سالی ۔۔۔۔۔ از ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ س ن مخمور

loneliness4ever

محفلین
مختصر مختصر

سالی
س ن مخمور

اُس کے آنے سے میرے دل میں اُس کی یاد خوف کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ جب وہ سامنے نہیں ہوتی تو میرا دل اس کو یاد کرتا ہے اور جب میرے پاس آ جاتی ہے تو معلوم نہیں کیوں خوشی سے زیادہ خوف میرے ہر احساس کو اپنی گرفت میں جکڑ لیتا ہے اور میں اُس کے جلد جانے کی دعاﺅں میں، اُس کو اپنے آپ سے دور بھیجنے کی سعی میں مصروف ہو جاتی ہوں۔ حتی کہ اس کے نہ آنے پر میرے گھر کی چار دیواری کی سماعت میں یا تو خاموشی اترتی ہے یا پھر میری ذات پر لعن طعن کے سوائے موبائل فون کا شور اس کو جگائے رکھتا ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو اس چھت تلے میں اور وہ معلوم ہی نہ پڑے کہ رہتے ہوں،ان آوازوں کے علاوہ رسوئی میں ہونے والی کھٹ پٹ جس کو دیگر فلیٹ والے باآسانی کسی آسیب سے منسوب کردیتے۔ مگر آسیب تو ہم دونوں کے درمیان تھا، جس نے مجھے مکمل اپنی گرفت میں کر رکھا تھا۔

میری زندگی میں ہر طرح کا سکون تھا کیونکہ میں ہر مشکل، ہر تکلیف سے سمجھوتہ کر چکی تھی۔ ہر طعنہ ، ہر گرا ہوا جملہ مجھے معمولی لگتا۔ میری سماعت اس کی عادی ہو چکی تھی، مجھے بائیس ، پچیس سال کی عمر تک پہنچ کر معلوم پڑا تھا ان سے کہ میرا باپ پاجی اور میری ماں بازاری ہے۔ ہر طرح کا بد سلیقہ، بے ڈھنگا پن میں نے اپنی ماں کی گود سے حاصل کیا تھا، کھانے میں نمک سے لیکر بات کرنے کے لئے لفظوں کے انتخاب تک کی بابت نہ مجھے کوئی سلیقہ نہ مجھے کوئی شعور حاصل ہوا تھا۔ مجھے جینے کے قابل ہی ان کے ساتھ اس چھت تلے رہنے نے بنایا تھا۔ مگر اس کے باوجود مجھے کبھی کبھی یاد کرا دیا جاتا کہ میں ایک پھوڑاور بد سلیقہ ہوں ۔ ان کا ساتھ بھی میری خصلت سے بدچلنی نہیں نکال پایا۔ یہ تمام آگاہی یہ تمام شناسائی میرے ، ان کے اور اس دو کمرے کے فلیٹ ہی کے درمیان ایک راز کی صورت تھی۔ ورنہ میرے ماں باپ یا ان کے ماں باپ نے تو کبھی طوفان سے قبل کی خاموشی سنی تھی اورنہ ہی طوفان کے بعد کا نوحہ ان کی سماعت میں اترا تھا۔ ان کی نگاہ میں ہر سمت آسودگی ہی آسودگی تھی۔

مگر وہ کیوں میری آسودگی کو تمام کرنے، میری خاموشی کو شورش میں تبدیل کرنے چلی آتی ہے۔ اس کو دیکھ کر مجھے اس کے ساتھ گزرا وقت یاد آجاتا تھا، گذشتہ لمحوں کی آسودگی مجھے سکون بخشتی مگر یہ سکون پل کا ہوتا۔ اور پھر میں اس کے ہونے تک مسلسل خوف کے تسلسل میں گھری رہتی۔ دوکمروں کا فلیٹ میرے لئے اس وقت وسیع وعریض محل کی صورت اختیار کر جاتا۔ اس کے آنے سے قبل نہ کبھی نہاری، بریانی ، پلاﺅ کی خواہش ہوتی مگر اس کے آنے کے بعد میں صرف رسوئی میں ملتی اور ان دونوں کی گفتگو میری سماعت میں مسلسل اترتی رہتی،اور اگر یہ سلسلہ جب جب ٹوٹتا اور اس کی جگہ خاموشی لیتی میرا دم لبوں پر آ جاتا میں کسی ناں کسی بہانے وہاں پہنچتی جہاں یہ دونوں بیٹھے ہوتے۔ ہر مرتبہ میرے دل کی دھڑکن میرا سینہ پھاڑتی محسوس ہوتی اور ہر مرتبہ میری آنکھیں ان دونوں کو دیکھ کر سکون پالیتیں،میں پھر پلٹ پڑتی رسوئی کی جانب ۔اولاد نہ ہونے کا غم ، ملال اس وقت اپنے عروج کو ہوتا جب وہ میرے گھر آتی۔

اس سے گفتگو کرتے ہوئے وہ بالکل ہی بھول جاتے کہ وہ بھی اسی گود سے تربیت لے ہوئی ہے جس سے تربیت حاصل کرنے پر مجھے صبح شام باتیں سنائی جاتی ہیں، وہ اس سے خوش گپیاں کرتے ہوئے بھول ہی جاتے کہ وہ بھی اسی سائبان کا سایہ لئے ہوئی ہے جس سائبان نے مجھے خامیوں کے سوائے کچھ نہیں دیا جہیز کی صورت۔ وہ اس سے مذاق کرتے بالکل بھول جاتے کہ گھر کی چار دیواری کی سماعت میں ان کے قہقہے کسی اجنبی آواز کی صورت اتر رہے ہیں ، میرے ساتھ وہ عرش تو اس کے ساتھ فرش کی صورت قدموں میں بچھے رہتے۔ مگر مجھے اس سے ان معاملات کے ہوتے ہوئے ،اس تفریق کے ہوتے ہوئے کبھی جلن، حسد نہ ہوئی ۔میں تو جلن ، حسد کی آگ کے بجائے خوف کی سیاہی میں بھٹکتی رہتی جب تک وہ ان دوکمروں کے فلیٹ میں رہتی۔ مجھے نہ اس پل اپنی ذات سے خوف آتا، نہ ان کے بھاری ہاتھوں سے۔۔۔ مجھے خوف آتا تو ان کی تبدیلی سے ، ان کی پیدا کردہ تفریق سے اور سب سے بڑھ کر ان کے اس جملے سے جو میری سماعت میں اس کے آنے کے بعدکسی ہتھوڑے کی صورت میرے اعصاب پر برسنے لگتا کہ سالی کا مطلب آدھے گھر والی۔

س ن مخمور
امر تنہائی
 
Top