حسان خان
لائبریرین
(حافظ کی غزل 'ساقیا برخیز و درده جام را' کا منظوم ترجمہ)
ساقیا اٹھ بیٹھ بھر دے جام کو
ڈال چولھے میں غمِ ایام کو
بھر کے دے ساغر کہ آخر کب تلک
کبر و نخوت نفسِ نافرجام کو
ساغرِ مے دے کہ میں پھینکوں اتار
جسم سے اس دلقِ ازرق فام کو
ہو جو بدنامی ہے نزدِ عاقلاں
کیا کروں گا لے کے ننگ و نام کو
دودِ آہِ سینۃ سوزاں مِرے
پھونک دے اِن پختگانِ خام کو
محرمِ رازِ دلِ شیدا نہیں
خوب دیکھا پھر کے خاص و عام کو
لگ گیا دل ایک دل آرام سے
لے گیا یک مشت جو آرام کو
سرو پر ڈالیں چمن میں کیا نظر
دیکھ کر اُس سروِ سیم اندام کو
بھر گیا دنیا سے دل گو صبر کر
کھا خوشی سے غم ہی، کاٹ ایام کو
مشکلیں حافظ جو ہوں برداشت کر
سہل ہوں گی مشکلیں انجام کو
(مولوی محمد احتشام الدین حقی)