رشید حسرت
محفلین
سائے کی طلب کیا
سفر ہے، اِس میں سائے کی طلب کیا
چلا ھوں دُھوپ میں آرام اب کیا
میں اپنے باپ کے تابع کہاں تھا
اگر بیٹا ہے نا فرمان عجب کیا؟
چلو سب مان لِیں شرطیں تُمہاری
بہانہ حِیل و حُجّت کا ھے اب کیا
مِرا سب کچھ ادھورا رہ گیا ھے
نہ آیا مُدعا یہ تا بہ لب، کیا؟
محبّت میں لُٹا بیٹھا ہوں سب کُچھ
بتاؤ جان ہی لے لو گے اب کیا
لبوں پہ جاں مچلتی ہوگی جس دم
مُجھے تم دیکھنے آؤ گے تب، کیا؟
پڑھا ہے میں نے چہرے پر تُمہارے
اکارت ہو گئی محنت وہ سب کیا
محبت میں مجھے آیا نہ ہر گز
قرینہ کیا، سلیقہ کیا ہے، ڈھب کیا
کھڑے ہیں ہاتھ باندھے لفظ باندی
رشید حسرتؔ کے شعروں میں غضب کیا۔
رشید حسرتؔ۔
سفر ہے، اِس میں سائے کی طلب کیا
چلا ھوں دُھوپ میں آرام اب کیا
میں اپنے باپ کے تابع کہاں تھا
اگر بیٹا ہے نا فرمان عجب کیا؟
چلو سب مان لِیں شرطیں تُمہاری
بہانہ حِیل و حُجّت کا ھے اب کیا
مِرا سب کچھ ادھورا رہ گیا ھے
نہ آیا مُدعا یہ تا بہ لب، کیا؟
محبّت میں لُٹا بیٹھا ہوں سب کُچھ
بتاؤ جان ہی لے لو گے اب کیا
لبوں پہ جاں مچلتی ہوگی جس دم
مُجھے تم دیکھنے آؤ گے تب، کیا؟
پڑھا ہے میں نے چہرے پر تُمہارے
اکارت ہو گئی محنت وہ سب کیا
محبت میں مجھے آیا نہ ہر گز
قرینہ کیا، سلیقہ کیا ہے، ڈھب کیا
کھڑے ہیں ہاتھ باندھے لفظ باندی
رشید حسرتؔ کے شعروں میں غضب کیا۔
رشید حسرتؔ۔