حسان خان
لائبریرین
جہانِ نور بنا ہے مرے وطن کے افق سے
طلوعِ رنگ و ضیا ہے مرے وطن کے افق سے
ہے آفتاب کا مولد، سواد میرے وطن کا
فروغ جلوہ نما ہے مرے وطن کے افق سے
نظر افق پہ جو پہنچی تو میں نے رات کو دیکھا
کہ چاند جھانک رہا ہے مرے وطن کے افق سے
گھٹائیں جھوم کے آتی ہیں صرف میرے وطن میں
نزولِ آبِ بقا ہے، مرے وطن کے افق سے
ہے اک احاطۂ فطرت، فصیل میرے وطن کی
فسانہ ریز فضا ہے مرے وطن کے افق سے
یہیں نمودِ سحر ہے، وجودِ شام یہیں ہے
غرض فرائضِ فطرت کا اہتمام یہیں ہے
دمِ سفر مگر اک شعبدہ نیا نظر آیا
نہ آفتاب نہ مہتاب دوسرا نظر آیا!
جہاں گیا وہیں فطرت کو ایک رنگ میں دیکھا
وہی سحر وہی انداز شام کا نظر آیا
تجلیاں وہی مشرق میں نورِ مہر کی دیکھیں
وہی افق میں مجھے چاند ڈوبتا نظر آیا!
وہی ستارے نظر آئے آسماں پہ فروزاں
وہی گھٹاؤں میں شعلہ سا کوندتا نظر آیا
بڑھا میں جتنا، بڑھی اتنی ہی یہ محفلِ فطرت
جدھر گیا میں، اُدھر ہی یہ ماجرا نظر آیا
جو اہتمام کسی اپنی رہگزار میں دیکھا
وہی نظام ہر اک شہر، ہر دیار میں دیکھا
کھلا یہ راز ہیں باطل قیود میرے وطن کی
ہیں بے نیازِ تعین حدود میرے وطن کی
جہانِ فکر سے باہر مرے وطن کی حدیں ہیں
نہیں اسیرِ نظر ہست و بود میرے وطن کی!
سمک سے تا بہ سما ہے مرے وطن کی تجلی
ثریٰ سے تا بہ ثریا نمود مرے وطن کی
یہ شش جہات ہیں میرے وطن کا تکیۂ پہلو
جبیں ہے عرش پہ صرفِ سجود میرے وطن کی
مشاہدے کے لیے چاہیے نگاہ میں وسعت
بہت وسیع ہے بزمِ شہود میرے وطن کی
زمین میرا وطن، آسمان میرا وطن ہے
یہ فیصلہ ہے کہ 'سارا جہان میرا وطن ہے'
(سیماب اکبرآبادی)
طلوعِ رنگ و ضیا ہے مرے وطن کے افق سے
ہے آفتاب کا مولد، سواد میرے وطن کا
فروغ جلوہ نما ہے مرے وطن کے افق سے
نظر افق پہ جو پہنچی تو میں نے رات کو دیکھا
کہ چاند جھانک رہا ہے مرے وطن کے افق سے
گھٹائیں جھوم کے آتی ہیں صرف میرے وطن میں
نزولِ آبِ بقا ہے، مرے وطن کے افق سے
ہے اک احاطۂ فطرت، فصیل میرے وطن کی
فسانہ ریز فضا ہے مرے وطن کے افق سے
یہیں نمودِ سحر ہے، وجودِ شام یہیں ہے
غرض فرائضِ فطرت کا اہتمام یہیں ہے
دمِ سفر مگر اک شعبدہ نیا نظر آیا
نہ آفتاب نہ مہتاب دوسرا نظر آیا!
جہاں گیا وہیں فطرت کو ایک رنگ میں دیکھا
وہی سحر وہی انداز شام کا نظر آیا
تجلیاں وہی مشرق میں نورِ مہر کی دیکھیں
وہی افق میں مجھے چاند ڈوبتا نظر آیا!
وہی ستارے نظر آئے آسماں پہ فروزاں
وہی گھٹاؤں میں شعلہ سا کوندتا نظر آیا
بڑھا میں جتنا، بڑھی اتنی ہی یہ محفلِ فطرت
جدھر گیا میں، اُدھر ہی یہ ماجرا نظر آیا
جو اہتمام کسی اپنی رہگزار میں دیکھا
وہی نظام ہر اک شہر، ہر دیار میں دیکھا
کھلا یہ راز ہیں باطل قیود میرے وطن کی
ہیں بے نیازِ تعین حدود میرے وطن کی
جہانِ فکر سے باہر مرے وطن کی حدیں ہیں
نہیں اسیرِ نظر ہست و بود میرے وطن کی!
سمک سے تا بہ سما ہے مرے وطن کی تجلی
ثریٰ سے تا بہ ثریا نمود مرے وطن کی
یہ شش جہات ہیں میرے وطن کا تکیۂ پہلو
جبیں ہے عرش پہ صرفِ سجود میرے وطن کی
مشاہدے کے لیے چاہیے نگاہ میں وسعت
بہت وسیع ہے بزمِ شہود میرے وطن کی
زمین میرا وطن، آسمان میرا وطن ہے
یہ فیصلہ ہے کہ 'سارا جہان میرا وطن ہے'
(سیماب اکبرآبادی)