مہوش علی
لائبریرین
بی بی سی کے اس مضمون کو پڑھ کر میں خاصی محظوظ ہوئی
’سازشی نظریات‘
لنک: http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2009/11/091111_shahzeb_jew_psychology_aw.shtml
شاہزیب جیلانی
بی بی سی، یروشلم
اسرائیل میں کچھ دن گزارنے کے بعد یہاں کی اور کوئی بات سمجھ آئی ہو نہ ہو ایک بات واضع ہے کہ ’سازشی نظریات‘ رکھنے میں شاید یہاں کے لوگ سب سے آگے ہیں۔ مسلمانوں میں اگر یہ رجحان ہے کہ اپنے ہر مسئلے کا ذمہ دار امریکہ اور اسرائیل کو قرار دے کر جان چھڑا لیتے ہیں تو یہاں کے یہودی حلقے بھی کچھ کم نہیں۔
یروشلم میں مختلف مکاتبِ فکر کے جن یہودیوں سے ملاقاتیں ہوئیں اُن کی باتوں سے صاف لگا کہ اسرائیلیوں کو تقریباً ساری دنیا سے ہی شکایتیں ہیں۔ وہ مسٹر اوباما پر تنقید کرتے ہیں کہ انہوں نے فلسطینی علاقوں میں یہودی تعمیرات کے معاملے کو اتنا بڑا مسئلہ کیوں بنا لیا۔ برطانیہ اور یورپی یونین حزب اللہ اور حماس کی طرف ذرا سی بھی لچک دکھائیں تو اسرائیلی اس پر سیخ پا۔ غزہ میں لڑائی سے متعلق گولڈ سٹون رپورٹ ہو یا اقوامِ متحدہ کی مذمتی قراردادیں۔ اسرائیل کو سب سے شکایت ہے کہ وہ اُس کے دفاع کے حق کو کیوں نہیں مانتے۔
یہودیوں کی شکایات
ہٹلر نے انہیں صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی۔ پڑوسی عرب ملکوں نے بار بار ان پر جنگیں مسلط کیں اور اب اسرائیلیوں کی نظر میں محمود احمدی نژاد اپنے خفیہ ایٹمی پروگرام کے ذریعے انہیں نیست و نابود کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
بی بی سی، سی این این اور الج۔زیرہ جیسے عالمی نشریاتی ادارے بھی اسرائیلوں کی خاص تنقید کا مسلسل نشانہ رہتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اسرائیلی نفسیات میں یہ بات گہرائی میں رچی بسی ہوئی ہے کہ یہودی دنیا کے مظلوم ترین قوم رہے ہیں۔ ان کی نظر میں جتنی نفرتیں اور زیادتیاں یہودیوں نے سہی ہیں، شاید کسی نے نہیں ۔ ہٹلر نے انہیں صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی۔ پڑوسی عرب ملکوں نے بار بار ان پر جنگیں مسلط کیں اور اب اسرائیلیوں کی نظر میں محمود احمدی نژاد اپنے خفیہ ایٹمی پروگرام کے ذریعے انہیں نیست و نابود کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
یوں اسرائیلی خود کو ہر وقت حالتِ جنگ میں محسوس کرتے ہیں اور اپنی اس ’بقا کی لڑائی‘ میں وہ خطے میں اپنے ہر اقدام کو جائز سمجھتے ہیں۔ پھر چاہے وہ فلسطینوں کے اجتماعی قتلِ عام کے الزامات ہوں یا مقبوضہ علاقوں میں عربوں کے ساتھ روزانہ کا نسلی امتیاز۔
اسرائیل ویسے تو خود کو ایک جمہوری ملک کہتا ہے لیکن بطور ایک نیشل سکیورٹی اسٹیٹ کے یہاں حساس معاملات پر تنقید اور بحث مباحثے کی گنجائش خاصی محدود نظر آتی ہے۔
یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر پوری دنیا کو مشرقِ وسطیٰ میں فلسطینیوں کے ساتھ جو ظلم و زیادتیاں نظر آتیں ہیں اسرائیل انہیں دیکھنے سے قاصر ہے۔ طاقت کے اس کھیل میں جب تک اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ پر قیامِ امن کے لیےمسلسل اندرونی و بیرونی دباؤ نہیں ہوگا، اسے اپنا رویہ بدلنے کی کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں ہو گی۔
********************
رسول اللہ ص کی ایک حدیث ہے جس میں وہ مسلمانوں کو کہہ رہے ہیں کہ یہ بھی یہود و نصاری کے طور طریقوں کی پیروی کریں گے، یہاں تک کہ اگر وہ چھپکلی کے بل میں گھسے، تو یہ (مسلمان) بھی انکی طرح ان بلوں میں گھس جائیں گے۔
’سازشی نظریات‘
لنک: http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2009/11/091111_shahzeb_jew_psychology_aw.shtml
شاہزیب جیلانی
بی بی سی، یروشلم
اسرائیل میں کچھ دن گزارنے کے بعد یہاں کی اور کوئی بات سمجھ آئی ہو نہ ہو ایک بات واضع ہے کہ ’سازشی نظریات‘ رکھنے میں شاید یہاں کے لوگ سب سے آگے ہیں۔ مسلمانوں میں اگر یہ رجحان ہے کہ اپنے ہر مسئلے کا ذمہ دار امریکہ اور اسرائیل کو قرار دے کر جان چھڑا لیتے ہیں تو یہاں کے یہودی حلقے بھی کچھ کم نہیں۔
یروشلم میں مختلف مکاتبِ فکر کے جن یہودیوں سے ملاقاتیں ہوئیں اُن کی باتوں سے صاف لگا کہ اسرائیلیوں کو تقریباً ساری دنیا سے ہی شکایتیں ہیں۔ وہ مسٹر اوباما پر تنقید کرتے ہیں کہ انہوں نے فلسطینی علاقوں میں یہودی تعمیرات کے معاملے کو اتنا بڑا مسئلہ کیوں بنا لیا۔ برطانیہ اور یورپی یونین حزب اللہ اور حماس کی طرف ذرا سی بھی لچک دکھائیں تو اسرائیلی اس پر سیخ پا۔ غزہ میں لڑائی سے متعلق گولڈ سٹون رپورٹ ہو یا اقوامِ متحدہ کی مذمتی قراردادیں۔ اسرائیل کو سب سے شکایت ہے کہ وہ اُس کے دفاع کے حق کو کیوں نہیں مانتے۔
یہودیوں کی شکایات
ہٹلر نے انہیں صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی۔ پڑوسی عرب ملکوں نے بار بار ان پر جنگیں مسلط کیں اور اب اسرائیلیوں کی نظر میں محمود احمدی نژاد اپنے خفیہ ایٹمی پروگرام کے ذریعے انہیں نیست و نابود کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
بی بی سی، سی این این اور الج۔زیرہ جیسے عالمی نشریاتی ادارے بھی اسرائیلوں کی خاص تنقید کا مسلسل نشانہ رہتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اسرائیلی نفسیات میں یہ بات گہرائی میں رچی بسی ہوئی ہے کہ یہودی دنیا کے مظلوم ترین قوم رہے ہیں۔ ان کی نظر میں جتنی نفرتیں اور زیادتیاں یہودیوں نے سہی ہیں، شاید کسی نے نہیں ۔ ہٹلر نے انہیں صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی۔ پڑوسی عرب ملکوں نے بار بار ان پر جنگیں مسلط کیں اور اب اسرائیلیوں کی نظر میں محمود احمدی نژاد اپنے خفیہ ایٹمی پروگرام کے ذریعے انہیں نیست و نابود کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
یوں اسرائیلی خود کو ہر وقت حالتِ جنگ میں محسوس کرتے ہیں اور اپنی اس ’بقا کی لڑائی‘ میں وہ خطے میں اپنے ہر اقدام کو جائز سمجھتے ہیں۔ پھر چاہے وہ فلسطینوں کے اجتماعی قتلِ عام کے الزامات ہوں یا مقبوضہ علاقوں میں عربوں کے ساتھ روزانہ کا نسلی امتیاز۔
اسرائیل ویسے تو خود کو ایک جمہوری ملک کہتا ہے لیکن بطور ایک نیشل سکیورٹی اسٹیٹ کے یہاں حساس معاملات پر تنقید اور بحث مباحثے کی گنجائش خاصی محدود نظر آتی ہے۔
یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر پوری دنیا کو مشرقِ وسطیٰ میں فلسطینیوں کے ساتھ جو ظلم و زیادتیاں نظر آتیں ہیں اسرائیل انہیں دیکھنے سے قاصر ہے۔ طاقت کے اس کھیل میں جب تک اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ پر قیامِ امن کے لیےمسلسل اندرونی و بیرونی دباؤ نہیں ہوگا، اسے اپنا رویہ بدلنے کی کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں ہو گی۔
********************
رسول اللہ ص کی ایک حدیث ہے جس میں وہ مسلمانوں کو کہہ رہے ہیں کہ یہ بھی یہود و نصاری کے طور طریقوں کی پیروی کریں گے، یہاں تک کہ اگر وہ چھپکلی کے بل میں گھسے، تو یہ (مسلمان) بھی انکی طرح ان بلوں میں گھس جائیں گے۔