ساری جفائیں سارے کرم یاد آ گئے۔ ساغر خیامی

سیما علی

لائبریرین
ساری جفائیں سارے کرم یاد آ گئے
جیسے بھی یاد آئے ہوں ہم یاد آ گئے

جب بھی کہیں سے پیار ملا یا خوشی ملی
دنیا کے درد و رنج الم یاد آ گئے

دیکھیں ہیں جب بھی گل کے قریں چند تتلیاں
کتنے خیال و خواب بہم یاد آ گئے

لکھا تھا تم نے خط میں کہ تم نے بھلا دیا
کیا حادثہ ہوا ہے کہ ہم یاد آ گئے

پردیس میں جو آئی نظر نرگسی نگاہ
اک با وفا کے دیدۂ نم یاد آ گئے

مدت ہوئی ہے بچھڑے ہوئے اپنے آپ سے
دیکھا جو آج تم کو تو ہم یاد آ گئے

سلجھائیں جب بھی زیست کی ساغرؔ نے گتھیاں
ناگاہ تیری زلف کے خم یاد آ گئے
 
Top