سردار محمد نعیم
محفلین
زندگی اللہ پاک کا عظیم عطیہ اور قیمتی امانت ہے ؛اس کا درست استعمال انسان کے لیے دنیوی کامیابی اور اخروی سرفرازی کا سبب ہے اوراس کا ضیاع انسان کو ہلاکت وبربادی کے دہانے تک پہونچادیتا ہے۔ قیامت میں انسان کو اپنے ہر قول و عمل کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے پورا حساب دیناہے ؛اس لیے ضروری ہے کہ انسان کسی بھی عمل کو انجام دینے سے پہلے اس بات پر بہ خوبی غورکرلے کہ اس عمل کے ارتکاب کی صورت میں وہ کل کیا صفائی پیش کرے گااور اپنے معبود حقیقی کو کیا منہ دکھائے گا؟؟۔آج مسلمانوں نے دیگر اقوام کی دیکھا دیکھی بہت سی ان چیزوں کواپنی زندگی کا حصہ بنالیا اور انہیں اپنے لیے لازم و ضروری سمجھ لیا؛جو دین و دنیا دونوں کی تباہی و بربادی کا ذریعہ ہیں، ان ہی خرافات اور ناجائز رسومات میں "سال نو کا جشن” بھی خصوصیت کے ساتھ قابل ذکرہے۔ ایک سال کا اختتام اور دوسرے سال کا آغاز اس بات کا کھلا پیغام ہے کہ ہماری زندگی سے ایک سال کم ہو گیا، حیات مستعار کا ایک ورق الٹ گیا اورہم موت کے مزید قریب ہوگئے، اس لحاظ سے ہماری فکر اور ذمہ داری اور بڑھ جانی چاہیے، ہمیں پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنی زندگی اور وقت کو منظم کرکے اچھے اختتام کی کوشش میں لگ جانا چاہیے اوراپنا محاسبہ کرکے کمزوریوں کو دور کرنے اور اچھائیوں کو انجام دینے کی سعی کرنی چاہیے؛مگر افسوس صد افسوس! اس کے برعکس دیکھا یہ جاتا ہے کہ عیسوی سال کے اختتام اور نئے سال کے آغاز پرمغربی ممالک کی طرح ہمارے ملک کے بہت سارے مسلم اور غیر مسلم بالخصوص نوجوان لڑکیاں اور لڑکے،دھوم دھام سے خوشیاں مناتے ہیں، آتش بازی کرتے ہیں، کیک کاٹتے ہیں اور ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارک باد پیش کرتے ہیں پھراظہار مسرت کے اس بے محل موقع پر وہ جائز اور مناسب حدود سے نکل کر بہت سے ایسے کام بھی کرتے ہیں ؛جنہیں ایک سلیم العقل انسان اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا، اور نہ ہی انسانی سماج کے لیے وہ کام کسی طرح مفید ہیں ؛بلکہ نگاہ بصیرت سے دیکھاجائے تو حد درجہ مضر ہیں ۔ مثال کے طور پر (۳۱)دسمبر اور یکم جنوری کے بیچ کی شب میں نئے عیسوی سال کے آغاز کی خوشی مناتے ہوئے جگہ جگہ قمقمے روشن کئے جاتے ہیں، رنگ بہ رنگی تقاریب کا اہتمام ہوتاہے، ناچنے گانے والیوں کو بلاکر رقص و سرود کی محفلیں جمتی ہیں اوران حرام کاموں پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کیا جاتا ہے۔ بہت سارے نوجوان اس رات شراب وکباب کا جم کر استعمال کرتے ہیں اور اس غلط کام پر بھی بے دریغ پیسہ صرف کرتے ہیں، ہم نہیں سمجھتے کہ شراب نوشی کی کسی بھی مذہب میں کوئی بھی گنجائش ہوگی، یہ انسانی عقل کو سلب کر کے آدمی کو بالکل ناکارہ بنا دیتی ہے، اور اس کے نشہ میں چور آدمی قتل وغارت گری، زنا کاری وبدکاری اور بہت ساری دوسری برائیوں کا بلا جھجھک ارتکاب کرتا ہے۔ الغرض: پرانے سال کے اختتام اور نئے سال کے آغاز پر یعنی 31دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی شب فحاشی اور عریانی کی تمام حدوں سے گزرجانے، بے دریغ مال و اوقات کا ضیاع کرنے نیز مذہبی و اخلاقی پابندیوں کو پاؤں تَلے روند ڈالنے، بلکہ حیوانیت کا گندامظاہرہ کرنے کوفی زمانہ نیو ایئر سیلی بریشن سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس میں متعدد گناہوں کے ساتھ اسراف وفضول خرچی، کفار ومشرکین کی تقلید، نعمتِ خداوندی کی ناقدری اور وقت کا ضیاع جیسے بیشتر امور بھی شامل ہیں
جشن سال نو، آغاز و ارتقاء:
دیگر بہت سی خرافات کی طرح یہ رسم بد بھی یہود و نصاری کی دین ہے ؛جو مسلمانوں میں فحاشی، عریانی اور بے حیائی کو عام کرنے کے لیے ایجاد کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ نئے عیسوی سال کا جشن پہلی بار1؍ جنوری 1600 عیسوی کو، اسکاٹ لینڈ میں منایا گیا، اس لیے کہ عیسائی اسی سے نئے سال کی ابتدا مانتے ہیں، جب کہ یہ تاریخ مروجہ میلادِ مسیح سے مختلف ہے ‘ یعنی میلادِ مسیح 25؍دسمبر اور نئے سال کا آغاز اس کے ایک ہفتے بعد31دسمبر۔پھر عصرِ حاضر میں نئے سال کا جشن ایک اہم تقریب کے طور پر عیسائی وغیر عیسائی ممالک میں جدید مغربی تہذیب کے مطابق 31دسمبر کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رات کے 12 بجے منعقد کیا جانے لگا، جس میں مسلمان بھی دھڑلّے سے شریک ہوتے اور اسلامی تہذیب و ثقافت اور نبوی تعلیمات وتعلیمات کے چیتھڑے اڑاتے دیکھے جا سکتے ہیں ۔ اہل اسلام خود جائزہ لیں کہ جو مذہب، اسلامی سال کی آمد پر بھی آپس میں مبارک بادی وغیرہ کی تاکید نہیں کرتاکہ کہیں اس طرح کی مبارک بادی آہستہ آہستہ مستقل بدعت کی شکل اختیار نہ کرجائے، وہ غیر اسلامی سال پر جشن منانے اور مبارک باد ی دینے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے ؟؟۔ ہجرت کے بعد رسول اللہﷺدس سال مدینہ منورہ میں رہے اور آپﷺکے بعد تیس سال خلافت ِ راشدہ کا عہد رہا،صحابہ کرامؓ کی نگاہ میں اس واقعے کی اتنی اہمیت تھی کہ اسی کو اسلامی کیلنڈر کی بنیاد واساس بنایا گیااور حضرتِ عمر ؓکے عہد سے ہی ہجری تقویم کو اختیار کر لیا گیا، لیکن ان حضرات نے کبھی سالِ نو یا یومِ ہجرت منانے کی کوشش نہیں کی،اس سے معلوم ہوا کہ اسلام اس طرح کے رسوم ورواج کا قائل نہیں ہے، کیوں کہ عام طور پر رسمیں نیک مقصد اور سادہ جذبے کے تحت وجود میں آتی ہیں، پھر وہ دھیرے دھیرے دین کاجزو بن جاتی ہیں، اس لیے اسلام کو بے آمیز رکھنے کے لیے ایسی رسموں سے گریز کرنا ضروری ہے۔ ’’ (ملخص از کتاب الفتاوی) اسلام میں نئے سال کی ابتداء پر یوں مادر پدر آزاد ہوجانے کی کوئی اجازت نہیں اور المیہ یہ ہے کہ آج ہم پر مغربی ثقافت کا ایسا رنگ چھایا ہم بھول ہی گئے کہ اسلامی سال کی ابتداء محرم کے مہینے سے ہوتی ہے اور اختتام ذوالحجہ کے مہینے پر ہوتا ہے – ہمارے کیلنڈروں پر انگریزی تاریخ ہی درج ہوتی ہے، دفاتر میں انگریزی تاریخ والا کیلنڈر، ملازمین کی تنخواہیں اسی کیلنڈر کے مطابق، چھٹیاں بھی ان ہی تاریخوں کے حساب سے، گویا کہ اسلامی مہینوں کی تاریخیں محض رمضان المبارک اور عیدین کے ساتھ ہی معلق ہوکر رہ گئی۔ جبکہ اسلامی مہینوں کی بنیاد چاند کے گھٹنے اور بڑھنے پر ہے جس کا ادراک ایک عام ان پڑھ آدمی بھی کرسکتا ہے پھر دوسری طرف اسلامی مہینوں کے نام شریعت نے وضع کئے اور چاند کے گھٹنے اور بڑھنے کو ان کی بنیاد قرار دیا گویا کہ اسلامی سال اور مہینوں کا نظام ایک باقاعدہ ترتیب شدہ اوراعلی و معیاری ہے اور ہم ہوش مند مسلمانوں نے معیاری چیز کو چھوڑ کر غیر معیاری اور گھٹیا چیز کو سینے سے لگالیا – عیسائی ثقافت کو اسلامی ثقافت پر ترجیح دی اور پھر ان کی نقالی نے ہم سے غیرت و حیا بھی چھین لی کہ ہم ان کے پیچھے چلتے ہوئے ان ہی کے انداز میں ہیپی نیو ایئر کے نعرے لگانے، بدن سے کپڑے نوچ پھینکنے اور طرح طرح کی خرافات انجام دینے میں فخر محسوس کرنے لگے –
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے میں
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے
خود احتسابی کی ضرورت :
غورکیاجائے تونیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟کیوں کہ وقت کی مثال تیز دھوپ میں رکھی ہوئی برف کی اس سیل سے دی جاتی ہے ؛جس سے اگر فائدہ اٹھایا جائے تو بہتر ورنہ وہ تو بہر حال پگھل ہی جاتی ہے۔
نوٹ ٰٰٰ یہ تحریر مولانا عبد الرشید طلحہ نعمانی کی ہے جو کہ معروف عالم دین ہیں
جشن سال نو، آغاز و ارتقاء:
دیگر بہت سی خرافات کی طرح یہ رسم بد بھی یہود و نصاری کی دین ہے ؛جو مسلمانوں میں فحاشی، عریانی اور بے حیائی کو عام کرنے کے لیے ایجاد کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ نئے عیسوی سال کا جشن پہلی بار1؍ جنوری 1600 عیسوی کو، اسکاٹ لینڈ میں منایا گیا، اس لیے کہ عیسائی اسی سے نئے سال کی ابتدا مانتے ہیں، جب کہ یہ تاریخ مروجہ میلادِ مسیح سے مختلف ہے ‘ یعنی میلادِ مسیح 25؍دسمبر اور نئے سال کا آغاز اس کے ایک ہفتے بعد31دسمبر۔پھر عصرِ حاضر میں نئے سال کا جشن ایک اہم تقریب کے طور پر عیسائی وغیر عیسائی ممالک میں جدید مغربی تہذیب کے مطابق 31دسمبر کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رات کے 12 بجے منعقد کیا جانے لگا، جس میں مسلمان بھی دھڑلّے سے شریک ہوتے اور اسلامی تہذیب و ثقافت اور نبوی تعلیمات وتعلیمات کے چیتھڑے اڑاتے دیکھے جا سکتے ہیں ۔ اہل اسلام خود جائزہ لیں کہ جو مذہب، اسلامی سال کی آمد پر بھی آپس میں مبارک بادی وغیرہ کی تاکید نہیں کرتاکہ کہیں اس طرح کی مبارک بادی آہستہ آہستہ مستقل بدعت کی شکل اختیار نہ کرجائے، وہ غیر اسلامی سال پر جشن منانے اور مبارک باد ی دینے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے ؟؟۔ ہجرت کے بعد رسول اللہﷺدس سال مدینہ منورہ میں رہے اور آپﷺکے بعد تیس سال خلافت ِ راشدہ کا عہد رہا،صحابہ کرامؓ کی نگاہ میں اس واقعے کی اتنی اہمیت تھی کہ اسی کو اسلامی کیلنڈر کی بنیاد واساس بنایا گیااور حضرتِ عمر ؓکے عہد سے ہی ہجری تقویم کو اختیار کر لیا گیا، لیکن ان حضرات نے کبھی سالِ نو یا یومِ ہجرت منانے کی کوشش نہیں کی،اس سے معلوم ہوا کہ اسلام اس طرح کے رسوم ورواج کا قائل نہیں ہے، کیوں کہ عام طور پر رسمیں نیک مقصد اور سادہ جذبے کے تحت وجود میں آتی ہیں، پھر وہ دھیرے دھیرے دین کاجزو بن جاتی ہیں، اس لیے اسلام کو بے آمیز رکھنے کے لیے ایسی رسموں سے گریز کرنا ضروری ہے۔ ’’ (ملخص از کتاب الفتاوی) اسلام میں نئے سال کی ابتداء پر یوں مادر پدر آزاد ہوجانے کی کوئی اجازت نہیں اور المیہ یہ ہے کہ آج ہم پر مغربی ثقافت کا ایسا رنگ چھایا ہم بھول ہی گئے کہ اسلامی سال کی ابتداء محرم کے مہینے سے ہوتی ہے اور اختتام ذوالحجہ کے مہینے پر ہوتا ہے – ہمارے کیلنڈروں پر انگریزی تاریخ ہی درج ہوتی ہے، دفاتر میں انگریزی تاریخ والا کیلنڈر، ملازمین کی تنخواہیں اسی کیلنڈر کے مطابق، چھٹیاں بھی ان ہی تاریخوں کے حساب سے، گویا کہ اسلامی مہینوں کی تاریخیں محض رمضان المبارک اور عیدین کے ساتھ ہی معلق ہوکر رہ گئی۔ جبکہ اسلامی مہینوں کی بنیاد چاند کے گھٹنے اور بڑھنے پر ہے جس کا ادراک ایک عام ان پڑھ آدمی بھی کرسکتا ہے پھر دوسری طرف اسلامی مہینوں کے نام شریعت نے وضع کئے اور چاند کے گھٹنے اور بڑھنے کو ان کی بنیاد قرار دیا گویا کہ اسلامی سال اور مہینوں کا نظام ایک باقاعدہ ترتیب شدہ اوراعلی و معیاری ہے اور ہم ہوش مند مسلمانوں نے معیاری چیز کو چھوڑ کر غیر معیاری اور گھٹیا چیز کو سینے سے لگالیا – عیسائی ثقافت کو اسلامی ثقافت پر ترجیح دی اور پھر ان کی نقالی نے ہم سے غیرت و حیا بھی چھین لی کہ ہم ان کے پیچھے چلتے ہوئے ان ہی کے انداز میں ہیپی نیو ایئر کے نعرے لگانے، بدن سے کپڑے نوچ پھینکنے اور طرح طرح کی خرافات انجام دینے میں فخر محسوس کرنے لگے –
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے میں
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے
خود احتسابی کی ضرورت :
غورکیاجائے تونیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟کیوں کہ وقت کی مثال تیز دھوپ میں رکھی ہوئی برف کی اس سیل سے دی جاتی ہے ؛جس سے اگر فائدہ اٹھایا جائے تو بہتر ورنہ وہ تو بہر حال پگھل ہی جاتی ہے۔
نوٹ ٰٰٰ یہ تحریر مولانا عبد الرشید طلحہ نعمانی کی ہے جو کہ معروف عالم دین ہیں