وقار علی ذگر
محفلین
ساتھ کسی کا ہم کیا دیتے
کب تک خود کو دھوکا دیتے
جانے دنیا کیا کیا کہتی
جانے تم کیا طعنہ دیتے
کیا ہے رسمِ دنیا داری
دیوانوں کو سمجھا دیتے
کام نہ تھا اس شہر میں کوئی
اُن گلیوں میں پہرا دیتے
آنے والے ہر لمحے کو
اشکوں کا نذرانہ دیتے
اُن آنکھوں نے باتیں کی ہیں
اُن آنکھوں کو بوسہ دیتے
خار اُگائے ، خار سمیٹو
پیڑ اُگاتے ، سایہ دیتے
رساچغتائی
کب تک خود کو دھوکا دیتے
جانے دنیا کیا کیا کہتی
جانے تم کیا طعنہ دیتے
کیا ہے رسمِ دنیا داری
دیوانوں کو سمجھا دیتے
کام نہ تھا اس شہر میں کوئی
اُن گلیوں میں پہرا دیتے
آنے والے ہر لمحے کو
اشکوں کا نذرانہ دیتے
اُن آنکھوں نے باتیں کی ہیں
اُن آنکھوں کو بوسہ دیتے
خار اُگائے ، خار سمیٹو
پیڑ اُگاتے ، سایہ دیتے
رساچغتائی