ساقی ۔۔۔ عارف سیمابی

الف نظامی

لائبریرین
اگرچہ دہر میں مسلم ذلیل و خوار ہے ساقی
مگر پھر بھی شرابِ ناز سے سرشار ہے ساقی

ابھی تک ہچکچاتا ہے درِ باطل پہ جھکنے سے
ابھی تک اس میں حق کی قوتِ اظہار ہے ساقی

ابھی مستِ مئے ایماں ، ابھی محوِ عبادت ہے
ابھی تک اس کے لب ہر وردِ استغفار ہے ساقی

ابھی تک اس کے دل میں کچھ نہ کچھ خوف الہی ہے
ابھی در پردہ دل اس کا تجلی زار ہے ساقی

ابھی تک دوسروں کے غم کو اپنا غم سمجھتا ہے
ابھی تک یہ شفیق و مشفق و غمخوار ہے ساقی

ابھی تک ہمت و فرزانگی بھی اس میں باقی ہے
ابھی اس کا مذاقِ زندگی ہموار ہے ساقی

ابھی تک اس کے دل میں الفتِ شاہِ مدینہ ہے
ابھی تک یہ شریعت کا علم بردار ہے ساقی

ابھی قربان ہوسکتا ہے ناموسِ پیمبر پر
ابھی مستِ شراب جذبہ ایثار ہے ساقی

ابھی تک یہ زمانے کے حوادث سے نہیں ڈرتا
ابھی تک یہ حریفِ لذت آزار ہے ساقی

ابھی تک اس میں استقلال بھی ہے عزم محکم بھی
ابھی تک ملتِ کبری حیات آثار ہے ساقی

ہم آغوشِ ثریا پھر مقدر اس کا ہوجائے
فقط اک جنبشِ چشمِ کرم درکار ہے ساقی

از عارف سیمابی
 
Top