سحرش سحر
محفلین
سال نو کی یا حیات جاوداں کی پلاننگ ؟
۔ آج اکتیس دسمبر کی یخ بستہ، کہر آلود رات ہے ۔ نئے عیسوی سال کی آمد آمد ہے بلکہ دسمبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی نئے سال کی آمد کو ہر کوئی کسی نہ کسی رنگ میں محسوس کرتا ہے ۔ بعض منچلوں کے لیے تو شاید اس میں کوئی خاص نیا پن ہوتا ہو گا کیونکہ ترقی یافتہ دنیا کی دیکھا دیکھی تیسری دنیا کے کچھ باسی خاص طور پرنوجوان نسل بھی اس میں دل پشوری کر لیتے ہیں ۔
اور کچھ ہماری طرح، اسے نئےسرکاری سال کے طور پر ہی خوش آمدید کہہ دیتے ہیں ۔
شنید یہ ہہ کہ اب تو نئے سال کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی بھی ہوتی ہے کہ کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے ؟ یہ بھی طے کیا جاتا ہے کہ پچھلے سال جو کوتاہیاں یا کمی ہوئی ان کو اب کہ اگلے سال نہ دہرایا جائے اور مستقبل کو زیادہ سے زیادہ پرسکون، آرام دہ، پر مسرت کیسے بنایا جائے ۔
بےشک یہ سوچ بہت اچھی ہے ۔ کیونکہ کسی بھی انسان کا "آج"، اس کے "گزرے ہوئے کل" سے بہتر نہ ہو تو سمجھو وہ نقصان میں ہے ۔ لہذا کل کی بہتری کے لیے پلاننگ میں کوئی مضائقہ نہیں ۔
۔ اگراس عارضی دنیاکو سال گزشتہ اور بعد از وفات زندگی کو سال نو، یکم جنوری وما بعد سمجھ لیں تو کیا اُس نئ زندگی کے بارے میں آپ نے کچھ سوچا ہے ؟
ایک مسلمان ہونے کے نا تے حیات بعد از ممات ہمارا عقیدہ ہے مگر اُس ابدی زندگی کی خوشی و خوشحالی کے لیے، امن وسکون کے لیے ہم کیا منصوبہ بندی کر رہے ہیں ؟؟؟
کبھی سوچاہے کہ جب وہ بے رحم بنجارا اس خاکی کو لادنے کے لیے سر پر آن پہنچے گا تو سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائےگا ۔ اس عارضی دنیا کی تمام پلاننگز دھری کی دھری رہ جائیں گی
بس آنکھ بند ہونے کی دیر ہے..... پھر .....کہیں پچھتاوا........اللہ نہ کرے ۔
جھلمل کرتی روشنیوں کےحامل اس مادہ پرستی کے دور میں اور الیکٹرانک و سوشل میڈیا کے شور میں اکثریت کو نہ کچھ نظر آرہا ہے نہ ہی کچھ سنا ئی دے رہا ہے ۔ مال و دولت کی محبت دلوں میں جا گزیں ہو کر خونی رشتوں و انسانیت کی محبت نکا ل چکی ہے ۔ بلکہ ان کا جنازہ نکال چکی ہے ۔ ہر انسان مذہب بیزار ہوتا جا رہا ہے ۔ روحانی لحاظ سے کمزور ہوتا جا رہا ہے ۔ اور جو انسان روحانی طور پر کمزور ہو جائے اس کا نفس ہمیشہ اس پر حاوی رہتا ہے اور اس کی بربادی کا سامان کر تا جاتا ہے۔
یہ تو ہم سبھی سنتے ہیں کہ " اسلام ایک مکمل ضابطہء حیات ہے ۔ دین فطرت ہے ۔" مگر اس دعوی کو پرکھتا کوئی نہیں ۔ نہ ہی آج کا، برائے نام روشن خیال مسلمان بہن بھائی اور نہ ہی ہمارےغیر مسلم بہن بھائی ۔
یہ تو عام مشاہدہ ہے کہ سبھی اپنی عام زندگی میں بھی ہمشہ پائیدار چیز لینے یا اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ پہلے اُس جنس کی مختلف چیزوں کو پرکھتے ہیں ۔ ٹٹولتے ہیں ، برینڈ دیکھتے ہیں...اس کے مینو فکچرنگ کمپنی کے دعووں کی چھان بین کرتے ہیں .. دوسروں سے مشورہ کرتے ہیں ۔ اس کے بعد کہیں جا کر فیصلہ ہوتا ہے ۔
شومئی تقدیر! اگر کئی لوگوں کی اطمینان بخش رائے کےبعد کوئی ایک ایک ایسا شخص مل جائے جو خود بیزار طبیعت کا حامل ہے ۔ اس میں کسی چیز کو برتنے کا سلیقہ ہی نہیں، تمیز ہی نہیں تو اس ایک شخص کے لیے آپ اس چیز کو برا تصور نہیں کر سکتے ۔
یہ بھی سراسر ظلم ہے کہ کسی بھی چیز کو پرکھے بغیر اس کے بارے میں رائے قائم کی جائے ۔ لہذا دین برحق کا مذاق اڑانے کے بجائے اس کی حقانیت پر غور کریں ۔ موت و حیات کا فلسفہ سمجھیں ۔ اور اپنے مستقبل کی پلاننگ کریں ۔
چل چلاؤ کا دور ہے آج یہ مرا کل وہ مرا ۔ کہیں بغیر پلاننگ کے، اگلی منزل کی طرف روانگی کا حکم آیا تو ........؟؟؟
ذرا سوچیں! ......وقت بہت کم ہے ۔
سحرش سحر
۔ آج اکتیس دسمبر کی یخ بستہ، کہر آلود رات ہے ۔ نئے عیسوی سال کی آمد آمد ہے بلکہ دسمبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی نئے سال کی آمد کو ہر کوئی کسی نہ کسی رنگ میں محسوس کرتا ہے ۔ بعض منچلوں کے لیے تو شاید اس میں کوئی خاص نیا پن ہوتا ہو گا کیونکہ ترقی یافتہ دنیا کی دیکھا دیکھی تیسری دنیا کے کچھ باسی خاص طور پرنوجوان نسل بھی اس میں دل پشوری کر لیتے ہیں ۔
اور کچھ ہماری طرح، اسے نئےسرکاری سال کے طور پر ہی خوش آمدید کہہ دیتے ہیں ۔
شنید یہ ہہ کہ اب تو نئے سال کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی بھی ہوتی ہے کہ کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے ؟ یہ بھی طے کیا جاتا ہے کہ پچھلے سال جو کوتاہیاں یا کمی ہوئی ان کو اب کہ اگلے سال نہ دہرایا جائے اور مستقبل کو زیادہ سے زیادہ پرسکون، آرام دہ، پر مسرت کیسے بنایا جائے ۔
بےشک یہ سوچ بہت اچھی ہے ۔ کیونکہ کسی بھی انسان کا "آج"، اس کے "گزرے ہوئے کل" سے بہتر نہ ہو تو سمجھو وہ نقصان میں ہے ۔ لہذا کل کی بہتری کے لیے پلاننگ میں کوئی مضائقہ نہیں ۔
۔ اگراس عارضی دنیاکو سال گزشتہ اور بعد از وفات زندگی کو سال نو، یکم جنوری وما بعد سمجھ لیں تو کیا اُس نئ زندگی کے بارے میں آپ نے کچھ سوچا ہے ؟
ایک مسلمان ہونے کے نا تے حیات بعد از ممات ہمارا عقیدہ ہے مگر اُس ابدی زندگی کی خوشی و خوشحالی کے لیے، امن وسکون کے لیے ہم کیا منصوبہ بندی کر رہے ہیں ؟؟؟
کبھی سوچاہے کہ جب وہ بے رحم بنجارا اس خاکی کو لادنے کے لیے سر پر آن پہنچے گا تو سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائےگا ۔ اس عارضی دنیا کی تمام پلاننگز دھری کی دھری رہ جائیں گی
بس آنکھ بند ہونے کی دیر ہے..... پھر .....کہیں پچھتاوا........اللہ نہ کرے ۔
جھلمل کرتی روشنیوں کےحامل اس مادہ پرستی کے دور میں اور الیکٹرانک و سوشل میڈیا کے شور میں اکثریت کو نہ کچھ نظر آرہا ہے نہ ہی کچھ سنا ئی دے رہا ہے ۔ مال و دولت کی محبت دلوں میں جا گزیں ہو کر خونی رشتوں و انسانیت کی محبت نکا ل چکی ہے ۔ بلکہ ان کا جنازہ نکال چکی ہے ۔ ہر انسان مذہب بیزار ہوتا جا رہا ہے ۔ روحانی لحاظ سے کمزور ہوتا جا رہا ہے ۔ اور جو انسان روحانی طور پر کمزور ہو جائے اس کا نفس ہمیشہ اس پر حاوی رہتا ہے اور اس کی بربادی کا سامان کر تا جاتا ہے۔
یہ تو ہم سبھی سنتے ہیں کہ " اسلام ایک مکمل ضابطہء حیات ہے ۔ دین فطرت ہے ۔" مگر اس دعوی کو پرکھتا کوئی نہیں ۔ نہ ہی آج کا، برائے نام روشن خیال مسلمان بہن بھائی اور نہ ہی ہمارےغیر مسلم بہن بھائی ۔
یہ تو عام مشاہدہ ہے کہ سبھی اپنی عام زندگی میں بھی ہمشہ پائیدار چیز لینے یا اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ پہلے اُس جنس کی مختلف چیزوں کو پرکھتے ہیں ۔ ٹٹولتے ہیں ، برینڈ دیکھتے ہیں...اس کے مینو فکچرنگ کمپنی کے دعووں کی چھان بین کرتے ہیں .. دوسروں سے مشورہ کرتے ہیں ۔ اس کے بعد کہیں جا کر فیصلہ ہوتا ہے ۔
شومئی تقدیر! اگر کئی لوگوں کی اطمینان بخش رائے کےبعد کوئی ایک ایک ایسا شخص مل جائے جو خود بیزار طبیعت کا حامل ہے ۔ اس میں کسی چیز کو برتنے کا سلیقہ ہی نہیں، تمیز ہی نہیں تو اس ایک شخص کے لیے آپ اس چیز کو برا تصور نہیں کر سکتے ۔
یہ بھی سراسر ظلم ہے کہ کسی بھی چیز کو پرکھے بغیر اس کے بارے میں رائے قائم کی جائے ۔ لہذا دین برحق کا مذاق اڑانے کے بجائے اس کی حقانیت پر غور کریں ۔ موت و حیات کا فلسفہ سمجھیں ۔ اور اپنے مستقبل کی پلاننگ کریں ۔
چل چلاؤ کا دور ہے آج یہ مرا کل وہ مرا ۔ کہیں بغیر پلاننگ کے، اگلی منزل کی طرف روانگی کا حکم آیا تو ........؟؟؟
ذرا سوچیں! ......وقت بہت کم ہے ۔
سحرش سحر
آخری تدوین: