آپ اسے اردو کی کوئی ثقیل قسم کی کتاب نہ سمجھیں اس میں رضا علی عابدی صاحب کا طرزِ تحریر ان کے بولنے کے انداز کی طرح انتہائی شگفتہ اور شُستہ ہے۔
انسان پڑھتے وقت نہ صرف اکتاتا نہیں بلکہ اکیلے بیٹھا زیرلب مسکراتا بھی ہے اور کبھی بے ساختہ قہقہہ بھی لگاتاہے۔ لندن میں ان کی نظامت میں ہونے والے ایک مشاعرے کا احوال یوں بیان کیا ”کراچی سے کوئی شاعر آیا ہوا تھا جس کا ایک بازو جمال احسانی نے اور دوسرا افتخار عارف نے تھام رکھا تھا (سہارا دینے کے لیے ) ۔
دونوں مجھ سے بولے کہ عابدی بھائی، یہ ایسے شاعر ہیں کہ آج قیامت برپا ہو جائے گی۔
”عابدی صاحب کہتے ہیں جب اس نے قیامت برپا کرنے کے لیے“ صورِ اسرافیل ”پھونکنا شروع کیا تو جی چاہا خود کو دریائے ٹیمز کی موجوں کے حوالے کر دوں۔
کتاب کی رونمائی کو بقول“ رونمائی ”کا نام اس لیے دیا گیا کہ رونمائی نئی نویلی دلہن کی ہوا کرتی ہے، مگر اس میں فائدہ یہ ہوتا کہ دلہن کتنی ہی بد شکل کیوں نہ ہو، رونمائی کے وقت کوئی یہ بات نہیں کہتا۔
غالباً اسی لیے صاحبِ کتاب اس تقریب کو رونمائی کا نام دے کر ایک بہت بڑے خطرے کو ٹال دیتے ہیں۔ سفر ناموں کے حوالے ایک بڑے نام پر ہلکی سی طنز بھی کتاب میں مل جاتی ہے ”جو مبالغہ بعض سفرنامہ نگار جنسِ مخالف کی نسبت سے کرتے ہیں اس کا احوال بچے بچے کو ازبر ہے۔ ہر ایک سفر ناموں کا مذاق اڑاتا ہے اور ہر ایک کا اصرار ہے کہ سفرنامہ نگاروں پر ہر جگہ عورتیں ایک لمحے میں ہزار جان سے کیسے عاشق ہو جاتی ہیں۔
کتاب میں ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا ہی ہونے والے اردو مشاعروں، کانفرنسوں اور اجلاسوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے، بنتے اور بگڑے اردو محاوروں کا ذکر بھی ہے، اردو کی اشاعت و ترویج میں اخبارات اور کمپیوٹر کے دور سے پہلے کاتبوں کے کردار کا دلچسپ احوال بھی ملتا ہے۔ ”اردو کی طباعت اور اشاعت پر کس زمانے میں کیا بیتی اور اس پر کیا گزر رہی ہے، نثر کا کیاحال ہے، نظم کو اتنا عروج کیوں، فیصلے کہاں ہو رہے ہیں اور عمل کیونکر، کتاب سے دل لگانے والی نسل کدھر گئی اور اسے پلکوں پر جگہ دینے والے کتنے لوگ بچے ہیں۔
اس کتاب میں یہ سارے احوال یک جا ہو گئے ہیں۔ یہی اردو کا حال ہے، یہی ماضی اور مجھے یقین ہے، یہی مستقبل ہے۔ “