نیرنگ خیال
لائبریرین
ایک اور سال اختتام پذیر ہوگیا۔ ابھی کل ہی کی بات لگ رہی ہے کہ میں کہروا لکھ رہا تھا۔ کہ ابھی ایک اور دھند میرے روز و شب پر چھائی جاتی ہے۔ کہار اس سال کی ڈولی کو اٹھانے آپہنچے ہیں۔ ان کے لبوں پر وہی وقت کے اڑتے جانے کے گیت ہیں اور میں اس سوچ میں گم ہوں کہ یہ سال کیسا رہا۔ اچھا یا برا؟
آغاز سال تو مجھے یاد نہیں۔ شاید ایسی کوئی جنوری کی صبح ہوگی۔ پہلے چند مہینے بھی یاد نہیں۔ پتا نہیں میں ان مہینوں میں زندہ بھی تھا یا نہیں۔ بس گزر گئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میرے پاس ان کی ایک پرچھائیں تک نہیں۔ ہاں میری دادی امی کی وفات کا دن مجھے یاد ہے۔ میں جنازے پر نہ پہنچ پایا۔ یہ بھی یاد ہے۔ جب میں وہاں پہنچا تو قبر پر پھول بکھرے تھے۔ اور گیلی مٹی کی خوشبو بتا رہی تھی کہ ایک نیک روح نے اس کے اندر اپنا مسکن بنا لیا ہے۔
سیاسی رہنماؤں کی بدعنوانی اور بدکرداری تو خیر اس سال نئی نہ تھی۔ وہی چند کھال نوچنے والے بھیڑیے جو ہم پر مسلط رہے اور رہیں گے۔ بس فرق صرف یہ پڑا کہ اس سال ان بھیڑیوں نے جو اپنی بھیڑ کی کھالیں پہن رکھی تھیں۔ وہ اتار لیں۔ لاہور میں جامع منہاج پر ظلم کرنے والوں کی ڈھٹائی اور بےغیرتی تو پوری قوم نے دیکھی ہی۔ تھر میں بچوں کے مرنے پر نامعلوم افراد کے ایک پسر افضل کا بیان دیکھنے والا تھا۔
مجموعی طور پر یہ سال غم کا سال رہا۔پہلے سانحہ لاہور پھر غزہ پر بربریت کی خبریں۔ پھر نام نہاد مسلمانوں کی پاکستانی بچوں پر ظلم کی خبریں۔ ایک دلیر بچہ اعزاز حسین ۔۔۔ جس نے خودکش بمبار کو معصوموں کی جان سے نہ کھیلنے دیا۔ اور اس کے بعد چند کتوں بھیڑیوں سے بدتر انسان نامی مخلوق نے پشاور میں جو ہلاکو و چنگیز و فرعون کی روحوں کو شرما دیا۔ اسی شام یمن میں معصوم بچیوں کو دھماکے سے اڑانے والا جانور بھی دیکھنے میں آیا۔
الغرض یہ ایک ایسا سال تھا جس میں قوم کے پاس بیدار ہوجانے کے بےا نتہا مواقع تھے۔ الحاد کا پیراہن اتار پھینکنے کے بےشمار بہانے تھے۔ لیکن ہائے افسوس کاررواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔ وہی بدحالی وہی بدامنی اور وہی بدعنوانی اپنے جبڑے کھولے نئے سال کے روز وشب نگلنے کو ہے۔ راستی تلاش کرنے والوں کے پاس سر ریت میں دبانے کے علاوہ کوئی اور راہ نہیں رہی ہے۔ اور ہم یعنی عوام ان مسائل کا ادراک کیے بغیر اپنی اپنی مسلکی و سیاسی وابستگیوں کے پیش نظر فی سبیل اللہ فساد کے لئے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔
میں اس نئے سال میں اس ملک و قوم کے لئے وہی ایک رٹی رٹائی دعا دہرانے کو ہوں۔ جو ہر کوئی اسی بد دلی سے ہر سال دہرا دیتا ہے۔ لیکن میری خواہش ہے کہ اس سال ہم بس دعاؤں کو ہاتھ اٹھاتے ہی نہ رہیں۔ ہم کوئی کام بھی کریں۔ اپنے اپنے دائرے میں بہتری لائیں۔ تمام لسانی، مسلکی اور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اس ملک کی بھلائی کی کوشش کریں۔ صرف یہ ہی ایک واحد حل ہے جس سے ہم اس نئے سال سے مرہم کا کام لے سکتے ہیں۔ وگرنہ اگلے سال جنوری میں پھر حزن و ملال کی تصویر بنے اسی ناختم ہونے والی سیاہ شب کی داستان پھر سے لبوں پر ہوگی۔
آغاز سال تو مجھے یاد نہیں۔ شاید ایسی کوئی جنوری کی صبح ہوگی۔ پہلے چند مہینے بھی یاد نہیں۔ پتا نہیں میں ان مہینوں میں زندہ بھی تھا یا نہیں۔ بس گزر گئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میرے پاس ان کی ایک پرچھائیں تک نہیں۔ ہاں میری دادی امی کی وفات کا دن مجھے یاد ہے۔ میں جنازے پر نہ پہنچ پایا۔ یہ بھی یاد ہے۔ جب میں وہاں پہنچا تو قبر پر پھول بکھرے تھے۔ اور گیلی مٹی کی خوشبو بتا رہی تھی کہ ایک نیک روح نے اس کے اندر اپنا مسکن بنا لیا ہے۔
سیاسی رہنماؤں کی بدعنوانی اور بدکرداری تو خیر اس سال نئی نہ تھی۔ وہی چند کھال نوچنے والے بھیڑیے جو ہم پر مسلط رہے اور رہیں گے۔ بس فرق صرف یہ پڑا کہ اس سال ان بھیڑیوں نے جو اپنی بھیڑ کی کھالیں پہن رکھی تھیں۔ وہ اتار لیں۔ لاہور میں جامع منہاج پر ظلم کرنے والوں کی ڈھٹائی اور بےغیرتی تو پوری قوم نے دیکھی ہی۔ تھر میں بچوں کے مرنے پر نامعلوم افراد کے ایک پسر افضل کا بیان دیکھنے والا تھا۔
مجموعی طور پر یہ سال غم کا سال رہا۔پہلے سانحہ لاہور پھر غزہ پر بربریت کی خبریں۔ پھر نام نہاد مسلمانوں کی پاکستانی بچوں پر ظلم کی خبریں۔ ایک دلیر بچہ اعزاز حسین ۔۔۔ جس نے خودکش بمبار کو معصوموں کی جان سے نہ کھیلنے دیا۔ اور اس کے بعد چند کتوں بھیڑیوں سے بدتر انسان نامی مخلوق نے پشاور میں جو ہلاکو و چنگیز و فرعون کی روحوں کو شرما دیا۔ اسی شام یمن میں معصوم بچیوں کو دھماکے سے اڑانے والا جانور بھی دیکھنے میں آیا۔
الغرض یہ ایک ایسا سال تھا جس میں قوم کے پاس بیدار ہوجانے کے بےا نتہا مواقع تھے۔ الحاد کا پیراہن اتار پھینکنے کے بےشمار بہانے تھے۔ لیکن ہائے افسوس کاررواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔ وہی بدحالی وہی بدامنی اور وہی بدعنوانی اپنے جبڑے کھولے نئے سال کے روز وشب نگلنے کو ہے۔ راستی تلاش کرنے والوں کے پاس سر ریت میں دبانے کے علاوہ کوئی اور راہ نہیں رہی ہے۔ اور ہم یعنی عوام ان مسائل کا ادراک کیے بغیر اپنی اپنی مسلکی و سیاسی وابستگیوں کے پیش نظر فی سبیل اللہ فساد کے لئے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔
میں اس نئے سال میں اس ملک و قوم کے لئے وہی ایک رٹی رٹائی دعا دہرانے کو ہوں۔ جو ہر کوئی اسی بد دلی سے ہر سال دہرا دیتا ہے۔ لیکن میری خواہش ہے کہ اس سال ہم بس دعاؤں کو ہاتھ اٹھاتے ہی نہ رہیں۔ ہم کوئی کام بھی کریں۔ اپنے اپنے دائرے میں بہتری لائیں۔ تمام لسانی، مسلکی اور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اس ملک کی بھلائی کی کوشش کریں۔ صرف یہ ہی ایک واحد حل ہے جس سے ہم اس نئے سال سے مرہم کا کام لے سکتے ہیں۔ وگرنہ اگلے سال جنوری میں پھر حزن و ملال کی تصویر بنے اسی ناختم ہونے والی سیاہ شب کی داستان پھر سے لبوں پر ہوگی۔