فرخ منظور
لائبریرین
ساغر اُٹھا کے زُہد کو رد ہم نے کر دیا
پھر زندگی کے جزر کو مد ہم نے کر دیا
وقت اپنا زرخرید تھا، ہنگام ِ مے کشی
لمحے کو طُول دے کے ابد ہم نے کر دیا
مے خانے سے چلی جو کبھی روٹھ کر بہار
آگے سُبو کو صورت ِ سد ہم نے کر دیا
دل پند ِ واعظاں سے ہُوا ہے اثر پذیر
اس کو خراب ِ صحبت ِ بد ہم نے کر دیا
دیکھا جو شب کو زاویۂ سینۂ بُتاں
اشکال ِ ہندسہ کو بھی رد ہم نے کر دیا
تسبیح سے سُبو کو بدل کر خدا کو آج
بالاتر از شمار و عدد ہم نے کردیا
رندی کا وہ کسی میں سلیقہ کہاں ہے اب
ضائع یہ ترکہ ابّ و جد ہم نے کر دیا
بادہ تھا یا عروس ِ فراست تھی جام میں
جو کہہ دیا بہک کے سند ہم نے کر دیا
زاہد کو خانقاہ میں ملتی کہاں شراب
لیکن کچھ اہتمام ِ رسد ہم نے کر دیا
تسخیر ِ شاہدان ِ گُل اندام کے لیے
ہر شب کو نذر ِ کاوش و کد ہم نے کر دیا
مصرعوں میں گیسوِوں کی فصاحت کا بھر کے رنگ
اپنی ہر اک غزل کو سند ہم نے کر دیا
تشبہہ دے کے قامت ِ جاناں کو سرو سے
اونچا ہر ایک سرو کا قد ہم نے کر دیا
پہنچے کسی کے عشق میں ماہ و نجوم تک
حد ِ سما کو شوق کی حد ہم نے کر دیا
پھر اُس عقیق ِ لب پہ سُبو رکھ دیا ظفرؔ
پھر شمس کو سُپرد ِ اسد ہم نے کر دیا
(سراج الدین ظفرؔ)
پھر زندگی کے جزر کو مد ہم نے کر دیا
وقت اپنا زرخرید تھا، ہنگام ِ مے کشی
لمحے کو طُول دے کے ابد ہم نے کر دیا
مے خانے سے چلی جو کبھی روٹھ کر بہار
آگے سُبو کو صورت ِ سد ہم نے کر دیا
دل پند ِ واعظاں سے ہُوا ہے اثر پذیر
اس کو خراب ِ صحبت ِ بد ہم نے کر دیا
دیکھا جو شب کو زاویۂ سینۂ بُتاں
اشکال ِ ہندسہ کو بھی رد ہم نے کر دیا
تسبیح سے سُبو کو بدل کر خدا کو آج
بالاتر از شمار و عدد ہم نے کردیا
رندی کا وہ کسی میں سلیقہ کہاں ہے اب
ضائع یہ ترکہ ابّ و جد ہم نے کر دیا
بادہ تھا یا عروس ِ فراست تھی جام میں
جو کہہ دیا بہک کے سند ہم نے کر دیا
زاہد کو خانقاہ میں ملتی کہاں شراب
لیکن کچھ اہتمام ِ رسد ہم نے کر دیا
تسخیر ِ شاہدان ِ گُل اندام کے لیے
ہر شب کو نذر ِ کاوش و کد ہم نے کر دیا
مصرعوں میں گیسوِوں کی فصاحت کا بھر کے رنگ
اپنی ہر اک غزل کو سند ہم نے کر دیا
تشبہہ دے کے قامت ِ جاناں کو سرو سے
اونچا ہر ایک سرو کا قد ہم نے کر دیا
پہنچے کسی کے عشق میں ماہ و نجوم تک
حد ِ سما کو شوق کی حد ہم نے کر دیا
پھر اُس عقیق ِ لب پہ سُبو رکھ دیا ظفرؔ
پھر شمس کو سُپرد ِ اسد ہم نے کر دیا
(سراج الدین ظفرؔ)