کاشفی

محفلین
سالِ گزراں
(قیوم نظر - 1940ء)
آخری رات آگئی آخر
ہر طرف یاس چھا گئی آخر
زندگی مجھ کو کھا گئی آخر

کس قدر شاق یہ جُدائی ہے
عمرِ رفتہ تری دہائی ہے

ہوچکیں ختم ساری تدبیریں
کٹ گئیں زندگی کی زنجیریں
مٹ رہی ہیں جو میری تصویریں

پھر مجھے ان کو دیکھ لینے دو
آخری بار داد دینے دو

روح پرور بسنت کی زردی
دھان کے کھیت کی ہری وردی
دھوپ سے بھاگتی ہوئی سردی

آنکھ کھولی تو یہ زمانہ تھا
زندگی اک حسیں فسانہ تھا

پھول کھلتے تھے لالہ زاروں میں
نغمے بہتے تھے جوئباروں میں
رقصِ فطرت تھا آبشاروں میں

میرا بچپن یونہی تمام ہوا
پھر جواں سال میرا نام ہوا


اب زمانہ تھا میرا شیدائی
ہوش میں آچکی تھی خودرائی
لے رہی تھی بہار انگڑائی

دن یہ تھے میری جوانی کے
کامرانی کے، شادمانی کے

موسمِ گل تھا اور جواں تھا میں
حُسنِ ہستی کا رازداں تھا میں
بزمِ عشرت میں نغمہ خواں تھا میں

تھی زمیں میری، آسماں میرا
ذرّے ذرّے پہ تھا نشاں میرا

میرے سینے میں شعلے پلتے تھے
میری صورت سے باغ جلتے تھے
پتھروں کے جگر پگھلتے تھے

یوں بڑھی گرمیء نفس میری
دھوم دنیا میں تھی تو بس میری

عالمِ رنگ و بو پہ مستی تھی
ابر کے ساتھ مے پرستی تھی
نشے میں غرق روحِ ہستی تھی

ہوش ساون میں تھا نہ جینے کا
زندگی نام ہی تھا پینے کا

کیف زا اب تھی دشت پیمائی
بارِ خاطر رہی نہ تنہائی
راس آنے لگی شکیبائی

پھر بڑھا اس قدر جنوں میرا
مضطرب ہوگیا سکوں میرا

دیکھتے دیکھتے شباب گیا
میری آنکھوں سے لطفِ خواب گیا
آرہا تھا جو انقلاب، گیا

اب کہاں تھیں بہار کی باتیں؟
سامنے تھیں پہاڑ سی راتیں!

سرد مہری جہاں پہ چھائی تھی

عاقبت کا پیام لائی تھی
کانپتی رہتی سب خدائی تھی

میری صورت بھی ایسی بدلی تھی
سرخ چہرے پہ اب سفیدی تھی

گھَٹ گیا دن، گھٹی نظر میری
بارِ شب سے جھکی کمر میری

ہوگئی موت ہم سفر میری

اب کہاں فرصتِ اسیری تھی
یادِ ماضی عصائے پیری تھی

اب نہ کھِلتی تھی چاندنی لبِ جو
اب نہ آتا تھا خوش رمِ آہو
اب نہ دنیا میں تھا کوئی مہ رو

تھا سبھی کچھ، مگر نہیں تھا میں
ایک گوشے میں اب مکیں تھا میں!

میں کہ آیا تھا مسکرانے کو
باغِ دنیا میں چہچہانے کو
جارہا ہوں کبھی نہ آنے کو

آخری لو سلام ہے میرا
اب عدم میں قیام ہے میرا
 
Top