسے سائیں شیدو بن گیا. ابھی کچھ
ماہ و سال پہلے تک تو آپ کا شمار سیری کے کامیاب ترین دکانداروں میں تھا. پرانے زمانے کی دکانوں کو کوئی نام دینے سے قاصر ہیں کیونکہ اکثر یہی دیکھا کہ ایک ہی دکان سے تمام چیزیں مل جایا کرتی تھی. ایسا کوئی اصول نہ تھا کہ کریانہ والا کپڑا نہ رکھے یا منیاری والا تیل نہ رکھتا ہو بلکہ وہ دکانیں خود تو حجم کے لحاظ سے چھوٹی ہوا کرتی تھی لیکن ضروریات زندگی کی ہر چیز انہی دکانوں سے مل جایا کرتی تھی. مٹی کا تیل بیچنے والوں کے پاس سے اکثر ہم نے الف ب والی پٹی پہاڑے کا قاعدہ اور جنتریاں بھی خریدی ہیں. یہی بات ہے کہ رشید مغل کی دکان سے بھی ہر چیز ملا کرتی تھی. جب ہر چیز موجود ہو تو دکانداری بھی اچھی ہوتی ہے. بس ایک نام چل رہا تھا رشید نی ہٹی. بلکہ دکان کی چہل پہل کی وجہ سے کچھ حلقوں میں سیٹھ رشید بھی کہا جاتا تھا. اچھے برے لوگ ہر دور میں موجود رہے ہیں خیر بروں کی تعداد جن کا شمار حاسدین میں ہوتا ہے اس وقت بھی کم نہ تھے. جب رشید کا کاروبار اُن کو نہ بہایا تو پہلے پہل انہوں نے رشید سے دکان لینے کے حربے آزمائے جب بات نہ بنی تو کوئی جھوٹے الزامات لگا کر کیس بنوا دیا. پھر کیس ایسا لگا کہ دکان کی صرف مٹی سے لپائی کی ہوئی دیواریں ہی رہ گئی. دیکھتے ہی دیکھتے ایک دن دکان بھی ہاتھوں سے نکل گئی. یہ پہلا جھٹکا تھا جو رشید مغل کو سائیں بنانے کے لیے کارآمد ثابت ہوا.
حالات کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے آپ نے پھر سے خانپور گالہ میں دکان رکھ لی. سیری جیسی شہرت تو نہ تھی پھر بھی سائیں ہوراں نی ہٹی مشہور تھی.
بیٹے کا جوان ہونا والدین بالخصوص والد کے لیے ویسی ہی اہمیت رکھتا ہے جیسے گرتے ہوئے شجر کو کوئی سہارا مل جائے. بیٹوں کو جوان ہوتا دیکھ کر والدین ایک بار پھر جوان ہو جاتے ہیں لیکن کل کا سورج کیا پیغام لاتا ہے اس کا کسی کو پتہ نہیں ہوتا. سائیں جی کا بیٹا بھی جوان ہوا، شادی کرا دی گئی تھی اب وہ اصول روزگار کے لئے کراچی جانے لگا تھا. چونکہ سسرال میرپور تھے اس لیے سوچا ایک دو دن سسرال رہ کر پھر چلا جاوں گا. موسم ایسا تھا کہ لوگ ڈیم میں نہانے کو پسند کرتے تھے وہ بھی دوسرے دن دس بجے کے قریب قریب دوستوں کے ساتھ نہانے ڈیم کی طرف گیا لیکن واپسی چل کر آنے کے بجائے دوستوں کے کندھوں پر ہوئی. کیا خبر تھی باپ کی متاعِ حیات یوں آدھے رستے میں ہی ڈوب جائے گی.
جوان بیٹے مانند بازو ہوتے ہیں اگر بازوں ہی کٹ جائیں تو باقی جسم کی کیا اہمیت رہتی ہے. یہی وہ دوسرا جھٹکا تھا جو رشید مغل کو سائیں شیدو بنا گیا.
ناگہانی صدمات نے تمام اعصابی نظام کو مجروح کر دیا تھا. وقت ایسا بھی آتا ہے کہ پاؤں کے آبلوں کو انسان کانٹوں سے چھید کر سکون محسوس کرتا ہے. بس کچھ ایسا ہی ہوا کہ سائیں شیدو غموں کا مداوا قنب سے کرنے لگے. کلائی میں ایک آہنی کڑا اور ہاتھوں میں آہنی عصا رکھنے لگے. بال شانوں تک بڑھ گئے مونچھیں تراشنا ہی بھول گئے کپڑے کبھی دو رنگے پہن لیتے جو ملتا کھا لیتے اور پھر اپنی دنیا میں مست ہو جاتے، سائیں شیدو کچھ عرصہ کے لیے بھول ہی گئے کہ بیٹے کے علاوہ بھی کوئی اس دنیا میں تھا. وقت کا ہی کرشمہ تھا کہ جن ہاتھوں میں رنگلہ ڈنڈا ( اس وقت کے وہ لوگ رکھا کرتے تھے جو پہلوان یا لٹھ مار ہوا کرتے تھے اور یہ دونوں خصوصیات آپ میں آتم درجہ موجود تھی) ہوا کرتا تھا ان ہاتھوں میں عصا آ چکا تھا، دکان سے نکلتے ہی ایک پسٹل جس کا پٹہ کاندھے سے لے کر کمر تک ہوتا تھا یوں گلے میں ڈالتے کہ سینے پر کراس بن جاتا. کوہاٹی کھیڑی کڑھائی والا کڑتا جس کی کلائی پر چونٹیں ہوا کرتی تھی اور دھاری دار لاچا چھ فٹ کے قریب کسرتی جسم پر یوں سجتا کہ جو دیکھتا وہ دیکھتا ہی رہ جاتا تھا لیکن اب اس کی کوئی پرواہ نہ تھی کہ کوئی دیکھ رہا بھی ہے کہ نہیں. ہاں اگر کچھ پہلے سا تھا تو لچھے دار بال تھے جو بے توجہی کا شکار تو تھے لیکن ان کے اسٹائل میں کوئی فرق نہ پڑا تھا.
بادل چاہے جتنے بھی گنگھور ہوں آخر انہیں چھٹ ہی جانا ہوتا ہے، دماغ کچھ آنسوؤں سے کچھ ٹھوکروں سے صاف ہوا تو پھر سے ذریعہ معاش کی فکر ستانے لگی تو مائی ہوراں نہے مکان بازار میں لحاف بھرائی اور روئی پنجائی کی دکان رکھ لی. یہ دکان بہت عرصہ تک رہی. یہاں دوران دکانداری رشید رہے نہ شیدو بس سائیں جی مشیناں والے مشہور ہو گئے. آپ دربار سے سیری پیدل ہی آیا جایا کرتے تھے اور یہ پیدل چلنا آپ کو یوں راس آیا کہ ادھیڑ عمر کے ہونے کے باوجود بھی چاک و چوبند دکھتے تھے.
اچھا وقت تھا ہمدردی کا کچھ کچھ عنصر باقی تھا کسی کو غلط کرتے دیکھا جاتا تو سمجھایا جاتا تھا. دربار سے واپسی پر عارف نسوار فروش کی دکان پر آپ کا اکثر قیام ہوتا تھا. عارف بھی تک دکان بند نہیں کیا کرتا تھا جب تک کھوئی رٹہ سے راجہ مظفر برادر صابر اور دربار سے سائیں شیدو نہ آ جاتے. ایک دن شام کو میں اس دکان پر بیٹھا سگریٹ نوشی کر رہا تھا کہ سائیں جی آ گئے ، نسوار لیتے ہوئے کھنکیوں سے ایک دو بار دیکھا، نسوار کی ایک موٹی سی چٹکی رکھتے ہوئے پورا رخ میری طرف کر کے کہنے لگے بھانجیا اس روپ وچ کوئی چنگا نہے لغا ( بھانجے اس حالت میں کوئی اچھے نہیں لگے). عارف نے سنا تو کہنے لگا سائیں جی آج کل سارے ہی پیتے ہیں سن کر کہنے لگے شاید تساں سنیا نہی کہ میں بلایا کس رشتے نال اے. عارف تو سن کر نسوار بنانے لگا لیکن میں سگریٹ لے کر وہاں سے چلتا بنا. ان کے یوں سمجھانے سے اتنی شرم آئی کہ سگریٹ نوشی ترک نہ کرنے کے باوجود بھی پھر کبھی ان کے سامنے سگریٹ نہیں پیا.
سائیں جی کا دوسرا بیٹا حنیف فوج چھوڑ کر گھر آیا تو ایک دن کہنے لگا ابا جی اب آپ کی عمر دکان کرنے کی نہیں رہی ویسے بھی آپ نے بہت کچھ ہمارے لیے کیا، اب آپ گھر بیٹھیں اور ہمیں خدمت کا موقع دیں. سن کر کہنے لگے ایں ہاں حرکت شرکت لغی رہوے تے نین پران ٹھیک رہنے ہن. لیکن حنیف نے اپنا تکرار جاری ہی رکھا جس کی بنا پر سائیں جی دکان چھوڑ کر گھر بیٹھ گئے. اب بس محلے داری نبھانے لگے. کبھی دل چاہا تو نسوار لینے سیری عارف کے پاس آتے کچھ دیر بیٹھتے گپ شپ لگاتے اور گھر چلے جاتے. بیٹے کی فرمائش پر داڑھی بھی رکھ لی تھی اور نماز کی طرف بھی رغبت ہو چکی تھی. زیادہ تر گھر رہنے سے وہی بات ہوئی جس کا اکثر کہا کرتے تھے کہ نین پران کسی کام کے نہیں رہتے.
غموں کے باوجود بھی مسکرانے والے کو لوگ کہتے ہیں بڑا دل ہے اس کا، دل کے بل بوتے پر ہی انسان بڑے بڑے کام کرتا، لیکن دل بڑھ جائے تو وبال جان بن جاتا ہے، گھر کیا بیٹھے تھے کہ بیماریوں نے آنا جانا شروع کر دیا تھا، کچھ دنوں سے پسلیوں میں درد کی شکایت جو تھی پہلے پہل تو دیسی کاڑھے شاڑھے کا استعمال رہا جب دو دن مذید گزر گئے تب ڈاکٹر کے پاس جانے کا فیصلہ کر ہی لیا. جہاں کچھ مشینری نے یہ بتا ہی دیا کہ بڑے دل والے کا دل بڑھ ہی چکا ہے. پھر کیا ہونا تھا بس موت کو ایک بہانہ ہی چاہیے ہوتا ہے اور یہی بہانہ کارگر ثابت ہوا، کافی علاج معالجے کے باوجود بھی بہتر نہ ہو سکے. ایک دن پسلیوں کو مسلتے مسلتے اکھیوں کو آدھ موہ بند کر گے جن کو مکمل بند کرنے میں شریک حیات نے ساتھ دیا. یوں سائیں شیدو خود کیا گئے کہ گھر کے ساتھ ساتھ ساری بستی کو سوگوار چھوڑ گے.
آج بھی میرا گزر جب بازار میں سے اس دکان کے سامنے سے ہوتا ہے جو کہ اب فروٹ شاپ بن چکی ہے تو وہی تیس پینتیس سال والی کہانی یاد ا جاتی ہے کہ میں سگریٹ کے کش لے رہا ہوں اور سائیں جی کھنکیوں سے دیکھتے ہوئے کہہ رہے ہوں بھانجیا اس روپ وچ کوئی چنگا نہے لغا.