سارے مصنوعی سہارے دائیں بائیں ہو گئے۔۔۔ غزل اصلاح کے لئے

السلام عليكم
استادِ محترم جناب الف عین سر ایک غزل اصلاح کے لئے پیش کر رہا ہوں ۔۔۔احقرکو مستفید فرمائیں۔۔

فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
سارے مصنوعی سہارے دائیں بائیں ہو گئے
اب سبھی رشتے ہمارے دائیں بائیں ہو گئے

آزمانا، فیصلہ کن وقت پر سب راستے
کج روش، فطرت کے مارے دائیں بائیں ہو گئے

زندگی کی دوڑ میں، مصروفیت کی جنگ میں
تیری یادوں کے شمارے دائیں بائیں ہو گئے

بس اچانک دیکھ کر ان کو، ہمارے ذہن سے
مثل، تشبیہ، استعارے دائیں بائیں ہو گئے

جب دعا کی رب سے اھدنا الصّرَاط المستقیم
اہرمن، طاغوت سارے دائیں بائیں ہو گئے

راستے سے عرش تک مظلوم کی فریاد پر
کہکشائیں، چاند، تارے دائیں بائیں ہو گئے

امتحاں میں دیکھ کر کاشف، کراماََ کاتبین
لکھ گئے کہ دوست سارے دائیں بائیں ہو گئے

 

عظیم

محفلین
مجھے بھی ردیف مزاحیہ قسم کی لگ رہی ہے، اس کے علاوہ دوسرا شعر دو لخت محسوس ہو رہا ہے۔
چوتھی شعر کے دوسرے مصرع میں 'تشبیہ' کی ہ کو گرایا گیا ہے جو میرا خیال ہے کہ درست نہیں ہے
اور مقطع میں میرا خیال ہے کہ صرف 'امتحاں' ٹھیک نہیں ہے، اس سے ہمارے دنیاوی امتحان ذہن میں آتے ہیں، اور دوسرا وہ تو صرف سوال و جواب ہوتے ہیں اس کو امتحان کہنا بھی درست معلوم نہیں ہو رہا۔ اس کے علاوہ 'امتحاں میں دیکھ کر' میں 'دیکھ کر' سے کیا مراد ہے یہ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا
 
مجھے بھی ردیف مزاحیہ قسم کی لگ رہی ہے، اس کے علاوہ دوسرا شعر دو لخت محسوس ہو رہا ہے۔
چوتھی شعر کے دوسرے مصرع میں 'تشبیہ' کی ہ کو گرایا گیا ہے جو میرا خیال ہے کہ درست نہیں ہے
اور مقطع میں میرا خیال ہے کہ صرف 'امتحاں' ٹھیک نہیں ہے، اس سے ہمارے دنیاوی امتحان ذہن میں آتے ہیں، اور دوسرا وہ تو صرف سوال و جواب ہوتے ہیں اس کو امتحان کہنا بھی درست معلوم نہیں ہو رہا۔ اس کے علاوہ 'امتحاں میں دیکھ کر' میں 'دیکھ کر' سے کیا مراد ہے یہ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا
بہت بہت شکریہ عظیم بھائی ۔۔۔ آپ کی گزارشات پر غور کرتا ہوں ۔۔۔ شاید کچھ بہتر کر سکوں ۔۔۔
جزاک الله ۔۔۔
 
Top