ناز خیالوی ""سادگی بھی ہے شرارت اُس کی"" ناز خیالوی

سادگی بھی ہے شرارت اُس کی
بوجھ لی دل نے بجھارت اُس کی

روح جلسہ ہے تمناؤں کا
درد کرتا ہے صدارت اُس کی

ہم سے تحسین طلب ہے دن رات
کتنی مفلس ہے امارت اُس کی

اُس کو لوٹاؤں گا میں سود کے ساتھ
قرض ہے مجھ پہ حقارت اُس کی

جس نے پی کیف کی حد سے بڑھ کر
مے کشی ہو گئی غارت اُس کی

موت کو تحفئہ جاں پیش کرو
آخری ہے یہ سفارت اُس کی

نازؔ وہ عرس میں آیا ہو گا
آؤ کر آئیں زیارت اُس کی
نازؔ خیالوی
 
Top