تبصرہ کتب سازشوں کی تاریخ

تبصرہ بر کتابے
کتاب : مؤامرات التاريخ الكبرى
تأليف: مرفت عبد الصمد
ناشر: دار الكتاب العربي
طباعت اول : 2015
زبان: عربی
ورق: اصفر
عزيزم مولانا احمد رضا صاحب کے کمرے میں یہ کتاب دیکھی چوں کہ ان کے کمرے میں"دوستی کافی ادهار کے لیے معافی" قسم کا کوئی بورڈ یا تنبیہ بهی نہیں،اس لیے اپنی ادهار گیر صلاحیت کا جوہر دکھاتے ہوئے ہم نے ان سے کتاب مستعار لی....

تین سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں مؤلف نے تاریخ کے خوان سے" سازش پارے"( بشرطِ صحت ترکیب) چن کر ہمارے سامنے پروس دیئے ہیں .
حضرت انسان مکر وفریب ، غداری، دهوکہ دہی اور دسیسہ کاری میں کس حد تک جا سکتا ہے ، حکومت کا نشہ، سیاست ملعونہ، اسے کس قعر مذلت میں گرا سکتی ہے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں، یہی انسان جو کبهی بڑهتا ہے تو وسعت کونین کی تنگ دامنی کا گلہ ہوتا ہے جب خست اور گهٹیا پن پر آتا ہے تو بہائم و حیوانات اشرف نظر آتے ہیں. ..
مؤلف نے فراعین مصر کے زمانے سے لے کر آج تک کی بڑی بڑی سازشوں کو جمع کیا ہے . تیرہ فصلوں پر مشکل اس کتاب میں دور فرعون، یونان عظیم، رومان، انبیائے کرام کے خلاف، دولت امویہ ، عباسیہ، فاطمیہ ، دور طوائف الملوکی ، حکومت عثمانیہ، صیہونی جماعت الماسونيہ، قرون وسطیٰ دوسری عالمی جنگ اور موجودہ تیسرا ہزارہ تک کی سازشوں اور دسیسہ کاریوں میں سے ان کا انتخاب کیا ہے جنہوں نے حکومتیں پلٹ دیں اور انسانی سوچ کا رخ دوسری طرف موڑ دیا، کتاب کی آخری کڑی یا فصل نائن الیون اور "داعش" کو ایک بڑی سازش قرار دیتی ہے ...
کتاب علمی معیار پر معتبر معلومات پر مشتمل ہے ان سازش سازوں میں سب سے بڑے مکار سازش ساز اور دسیسہ کار فریب دہ صیہونی ہیں اسی وجہ سے کتاب کا بڑا حصہ ان کی مکر و فریب اور نقض عہود و مواثيق کی داستان بتاتا نظر آتا ہے ....
تاريخ کے اس بهیانک اور پراسرار گوشہ کے اسباب تقریباً سیاست ،حکومت، استعباد اور استعمار ہیں..
قتل و قتال ،جنگ وجدال سے کہیں گنا زیادہ سازش ، غداری اور دسیسہ کاری کی داستان بهیانک اور خوف ناک ہے ..
مصنف نے سب سے بڑی سازش جو آج تک دل مسلم میں کهٹک رہی ہے " فلسطین" کے استعمار کی سازش پر بہترین انداز میں روشنی ڈالی اس استعمار کی نیو اعلان بالفور نے رکهی جس میں برطانیہ نے یہودیوں کو اس زمین پر رہائش کے حقوق دئیے اور جو آنے والے احتلال کا پیش خیمہ بنا ...( یہ بات ملحوظ رہے کہ بالفور چونکہ یہودیوں کی سرشت سے واقف تھا اس لیے اس نے خود یہودیوں کو برطانیہ کی طرف ہجرت کرنے سے سختی سے منع کیا تھا )
عجب العجاب !!!!! غیر مالک غیر مستحق کو فلسطین دے رہا ہے. .
مؤلف نے ایڈولف ہٹلر کے یہود مظالم کو خود یہودی صیہونی زعما اور لیڈروں کی سازش بتایا ہے تاکہ عوام یہود وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوں بلکہ ظروف اس طرح ترتیب دئیے گئے کہ فلسطین کے سوا کسی اور ملک کی طرف ہجرت مشکل ترین کردی گئی، چند لوگ مصنف کی اس بات سے متفق نہ ہوں مگر ان کے پاس شواہد و دلائل ہیں جو ہٹلر اور صیہونی زعما کی دوستی پر دال ہیں ..
صیہونی دانش وروں کے بنائے ہوئے 15 پروٹوکول جو صیہونیت کے مقاصد کو بیان کرتے ہیں اور اس کو چهپانے کی بے حد کوششوں کے باوجود منظر عام پر آگیے ان کی اسلام دشمنی نہیں بلکہ انسان دشمنی اور تعصب کا پتہ دیتے ہیں ..
یہودیوں کی تنظیم الماسونيہ کس طرح اقتصادی أعلامی سیاسی استعمار کر رہی ہے اس کو واضح کرتے ہوئے مؤلف نے کئی وقائع و احداث کی تحليل و تشریح کی. .. آخری فصل میں کوبا کے رئیس فیدل کاسترو جس کے قتل کی ولایات متحدہ نے 600 سازش کیں ان سازشوں پر گفتگو کرتے ہوئے نائن الیون اس کے داعش کو امریکی سازش قرار دیا ہے جو ایسی ڈائن ہے جس کی پیاس خون مسلم کو چوس کر ہی بجهتی ہے اگر خلافت اسلامیہ کی صحیح دعوےدار ہوتی تو اپنی بندوق کی نالی اسرائیل کی طرف پهیرتی، مگر نہیں یہ اپنے آقا اسرائیل کی خانہ زاد ہے ...
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی کی ستیزہ کاری تو ہمیشہ سے ہے اور رہے گی ، افسوس ان سازشوں کا نہیں، افسوس اس بات کا ہے کہ ہم خود اپنی جہالت اور کم نظری کی وجہ سے ان سازشوں کی تکمیل میں معاون بنتے ہیں مومن ایک سراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا مگر ہم باربار آپسی فرقت و انتشار انقسام و تشتت کی تلوار سے لہو لہان ہوتے ہیں. .
خیر حاصل یہ کہ کتاب اپنے موضوع پر بالخصوص نظریہ سازش کے شائقین کے لیے لا جواب ہے. مصنف نے حوالہ جات کے طور پر شرق سے پہلے غرب، اخبار و رسائل سے پہلے حکومتی اراشیف و وثائق کا سہارا لیا ہے جو کتاب کے علمی وزن کو بڑهاتا ہے.
تبصرہ نگار: شبیر حسین تاب
 

arifkarim

معطل
ان سازش سازوں میں سب سے بڑے مکار سازش ساز اور دسیسہ کار فریب دہ صیہونی ہیں اسی وجہ سے کتاب کا بڑا حصہ ان کی مکر و فریب اور نقض عہود و مواثيق کی داستان بتاتا نظر آتا ہے
اسلیئے کہ صیہونی کامیاب ہو گئے اور اسلامی شدت پسند ناکام؟

قتل و قتال ،جنگ وجدال سے کہیں گنا زیادہ سازش ، غداری اور دسیسہ کاری کی داستان بهیانک اور خوف ناک ہے
متفق!

مصنف نے سب سے بڑی سازش جو آج تک دل مسلم میں کهٹک رہی ہے " فلسطین" کے استعمار کی سازش پر بہترین انداز میں روشنی ڈالی اس استعمار کی نیو اعلان بالفور نے رکهی جس میں برطانیہ نے یہودیوں کو اس زمین پر رہائش کے حقوق دئیے اور جو آنے والے احتلال کا پیش خیمہ بنا
کیا بنی اسرائیل یہودی نہیں تھے؟ اگر تھے تو انکے آباؤ اجداد کہاًں رہتے تھے؟ ایسے میں یہودیوں کو اسرائیل-فلسطین میں رہنے کیلیے برطانیہ یا کسی اور ملک سے اجازت لینے کی کیا ضرورت تھی؟

یہ بات ملحوظ رہے کہ بالفور چونکہ یہودیوں کی سرشت سے واقف تھا اس لیے اس نے خود یہودیوں کو برطانیہ کی طرف ہجرت کرنے سے سختی سے منع کیا تھا
یہودیوں کا آبائی وطن فلسطین ہے۔ ایسے میں انہیں برطانیہ یا کسی اور ملک میں ہجرت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

عجب العجاب !!!!! غیر مالک غیر مستحق کو فلسطین دے رہا ہے
تو پھر عربوں نے فلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو دربدر کیوں کیا؟ کیا وہ غیر مستحق تھے؟

مؤلف نے ایڈولف ہٹلر کے یہود مظالم کو خود یہودی صیہونی زعما اور لیڈروں کی سازش بتایا ہے تاکہ عوام یہود وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوں بلکہ ظروف اس طرح ترتیب دئیے گئے کہ فلسطین کے سوا کسی اور ملک کی طرف ہجرت مشکل ترین کردی گئی، چند لوگ مصنف کی اس بات سے متفق نہ ہوں مگر ان کے پاس شواہد و دلائل ہیں جو ہٹلر اور صیہونی زعما کی دوستی پر دال ہیں
6 ملین یہودی مارنا بھی کیا یہود-صیہونی دوستی کا نتیجہ تھا؟

صیہونی دانش وروں کے بنائے ہوئے 15 پروٹوکول جو صیہونیت کے مقاصد کو بیان کرتے ہیں اور اس کو چهپانے کی بے حد کوششوں کے باوجود منظر عام پر آگیے ان کی اسلام دشمنی نہیں بلکہ انسان دشمنی اور تعصب کا پتہ دیتے ہیں ..
بے شک- یہ پروٹوکولز کب کے ہوکس ثابت ہو چکے ہیں۔

اگر خلافت اسلامیہ کی صحیح دعوےدار ہوتی تو اپنی بندوق کی نالی اسرائیل کی طرف پهیرتی، مگر نہیں یہ اپنے آقا اسرائیل کی خانہ زاد ہے
داعش کی بندوق کی نالی اسرائیلیوں اور فلسطینیوں پر بھی مڑ چکی ہے۔ شاید آپ خبریں نہیں سنتے۔

افسوس ان سازشوں کا نہیں، افسوس اس بات کا ہے کہ ہم خود اپنی جہالت اور کم نظری کی وجہ سے ان سازشوں کی تکمیل میں معاون بنتے ہیں مومن ایک سراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا مگر ہم باربار آپسی فرقت و انتشار انقسام و تشتت کی تلوار سے لہو لہان ہوتے ہیں
پس ثابت ہوا کہ ہم مومن نہیں۔
 
جو قضیہ زیر بحث ہے اس پر بات کرے اسلامی شدت پسند الگ موضوع ہے اور اسلامی شدت پسند کبهی اتنے ذکی نہیں رہے کہ کوئی سازش کریں البتہ سازشوں کی تکمیل کا حصہ ہمیشہ بنے
 
اگر اتنا پیچھے ہی جانا ہے تاریخ میں تو یہ لیجیے سب سے پہلے فلسطین آباد کرنے والے يبوسيون تهے جو خالص عرب تهے اور انہوں نے فلسطین کا نام یبوس رکها اس کے بعد کنعان عرب ان کے شریک ہوئے جنہوں نے أورشليم نام دیا اور یہ بنی اسرائیل کے فلسطین آنے سے بہت صدیوں پہلے کی بات ہے
 
پہلے تو آپ کو یہود اور صیہون میں تفریق پتہ نہیں. .. پروٹوکول پر اس سے کہیں زیادہ دلائل ہیں جتنا آپ تصور کر سکتے ہیں مگر جب آپ کتاب پڑھے بنا ہی موضوع پر چھلانگ دئیے تو اب حقیقت کی تلاش کیسے ہوگی ؟؟؟
بہت حریت دکھانے کا شوق اچها ہے مگر حقیقت کا گلا گھونٹ کر نہیں. ....
اور قضیہ فلسطین پر جو بهی بات کرے وہ متشدد نہیں ہوتا پیارے. ... تمہارا تو کیا شکوہ ..ع دنیا ہی پرائی ہے

لہو لہان تها میں اور عدل کی میزان
جهکی تهی جانب قاتل کہ راج اس کا تها
 
تورات کی نصوص خود واضح ہے کہ فلسطین کی تاریخ عرب سے شروع .. اور ابراہیم کے بیٹوں میں عرب اور بنی اسرائیل دونوں شامل ....
ویسے آج کل یہاں اس محفل پر کچھ لوگوں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ ہر موضوع پر لکھنا ہے چاہے پلے پڑے یا نا پڑے ... ٹهیک ہے لکهیں مگر پہلے پڑھ لیں. .اس کتاب کو دکھا بهی نہیں اور اس کا رد .... لازم ہے شعور. .
اور ہر بات کو اسلامی شدت پسندی پر لانا ضروری نہیں ہم امن و محبت کے شیدائی ہیں. صوفیا کے دلدادہ ہیں بس حقیقت ہم کو عزیز ہے....
 
مجھے پتہ ہے آپ مندرجہ بالا تمام باتوں کا جواب دیں گے مگر جواب سے پہلے تاریخ کی ورق گردانی کر لیجیے گا جواب کا وزن دیکھ لیجیے گا دقت ہو تو اہلاً. ... ورنہ کب تک کوئی الجهی ہوئی زلفوں کو سنوارے
 

arifkarim

معطل
جو قضیہ زیر بحث ہے اس پر بات کرے اسلامی شدت پسند الگ موضوع ہے اور اسلامی شدت پسند کبهی اتنے ذکی نہیں رہے کہ کوئی سازش کریں البتہ سازشوں کی تکمیل کا حصہ ہمیشہ بنے
تاریخ پر نظر دوڑائیں۔ ریاست اسرائیل کی مخالفت کرنے میں یہی اسلامی شدت پسند گروہ پیش پیش رہا ہے۔ خواہ وہ اسلامی انقلابی ایران ہو، اخوان المسلمین ہو، داعش، حماس، حزب اللہ ہو، یہ سب ہر پل اسرائیل کے وجود کے ہی مخالف رہیں گے۔ جبکہ اسکے برعکس ترکی، اذربائجان، اردن اور مصر کب کا نہ صرف اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں بلکہ اسکے ساتھ تمام تر سفارتی، معاشی، اقتصادی تعلقات قائم کئے ہوئے ہیں۔ کیا یہ ممالک مسلمان نہیں؟

اگر اتنا پیچھے ہی جانا ہے تاریخ میں تو یہ لیجیے سب سے پہلے فلسطین آباد کرنے والے يبوسيون تهے جو خالص عرب تهے اور انہوں نے فلسطین کا نام یبوس رکها اس کے بعد کنعان عرب ان کے شریک ہوئے جنہوں نے أورشليم نام دیا اور یہ بنی اسرائیل کے فلسطین آنے سے بہت صدیوں پہلے کی بات ہے
یبوس کہاں سے عرب ہو گئے؟ یبوسیوں کا ذکر تو از خود یہودیوں کی مذہبی کتب سے لیا گیا ہے جسکے مطابق یہ کنعان کے رہنے والے تھے اور حضرت داؤد علیہ السلام کی فتح سے پہلے یہاں آباد تھے:
http://ur.wikipedia.org/wiki/یبوسی
جہاں تک یروشلم کا سوال ہے تو اسکا یہ نام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے ہے۔ اسوقت یہ شہر "شلام" یا "شلم" کے نام سے مشہور تھا:
http://www.generationword.com/jerusalem101/16-salem-jebus.html

پہلے تو آپ کو یہود اور صیہون میں تفریق پتہ نہیں. .. پروٹوکول پر اس سے کہیں زیادہ دلائل ہیں جتنا آپ تصور کر سکتے ہیں مگر جب آپ کتاب پڑھے بنا ہی موضوع پر چھلانگ دئیے تو اب حقیقت کی تلاش کیسے ہوگی ؟؟؟
بہت حریت دکھانے کا شوق اچها ہے مگر حقیقت کا گلا گھونٹ کر نہیں. ....
اور قضیہ فلسطین پر جو بهی بات کرے وہ متشدد نہیں ہوتا پیارے. ... تمہارا تو کیا شکوہ ..ع دنیا ہی پرائی ہے

لہو لہان تها میں اور عدل کی میزان
جهکی تهی جانب قاتل کہ راج اس کا تها
مجھے نہ صرف یہودی اور صیہونی میں فرق معلوم ہے بلکہ میں یہ پروٹوکلز انگریزی و اردو دونوں زبانوں میں پڑھ چکا ہوں۔ ان پروٹوکولز میں کوئی صداقت نہیں ہے کیونکہ تاریخ دانوں نے اسکی جعل سازی 1921 ہی میں ہی ثابت کر دی تھی۔ تفصیل کیلئے دیکھیں:
http://rationalwiki.org/wiki/The_Protocols_of_the_Learned_Elders_of_Zion#Hoax

تورات کی نصوص خود واضح ہے کہ فلسطین کی تاریخ عرب سے شروع .. اور ابراہیم کے بیٹوں میں عرب اور بنی اسرائیل دونوں شامل ....
ویسے آج کل یہاں اس محفل پر کچھ لوگوں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ ہر موضوع پر لکھنا ہے چاہے پلے پڑے یا نا پڑے ... ٹهیک ہے لکهیں مگر پہلے پڑھ لیں. .اس کتاب کو دکھا بهی نہیں اور اس کا رد .... لازم ہے شعور. .
اور ہر بات کو اسلامی شدت پسندی پر لانا ضروری نہیں ہم امن و محبت کے شیدائی ہیں. صوفیا کے دلدادہ ہیں بس حقیقت ہم کو عزیز ہے....
تورات میں عربوں کا تو نہیں البتہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا ذکر ضرور موجود ہے۔ شمالی عربوں کا دعویٰ ہے کہ وہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی نسل سے ہیں:
http://ur.wikipedia.org/wiki/عدنان

مجھے پتہ ہے آپ مندرجہ بالا تمام باتوں کا جواب دیں گے مگر جواب سے پہلے تاریخ کی ورق گردانی کر لیجیے گا جواب کا وزن دیکھ لیجیے گا دقت ہو تو اہلاً. ... ورنہ کب تک کوئی الجهی ہوئی زلفوں کو سنوارے
اوپر دیکھ لیں۔ آپکے تمام سوالوں کے جوابات حوالوں کیساتھ موجود ہیں۔
 
کنعانی مریخ سے تو آئے نہیں تهے انہوں نے شبہ جزیرہ عربیہ سے ہجرت کر کے فلسطین بسایا تھا تعجب ہے جو لنک آپ مجھے دے رہے ہیں وہ یہی کہہ رہی ہے پهر یہودیوں انہیں نکال باہر کیا ......"شمالی عربوں کا دعویٰ ہے " مطلب اب آپ عرب کے اسماعیلی نسل سے ہونے کو بهی جهٹلا دیں گے. ..اور مسلمانوں نے فلسطین یہودیوں سے نہیں چهینا تها بلکہ اس وقت اور اس سے چار صدیوں پہلے اس میں ایک بهی یہودی نہیں تھا کیونکہ رومان نے انکو نکال دیا تها اور تورات عہد قدیم کے اسفار میں ہے کہ ابراہیم کے عراق سے ہجرت کرنے سے پہلے عرب کنعانی یہاں آباد تهے ... موسی علیہ السلام کی وفات تک یہود داخل قدس نہیں ہوئے ان کے بعد یوشع داخل ہوئے اور زمین قبیلوں کو تقسیم کردی اس کے کئےسال بعد انہوں نے حکومت قائم کی جو شوول داود سلیمان کے 100 سالہ دورانیہ پر مشتمل تهی پهر بابولیوں نے حملہ کر کے ان کو نکالا اگر طول اقامت کا اعتبار یہود کرتے ہیں تو انہیں مصر ک مطالبہ کرنا چاہیے جہاں وہ 450 سال رہے نا کہ فلسطین جہاں وہ ایک مملکت کے طور پر اتنا ہی رہے جتنا عرصہ ہم پر انگریز مسلط رہے.. فلسطين کبهی کسی تشدد پسند تنظیم کا جهگڑا نہیں رہا وہ ان لوگوں کا جهگڑا ہے جو مارے گئے مارے جا رہے ہیں غزہ میں کیا ہوا وہ آپ سےدور نہیں. ..اور جہاں تک سفارتی تعلقات کی بات ہے تو یاد رہے مصر کے رئیس نے جب اس کو مانا تها تب پورے عالم عرب میں صرف وہ اکیلا تها جس نے خون روکنے کے لیے یہ قدم اٹھایا تھا مگر جن کی تاریخ مکر و فریب اور انبیائے کرام کے قتل سے بهری ہو انکا کیا اعتبار ....
 
رہی بات پروٹوکول کی تو 1921 ہی میں اسے دوبار ولایات متحدہ کے ڈاکٹر Zander نے اسے حقیقت ثابت کر دیا اور اس کے بعد کئی محققین نے. ...
اور تاریخ کی ورق گردانی سے میری مراد ویکی پیڈیا نہیں تهی. ..
 

arifkarim

معطل
کنعانی مریخ سے تو آئے نہیں تهے انہوں نے شبہ جزیرہ عربیہ سے ہجرت کر کے فلسطین بسایا تھا تعجب ہے جو لنک آپ مجھے دے رہے ہیں وہ یہی کہہ رہی ہے پهر یہودیوں انہیں نکال باہر کیا
تو کیا یہودی مریخ سے آئے تھے؟ انکا جنم بھی تو اسی زمین اسرائیل-فلسطین میں ہوا تھا اور حضرت یوسف علیہ السلام کے دور میں انہوں نے مصر ہجرت کی تھی جہاں ایک لمبا عرصہ فرعون کے ظلم و ستم گزارنے کے بعد "واپس" اپنے آبائی وطن ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ یہودیوں نے کنعان کے باسیوں کو باہر نہیں نکالا بلکہ قدیم مصریوں نے اپنے رویوں سے یہودیوں کو مصر میں سے نکلنے پر مجبور کیا تھا۔

"شمالی عربوں کا دعویٰ ہے " مطلب اب آپ عرب کے اسماعیلی نسل سے ہونے کو بهی جهٹلا دیں گے
شمالی عربوں کا تعلق حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ہے۔ اسمیں جھٹلانے والی بات کہاں سے آ گئی؟ میں نے یہاں شمالی عربوں کا ذکر کیا ہے، تمام عربوں کا نہیں کیونکہ تمام عرب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے نہیں ہیں۔ جنوبی عربی اپنے آپکو قحطانی کہتے تھے جنکا عدنانی عربوں یعنی شمالی عربوں سے کوئی تعلق نہیں۔
http://www.imninalu.net/myths-Arabs.htm

اور مسلمانوں نے فلسطین یہودیوں سے نہیں چهینا تها بلکہ اس وقت اور اس سے چار صدیوں پہلے اس میں ایک بهی یہودی نہیں تھا
یہودیوں کا داخلہ صرف یروشلم میں ممنوع تھا نہ کہ پورے فلسطین میں۔ مجھے شبہ ہے کہ آپ مسلسل فلسطین کو صرف یروشلم تک محدود کئے ہوئے ہیں۔ 614 عیسوی میں یہودیوں نے فارسیوں کیساتھ ملکر یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ گو کہ یہ فتح زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکی اور جلد ہی رومیوں نے واپس اسے حاصل کر لیا یہاں تک کہ مسلمان عربوں نے بالآخر 637 عیسوی اسے رومیوں سے آزاد کروا دیا۔ اس جنگ کی سربراہی ایک فلسطینی یہودی کر رہا تھا جسکا نام تاریخ میں بنیامین بن طبریہ لکھا گیا ہے:
http://www.encyclopedia.com/article-1G2-2587502507/benjamin-tiberias.html

کیونکہ رومان نے انکو نکال دیا تها اور تورات عہد قدیم کے اسفار میں ہے کہ ابراہیم کے عراق سے ہجرت کرنے سے پہلے عرب کنعانی یہاں آباد تهے
اسرائیل-فلسطین واپسی کے بعد بابل (موجودہ عراق) کے بادشاہ بخت نصر نے یہاں چڑھائی کر کے یہودیوں کو دربدر کر دیا۔ کوئی 70 سال بابل کی اسیری کاٹنے کے بعد بالآخر فارس کے کوروش اعظم نے انہیں آزاد کروایا تاکہ وہ اپنے آبائی وطن اسرائیل-فلسطین واپس جا سکیں:
http://global.britannica.com/EBchecked/topic/47693/Babylonian-Exile

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے یہاں ہجرت سے قبل مختلف کنعانی قبائل آباد تھے مگر وہ عربی کہاں سے ہوگئے؟ عربی زبان تو بہت بعد میں وجود میں آئی ہے۔

موسی علیہ السلام کی وفات تک یہود داخل قدس نہیں ہوئے ان کے بعد یوشع داخل ہوئے اور زمین قبیلوں کو تقسیم کردی اس کے کئےسال بعد انہوں نے حکومت قائم کی جو شوول داود سلیمان کے 100 سالہ دورانیہ پر مشتمل تهی پهر بابولیوں نے حملہ کر کے ان کو نکالا اگر طول اقامت کا اعتبار یہود کرتے ہیں تو انہیں مصر ک مطالبہ کرنا چاہیے جہاں وہ 450 سال رہے نا کہ فلسطین جہاں وہ ایک مملکت کے طور پر اتنا ہی رہے جتنا عرصہ ہم پر انگریز مسلط رہے
بے شک۔ یہودیوں کو دنیا کے ہر اس مقام کا مطالبہ کرنا چاہئے جہاں انہوں نے مختلف وقتوں میں ہجرت کی لیکن چونکہ انکی آبائی تاریخ، مذہب وغیرہ فلسطین-اسرائیل سے منسلک ہے یوں وہ سوائے اس مقام کے کہیں اور کا مطالبہ نہیں کرتے۔ یہودیوں کے اس زمین کیساتھ تاریخی روابط کیلئے یہ تفصیلی ٹائم لائن دیکھیں:
http://contenderministries.org/middleeast/timeline.php

فلسطين کبهی کسی تشدد پسند تنظیم کا جهگڑا نہیں رہا وہ ان لوگوں کا جهگڑا ہے جو مارے گئے مارے جا رہے ہیں غزہ میں کیا ہوا وہ آپ سےدور نہیں
کیا واقعی؟ 1993 میں فلسطینیوں نے نارویجن، امریکیوں اور دیگر عالمی اقوام کے توسط سے ایک معاہدہ پر دستخط کئے کہ وہ اپنے آزاد فلسطین کے حصول کیلئے کسی بھی قسم کی دہشت گردی کا سہارا نہیں لے گیں۔ یہ معاہدہ اسرائیلی پارلیمینٹ نے بھی قبول کر لیا اس شرط پہ کہ فلسطینی قیادت اسرائیل کے وجود کو تسلیم کریں۔
جب فلسطینی رہنما یاسرعرفات نے اس بات کی یادہانی کروا دی تب اسرائیلی پارلیمنٹ نے اس معاہدہ کی منظوری دی کہ فلسطینیوں کے مقبوضہ علاقے 'فلسطینی قومی عملداری' نامی عبوری حکومت کے حوالے کر دیے جائیں گے جسکے بعد اسے مکمل خودمختاری فراہم کر دی جائے۔
اس معاہدے کے تحت مغربی کنارے سے جزوی طور پر غزہ سے مکمل طور پر اسرائیلی افواج کا انخلاء مکمل ہو چکا ہے۔ لیکن آج تک فلسطینیوں نے اسرائیلیوں کیخلاف دہشت گردی بند نہیں کی اور نہی ریاست اسرائیل کو تسلیم کیا۔ جب حماس کے دہشت گرد اپنے راکٹ اسرائیلی شہروں پر داغنا بند نہیں کریں گے تو اسرائیلی افواج کیا چپ چاپ تماشہ دیکھتے رہیں گے؟ کیا وہ اپنے دفاع میں کچھ بھی نہی کریں گے؟ غزہ میں جو کچھ بھی ہوا، اسکی شروعات ہمیشہ حماس دہشتگردوں کی جانب سے ہوئیں۔ اب جبکہ وہاں سے کوئی راکٹ نہیں چل رہا تو غزہ میں بھی امن ہے۔ جونہی حماس دہشتگرد اپنی کاروائی شروع کریں گے ویسے ہی غزہ میں اسرائیلی بمباری شروع کر دیں گے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Palestinian_rocket_attacks_on_Israel

اور جہاں تک سفارتی تعلقات کی بات ہے تو یاد رہے مصر کے رئیس نے جب اس کو مانا تها تب پورے عالم عرب میں صرف وہ اکیلا تها جس نے خون روکنے کے لیے یہ قدم اٹھایا تھا
1994 میں یاسر عرفات نے اسرائیل کے وجود کوتسلیم کیا۔ اسی سال اردن نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ ترکی اور اذربائیجان تو ایک عرصہ دراز سے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کئے ہوئے ہیں اور سفارتی تعلقات قائم رکھتے ہیں۔ باقی رہ گیا غیر عرب پاکستان، انڈونیشیا، ملائیشیا، ایران تو وہ بھی فلسطینی تنازعہ حل ہونے کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے۔
http://www.medea.be/en/countries/jordan/israel-jordan-peace-treaty/

مگر جن کی تاریخ مکر و فریب اور انبیائے کرام کے قتل سے بهری ہو انکا کیا اعتبار
بغض؟ یہود قوم سے واضح مذہبی بغض رکھتے ہوئے آپ کیا خاک تاریخ کا مطالعہ کریں گے؟

رہی بات پروٹوکول کی تو 1921 ہی میں اسے دوبار ولایات متحدہ کے ڈاکٹر Zander نے اسے حقیقت ثابت کر دیا اور اس کے بعد کئی محققین نے. ...
اور تاریخ کی ورق گردانی سے میری مراد ویکی پیڈیا نہیں تهی. ..
Zander نے 1933 میں ایک یہود مخالف کیس میں ان پروٹوکولز کی صداقت سے متعلق گواہیاں دی تھیں لیکن دو سالوں پر محیط اس کیس میں ان پروٹوکولز کی صداقت سے متعلق کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ بالآخر جج نے ان پروٹوکولز کو جعل سازی کا پلندہ قرار دیتے ہوئے کیس برطرف کردیا اور ان یہود مخالفین کو سزا سنا دی جو اس جعلی پروٹوکولز کی بنیاد پر نفرت اور اشتعال انگیزی پھیلا رہے تھے:
http://memim.com/berne-trial.html

زیک
 
آخری تدوین:
بے شک۔ یہودیوں کو دنیا کے ہر اس مقام کا مطالبہ کرنا چاہئے جہاں انہوں نے مختلف وقتوں میں ہجرت کی

اب حد ہے آپ ان کے یہود کے اس نظریے پر ہو کہ نیل سےفرات تک سب یہودیوں کا ...آپ کو اسرائیل ہجرت کر کے ان کے مقاصد میں تکمیل کے لیے شریک ہوجانا چاہئے ...

فلسطين دہشت گردی کر رہا ہے ؟؟؟
ہماری زمینیں آج تک یہ نسل پیدا کر رہی ہیں. افسوس ہے
 
کنعانی عرب نہیں تهے ؟؟ یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ زبان کے وجود کے بعد قومیں بنتی ہیں پہلے قوم ہوتی ہے اس کے بعد زبان ...
بہر صورت اصل باشندے یہود ہے ہی نہیں.
جتنا محبت اور چاه سے یہود کو پڑھتے ہو اس کی جگہ صرف حقیقت کی نگاہ سے عرب کی تاریخ پڑھ لیں اور ویکی پیڈیا تو خود ہفتہ ہفتہ تبدیل کرتا رہتا ہے اور معذرت بهی کہ یہ سب یقینی نہیں ہے کہیں کچھ دنوں بیٹھ کر کسی غیر جانبدار مفکر کی کتاب پڑھ لو تو ممکن ہے کہ یہود کا رتبہ آپ کی نظر میں ملائکہ کے رتبہ سے کم ہو .
 
بغض نہیں یہی تاریخ ہے اسپن وغیرہ نے جب یہودیوں کو نکال تو ہم ہی ان کو پناہ دی اور کسی نے نہیں مگر بدلہ میں انہوں نے دهوکہ دہی کے سوا کیا دیا...
آپ جانتے ہو ایک یہودی اسرائیلی سپاہی نے خود کشی کر لی تھی کیونکہ اس کے پاس انسانیت باقی تهی میرے نزدیک وہ ان لوگوں سے کئی گنا زیادہ عزت کے قابل ہے جو نہ اپنی زمینوں کے ہوتے ہیں نہ اپنے بهائیوں کے. .ان کو صرف شاذ ہونے کا شوق ہوتا ہے. .
 

arifkarim

معطل
اب حد ہے آپ ان کے یہود کے اس نظریے پر ہو کہ نیل سےفرات تک سب یہودیوں کا ...آپ کو اسرائیل ہجرت کر کے ان کے مقاصد میں تکمیل کے لیے شریک ہوجانا چاہئے ...
نیل سے فرات تک ایک اور سازشی تھیوری ہے جو یاسر عرفات جیسے فلسطینی لیڈران کی پیداوار تھی۔ انکے خیال میں اسرائیلی جھنڈے میں جو دو نیلی دھاریاں ہیں وہ ان دو دریاؤں کی نشانی ہیں۔ ماشاءاللہ۔ کیسی فراصت ملی ہے انہیں۔ کیا انکو اتنا نہیں معلوم کہ یہ جھنڈا ان دو دریاؤں کا نشان نہیں بلکہ یہودی عبادت گاہوں میں استعمال ہونے والے دھاری دال چادر کیلئے ہے:
Ytl009-3.jpg

نیز نیل اور فرات کے درمیان مصر اور اردن بھی آتا ہے جنکے ساتھ اسرائیل کئی دہائیاں قبل امن کے معاہدوں پر دستخط کر چکا ہے۔ ایسے میں ان پر قبضہ کیسے ممکن ہے؟ ذرا ہمیں بھی بتائیں۔

فلسطين دہشت گردی کر رہا ہے ؟؟؟
تو اور کیا قیام امن کیلئے کوشاں ہے؟ آئے دن اسرائیلیوں شہریوں پر حملے، انکے فوجیوں پر چھپ کر وار وغیرہ کونسے اسلامی جہاد کا حصہ ہے؟ کیا یہ خودکش بچے آپکو جہادی لگتے ہیں؟
childrenterroristspalestine.jpg

child-bomb-belt.jpg



ہماری زمینیں آج تک یہ نسل پیدا کر رہی ہیں. افسوس ہے
کونسی نسل؟ خودکش جہادیوں والی نسل؟

کنعانی عرب نہیں تهے ؟؟ یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ زبان کے وجود کے بعد قومیں بنتی ہیں پہلے قوم ہوتی ہے اس کے بعد زبان ...
کیا واقعی؟ پھر تو آپکے اباؤاجداد جو کہ ہندوستانی و آریہ النسل تھے کے سبب آپکو ہندی بولنی، لکھنی چاہئے۔ آپ کا مسلمان ہونا، اردو بولنا یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ عربی النسل نہیں ہیں۔
زبان اور قومیت کا آپس میں گہرا تعلق ہے، یہ شاید آپنے ابھی تک سیکھا ہی نہیں۔ اگر یہ کوئی بڑی بات نہ ہوتی تو بنگال آج بھی پاکستان کا حصہ ہوتا۔

بہر صورت اصل باشندے یہود ہے ہی نہیں.
یہود اصل نہ بھی ہوں تب بھی انکے فلسطین-اسرائیل سے تاریخی تعلق کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ اسلامی شدت پسند بے شک چوٹی کا زور لگا لیں۔ نتیجہ وہی صفر نکلے گا۔

جتنا محبت اور چاه سے یہود کو پڑھتے ہو اس کی جگہ صرف حقیقت کی نگاہ سے عرب کی تاریخ پڑھ لیں اور ویکی پیڈیا تو خود ہفتہ ہفتہ تبدیل کرتا رہتا ہے اور معذرت بهی کہ یہ سب یقینی نہیں ہے کہیں کچھ دنوں بیٹھ کر کسی غیر جانبدار مفکر کی کتاب پڑھ لو تو ممکن ہے کہ یہود کا رتبہ آپ کی نظر میں ملائکہ کے رتبہ سے کم ہو .
وکی پیڈیا کے علاوہ بھی نیٹ پر اور بہت سے روابط دستیاب ہیں۔ اوپر پوسٹ میں میں نے صرف ایک وکی کا لنک دیا ہے۔ دوسرے لنکس دیگر انسائیکلوپیڈیاز کے ہیں۔ جنکو پڑھنا شاید آپ گوارہ نہیں کرتے کہ اس سے آپکے یہود مخالف تعصبات کی نفی ہو جائے گی۔

بغض نہیں یہی تاریخ ہے اسپن وغیرہ نے جب یہودیوں کو نکال تو ہم ہی ان کو پناہ دی اور کسی نے نہیں مگر بدلہ میں انہوں نے دهوکہ دہی کے سوا کیا دیا...
ہم؟ ہندوستانیوں نے کب ہسپانوی یہودیوں کو پناہ دی تھی؟ ان یہودیوں کو دیگر مسلمان ہسپانیوں کی طرح پناہ سلطان سليمان اول نے دی تھی تاکہ وہ اس خطے یعنی سلطنت عثمانیہ میں کلیدی کردار ادا کر سکیں۔ جو کہ انہوں نے خلاف عثمانیہ کے زوال تک ادا کیا۔ ہسپانوی یہودیوں کی خلافت عثمانیہ میں ہجرت کے بعد 400 سال تک یہ سلطنت قائم رہی اور پنپتی رہی۔ یہ ان یہود مخالفین کے چہریوں پر کس کے چپیڑ کے مترادف ہے جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ خلافت عثمانیہ کا زوال یہودیوں کی وجہ سے ہوا۔

آپ جانتے ہو ایک یہودی اسرائیلی سپاہی نے خود کشی کر لی تھی کیونکہ اس کے پاس انسانیت باقی تهی میرے نزدیک وہ ان لوگوں سے کئی گنا زیادہ عزت کے قابل ہے جو نہ اپنی زمینوں کے ہوتے ہیں نہ اپنے بهائیوں کے. .ان کو صرف شاذ ہونے کا شوق ہوتا ہے. .
ایسے تو کئی مثالوں موجود ہیں ان اسلامی دہشت گردوں کی جنہوں نے اس نام نہاد جہاد سے توبہ کر کے ایک پر امن زندگی کا آغاذ کیا۔ مصعب حسن يوسف حماس کے ایک بڑے لیڈر حسن یوسف کا بیٹا ہے جس نے کئی سال اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کیساتھ کیا اور حماس کی دہشتگردانہ کاروائیوں سے متعلق بروقت مطلع کر کے کئی سو عام شہریوں کی جان بچائی۔ یہ سب اسنے ایک کتاب اور دستاویزی فلم کی شکل میں شائع کر دیا ہے۔ جو یہودیوں سے بغض نہیں رکھتا وہ ضرور اسکا مطالعہ کرے اور جان لے کہ فلسطینی کس طرح اسرائیل سے جہاد کے نام پردہشت گردی کر رہے ہیں اور اسکا شکاریہودی ہی نہیں خود فلسطینی ہو رہ ہیں:
http://sonofhamas.com/book/
 
شر البلية ما يضحك !!
یہود اپنے مکاتب میں بچوں کو پڑهاتے ہیں نیل سے فرات تک سب ہمارا ہے ....
:
اور پناہ ہم نے مطلب مسلمانوں نے دی تهی. ..
ہندوستانیوں نے نہیں. .
پچھلے سالوں میں اسرائیل کو کو حدود کے متعلق پوچھا گیا تو کہا کہ جہاں اسرائیلی فوجی اپنا پیر رکھ دے وہ ہماری حد ...
اچها آریہ ہندی بولتے تھے ؟
فوٹوز شئیر کرنا کا اتنا شوق ہے تو وہ فوٹوز اور ویڈیو بهی دکهائیے جس میں آپ کے بهائی یہود نہتے شہریوں کو مار رہے ہیں. یہودی لشکری نے خود کشی کی پتہ ہے کیوں ؟؟ کیونکہ کہ ایک حاملہ عورت کو انہوں نے حد سے باہر نہیں جانے دیا اوروہ بے چاری درد کے مارے وہیں مر گئی وہ لشکری جرم میں خود کشی کا مرتکب ہوا ایک اور یہودی جرنلسٹ امریکہ سے فلسطینی عوام کے لئے آئی اور اسرائیل کے ہاتھوں ماری گئی وہ آپ سے زیادہ انسانیت کے قریب تهے. ..
 
سلطنت عثمانیہ میں ہیودیوں نے عورتیں بادشاہوں کی خواب گاہوں میں بھیج کر مکر کیا تھا مگر آپ کا دل اس گدھی پر آ ہی گیا ہے تو کیا کر سکتے ہیں، میٹھا میٹھا کھاو کڑوا کڑوا تھو تھو !!!!
اول امر آپ کا کویئ منہج نہیں بحث و کلام کا، اس عشق یہود سے فارغ ہوجائیں تب بات کیجئیے گا ۔۔۔۔
اور جس کتاب کا ردونقد کرنا ہو اسے پڑھتے بھی ہیں یہ شاید آپ کے لیے نیئ بات ہو۔۔
محفلین کا اور میرا قیمتی وقت ضائع نہ کریں یہ کتاب پڑھ لیں اور اپنے قبیلے کے لوگوں کو بھی پڑھادیں جن کو یہ سب مضحکہ خیز لگتا ہے پھر رد کیجئے گا
 

arifkarim

معطل
یہود اپنے مکاتب میں بچوں کو پڑهاتے ہیں نیل سے فرات تک سب ہمارا ہے ....
یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ پڑھانے کو تو آپکے دہشت گرد جہادی حماس بھائی یہ بھی سیکھاتے ہیں کہ ہر یہودی کو مارنا ہر مسلمان پر واجب ہے:

اور پناہ ہم نے مطلب مسلمانوں نے دی تهی. ..
یقیناً دی تھی اور پھر اسی پناہ گزینی کے دوران انکا بہیمانہ قتل عام بھی کیا تھا۔1921، 1929، 1936، 1947 میں فلسطینی یہودیوں کا قتل عام کیسے کیا گیا، اسکی چند جھلکیاں:
http://www.middleeastpiece.com/palestinianviolence.html

پچھلے سالوں میں اسرائیل کو کو حدود کے متعلق پوچھا گیا تو کہا کہ جہاں اسرائیلی فوجی اپنا پیر رکھ دے وہ ہماری حد ...
اسرائیل افواج ماضی میں لبنان اور مصر کے صحراء سینا میں اپنے پرچم گاڑ چکی ہے پر آج وہاں اسرائیل کا کوئی نام و نشان نہیں۔ کتنے جھوٹ اور بولیں گے؟

فوٹوز شئیر کرنا کا اتنا شوق ہے تو وہ فوٹوز اور ویڈیو بهی دکهائیے جس میں آپ کے بهائی یہود نہتے شہریوں کو مار رہے ہیں.
لیجئے۔ آپ کے دہشت گرد جہادی بھائی حماس اپنے ہی لوگوں کی مردہ لاشوں کو سڑکوں پر کھینچتے ہوئے:

یہودی لشکری نے خود کشی کی پتہ ہے کیوں ؟؟ کیونکہ کہ ایک حاملہ عورت کو انہوں نے حد سے باہر نہیں جانے دیا اوروہ بے چاری درد کے مارے وہیں مر گئی وہ لشکری جرم میں خود کشی کا مرتکب ہوا ایک اور یہودی جرنلسٹ امریکہ سے فلسطینی عوام کے لئے آئی اور اسرائیل کے ہاتھوں ماری گئی وہ آپ سے زیادہ انسانیت کے قریب تهے.
بے شک۔ انسانیت پسندی اگر کسی نے سیکھنی ہے تو حماس کے جہادیوں سے سیکھے جو اپنے ہی لوگوں پر تشدد کر کے اپنے جہادی فرائض پورے کرتے نظر آتے ہیں:

سلطنت عثمانیہ میں ہیودیوں نے عورتیں بادشاہوں کی خواب گاہوں میں بھیج کر مکر کیا تھا مگر آپ کا دل اس گدھی پر آ ہی گیا ہے تو کیا کر سکتے ہیں، میٹھا میٹھا کھاو کڑوا کڑوا تھو تھو !!!!
اسکا کوئی حوالہ؟ آپکے نزدیک تو یقیناً کمال اتا ترک بھی ایک یہودی ہی ہوگا۔

اول امر آپ کا کویئ منہج نہیں بحث و کلام کا، اس عشق یہود سے فارغ ہوجائیں تب بات کیجئیے گا ۔۔۔۔
یعنی اس بحث میں اترنے سے قبل مجھے جہادی یعنی یہود مخالف بننا پڑے گا؟

اور جس کتاب کا ردونقد کرنا ہو اسے پڑھتے بھی ہیں یہ شاید آپ کے لیے نیئ بات ہو۔۔
صیہونی پروٹولز میں اردو و انگریزی میں پڑھ چکا ہوں۔ ان میں کوئی صداقت نہیں۔

محفلین کا اور میرا قیمتی وقت ضائع نہ کریں یہ کتاب پڑھ لیں اور اپنے قبیلے کے لوگوں کو بھی پڑھادیں جن کو یہ سب مضحکہ خیز لگتا ہے پھر رد کیجئے گا
یعنی اب زیک بھائی بھی یہودی ہو گئے۔ ماشاءاللہ۔
 
میں بات کر رہا ہوں فلسطین کی آپ کی سوئی اٹکی ہوئی ہے حماس پر حماس صحیح ہو یا غلط اس کے ذریعہ آپ قضیہ فلسطین پر پردہ نہیں ڈال سکتے ہیں
خون تو خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
خیر مجھے لگا کوئی دانش وری یا سمجھ داری کی بات ہوگی مگر غلطی ہوئی . پہلے ہی عمل کر لینا چاہیے تھا
إذا خاطبهم الجاهلون قالوا سلاما...
 

arifkarim

معطل
میں بات کر رہا ہوں فلسطین کی آپ کی سوئی اٹکی ہوئی ہے حماس پر حماس صحیح ہو یا غلط اس کے ذریعہ آپ قضیہ فلسطین پر پردہ نہیں ڈال سکتے ہیں
تو کیا حماس فلسطین میں نہیں ہے؟ اسرائیل نے جو فلسطینیوں کیساتھ کیا ہے، وہ حد درجہ کی زیادتی ہے، پر جو حماس جہاد و آزادی کی آڑ میں اپنے ہی لوگوں کیساتھ کر رہا ہے وہ کیا ہے؟ اسرائیل و یہودیوں و صیہونیوں کو ملامت تب کیجئے گا جب اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کا صفایا ہو جائے۔ نہیں تو داعش، حزب اللہ، طالبان، حماس جیسے نام نہاد اسلامی لشکر جہاد فی سبیل اللہ کے نام پر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا خون کرتے رہیں گے!

خون تو خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
جی بالکل۔ فلسطینی بھائیوں کا خون غیروں نے جو بہایا سو بہایا۔ اپنوں نے جو بہایا اسکا کیا؟ حال ہی میں داعش نے شام میں موجود ایک فلسطینی پناہ گزین کیمپ پر دھاوا بول کر نہتے فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا:
http://www.independent.co.uk/news/w...rian-capital-damascus-continues-10158061.html

خیر مجھے لگا کوئی دانش وری یا سمجھ داری کی بات ہوگی مگر غلطی ہوئی . پہلے ہی عمل کر لینا چاہیے تھا
خالی یہود و ہنود کی چیخ و پکار سے کچھ بھی نہیں ہونے والا۔ اسرائیل نے 1993 میں فلسطینیوں کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست کی پیشکش کی تھی پر افسوس کہ ان جہادی اسلامی لشکروں نے اسکو تسلیم نہ کیا اور آج کا فلسطین اسوقت سے بھی بدتر حالت میں ہے جب اسرائیل نے اسے تسلیم کیا تھا:
Bill_Clinton,_Yitzhak_Rabin,_Yasser_Arafat_at_the_White_House_1993-09-13.jpg
 
Top