loneliness4ever
محفلین
س ن مخمور کے کمرے سے
میں کمرے کی کھلی کھڑکی کو بند کرنے کے لئے آگے بڑھا مگر میرے اور کھلی ہوئی کھڑکی کے درمیان پل بھر میں گزرے ہوئے محدود وقت کی لامحدود یادیں حائل ہو گئیں اور میں یادوں کی بھول بھلیاں میں ایسا بھٹکا کہ پل بھر کی مختصر ساعتوں میں سالوں پر محیط یادوں کے سفر پر نکل پڑا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی یادوں کے سمندر کنارے نرم اور گیلی مٹی پر قدم رکھتا گیا۔ وقت ایک مرتبہ پھر میری برداشت کا امتحان لے رہا تھا۔ ایسا امتحان جس میں ناکام ہونے ہی میں درحقیقت میری کامیابی تھی۔ روح جو برسوں سے بیقرار تھی، آنکھیں جو مدتوں سے صحرا بن چکی تھیں، میری ناکامی کی دعا کرنے میں مشغول ہو گئیں۔
میں اپنے ذہن اور دل کے منع کرنے کے باوجود اضطرابی حال میں یادوں کی کتاب کے اوراق پلٹتا گیا۔ یہاں تک کہ میری آنکھوں میں دھندلا بلکہ زندگی کی راہ پر سے اُڑتی ذمہ داریوں، پریشانیوں، فکروں کی دبیز گرد تلے چھپا ہوا نقش اُبھرنے لگا۔ مجھے اپنے سینے میں دھڑکن کا سفر تھمتا محسوس ہونے لگا۔ مدت گزر گئی تھی، میری آنکھوں کے پردے پر اس نقش کا عکس بن نہیں پایا تھا۔ مگر آج جانے کیوں میری نارسائی تمام ہو رہی تھی۔ میں ایک مرتبہ پھر اس دیار تلک پہنچنے میں کامیاب ہو چکا تھا جہاں جانے کے بعد مجھے اپنی واپسی قیامت سے کم نہیں لگتی تھی اور جہاں جانے کی خواہش دل میں ہو کر بھی میں کبھی رخت سفر نہیں باندھتا تھا، مگر آ ج معلوم نہیں کیوں اور کیسے میں اس سفر پر نکل پڑا اور لمحوں میں برسوں کا سفر طے کر گیا۔ میں یادوں کے سمندر میں ڈوب رہا تھا، اپنی خواہش، اپنی مرضی کے خلاف مگر اس حالت میں بھی اضطراب کی ہر سانس پر مجھے انجانی سی خوشی تھی۔ آخر میری مرضی ، میری خواہش دم توڑ گئی، میرا ضبط کمزور پڑ گیا اور وہ نقش اپنی مکمل آب و تاب کے ساتھ میری آنکھوں کے پردے پر جلوہ افروز ہو گیا۔
میں ابھی اس کو دیکھنے میں محو تھا کہ منظر بدلا اور دھند چھٹ گئی، دھوپ تیز دھوپ ۔۔۔ اسکول کی چھٹی کا وقت۔۔۔ اور پھر میری سماعت میں ٹن ٹن کی آواز گونج اٹھی۔۔۔۔ گھر جانے کی جلدی اور ان کا انتظار۔۔۔ کمر پر بستہ لادے دیوار کے سائے میں کبھی اُن کا انتظار کرتے وقت گزر جاتا یا کبھی انتظار اسکول میں گونجتی ٹن ٹن کے ساتھ ہی دم توڑ دیتا۔۔ کل وقت جتنی تیزی سے گزرا تھا آج اس سے کہیں زیادہ تیزی سے میری آنکھوں میں گزر رہا تھا۔ مگر اس کا گزرنا بے ربط تھا، اب کی بار منظر بدلا اور اس نے مجھے ان کے پاس جا لٹایا۔ سکون اور شوق اس وقت کتنا تھا۔ ان کے پاس لیٹنے کا، ان کی بات سننے کا، میری آنکھوں میں اب ستارے امڈ آئے تھے۔ وقت نے میری یہ حالت دیکھی تو ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو بدل لیا۔ اب کی بار ظالم وقت نے ان کا بیمار نقش میری آنکھوں میں ابھار دیا۔ میرا ضبط وہ وقت یاد کرکے مزید نڈھال ہو گیا۔ اسپتال کی مسلسل بیدار راتیں۔۔۔ معلوم نہیں نیند کس طرح میری آنکھوں سے دور ہو چکی تھی اس وقت، میں ابھی اس منظر میں کھو جاتا کہ وقت نے پھر کروٹ لی اور مجھے ان کی آخری ساعتوں پر اٹھا کر پٹخ دیا۔
میں ایک مرتبہ پھر اپنی آنکھوں میں آخری ملاقات کا منظر تازہ ہونے پر شدت غم سے نڈھال ہو گیا۔ میری آنکھوں میں ستاروں کی روشنی بڑھنے لگی ، عین ممکن تھا کہ میرے رخسار پر میری آنکھوں کے مسافر سفر شروع کر دیں کہ میرے کمرے کی کھلی کھڑکی سے آتی موسم سرما کی یخ بستہ ہوا نے میرے نڈھال ہوتے ضبط کو سہارا دیا اور میری آنکھوں میں اتری یادوں کے ہر احساس کو منجمد کر دیا۔ میرے اشک ایک مرتبہ پھر میری آنکھوں ہی میں دم توڑ گئے، گزرا وقت ایکبار پھر شکست کھا گیا۔ میں جھٹکے سے آگے بڑھا اور کمرے کی کھلی کھڑکی کے پاس جا کھڑا ہوا۔ دور دور تک زندگی کے کاموں میں الجھے کیڑے مکوڑوں کی مانند اپنی ضرورتوں، خواہشوں پر ناچتے لوگ نظر آ رہے تھے ، میں نے اپنی نگاہیں سڑکوں پرموجود اس ناختم ہونے والے ہجوم سے ہٹا لیں ، دور بہت دور بادلوں کے درمیان سورج اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا۔ میں کچھ دیر تک مرتے ہوئے سورج کو دیکھتا رہا، میری آنکھوں میں ایک مرتبہ پھر ستارے امڈ آئے تھے، دسمبر کی آخری شام کا سورج اپنی منزل کے بہت قریب تھااس کا اختتام زندگی ہی کی طرح تھا، آغاز مکمل آب وتاب کے ساتھ اور انتہا اپنا تمام اجالا سمیٹتے ہوئے۔ میری آنکھوں کے بند مسافروں کی دستک سے لرز اٹھے۔میں نے ایک مرتبہ پھر اپنی نگاہیں زندگی کی شاہراہ پر زندگی کے پیچھے بھاگتے ہوئے ان گنت انسانوں کی جانب گھما لیں۔ سرد ہوا کا ایک اور جھونکا کمرے کی کھلی کھڑکی سے داخل ہو گیا۔ محرومی اور ماضی کے احساسات کی حدت ایک بار پھر سرد پڑ گئی اور میرا جسم سرما کی سرد ہوا کی یخ بستہ احساس سے لپٹ گیا۔ میں نے ڈوبتے سورج پر ایک بھرپور نگاہ ڈالی اور کھڑکی کے پٹ بند کر کے پردہ گرا دیا۔
دنیا کی زندگی کا ایک اور سال تمام ہو نے کو تھا، اور میرا ان سے جدا ہوئے وقت میں مزید اضافے ہونے کو تھا۔ بچپن، لڑکپن ، جوانی اور بڑھاپا غرض عمر کے ہر حصے میں مجھ جیسے شخص کو ان کی ضرورت تھی اور ضرورت رہنی تھی، مگر قدرت کے فیصلے کے آگے مجبور۔۔۔۔ دماغ کے بند کمروں میں ان کے ساتھ گزرے وقت کے سائے برسوں سے قید کاٹ رہے تھے، جن کو آج پل بھر کی رہائی سال کی آخری شام ، موسم سرما کی سر د ہوا اور میری تنہائی مجھ سے دلانے میں کامیاب ہو چکی تھیں۔ مگر صد شکریہ موسم سرما ہی کی سر د ہوا کا جس نے میری آنکھوں کے بند ٹوٹنے سے قبل ہی مجھے حال میں واپس کھینچ لیا تھا۔ اس وقت مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میں مدتوں کا مسافر ہوں جو راہ سفر پر چلتے چلتے نڈھال ہو چکا ہے۔ سچ ہے شفیق مہربان کی غیر موجودگی کا خلا وقت آج بھی پر نہیں کر سکا تھا اور نہ ہی کر سکتا تھا۔کچھ احساس، کچھ کردار کبھی مکمل نہیں ہوتے ۔داستان تمام ہو جاتی ہے ، الفاظ ختم ہو جاتے ہیں مگر ۔۔۔احساس بیان نہیں ہو پاتا، کردار مکمل نہیں ہو پاتا۔ مسافر منزل پر پہنچ جاتا ہے مگر مسافت تمام نہیں ہوتی۔ ہر لمحہ گزر جاتا ہے مگروقت پھر بھی نہیں کٹ پاتا۔ میری انتہا معلوم نہیں کب اور کہاں ہوگی، مگر مجھے یقین ہے وقت کی مسافت طے کرتے ہوئے مجھے ہر گھڑی آپ کی ۔۔۔ میرے والد آپ کی ضرورت رہے گی ۔
طالب دعا
س ن مخمور
امر تنہائی
سال 2006 کی آخری شام کی چند ساعتیں
میں کمرے کی کھلی کھڑکی کو بند کرنے کے لئے آگے بڑھا مگر میرے اور کھلی ہوئی کھڑکی کے درمیان پل بھر میں گزرے ہوئے محدود وقت کی لامحدود یادیں حائل ہو گئیں اور میں یادوں کی بھول بھلیاں میں ایسا بھٹکا کہ پل بھر کی مختصر ساعتوں میں سالوں پر محیط یادوں کے سفر پر نکل پڑا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی یادوں کے سمندر کنارے نرم اور گیلی مٹی پر قدم رکھتا گیا۔ وقت ایک مرتبہ پھر میری برداشت کا امتحان لے رہا تھا۔ ایسا امتحان جس میں ناکام ہونے ہی میں درحقیقت میری کامیابی تھی۔ روح جو برسوں سے بیقرار تھی، آنکھیں جو مدتوں سے صحرا بن چکی تھیں، میری ناکامی کی دعا کرنے میں مشغول ہو گئیں۔
میں اپنے ذہن اور دل کے منع کرنے کے باوجود اضطرابی حال میں یادوں کی کتاب کے اوراق پلٹتا گیا۔ یہاں تک کہ میری آنکھوں میں دھندلا بلکہ زندگی کی راہ پر سے اُڑتی ذمہ داریوں، پریشانیوں، فکروں کی دبیز گرد تلے چھپا ہوا نقش اُبھرنے لگا۔ مجھے اپنے سینے میں دھڑکن کا سفر تھمتا محسوس ہونے لگا۔ مدت گزر گئی تھی، میری آنکھوں کے پردے پر اس نقش کا عکس بن نہیں پایا تھا۔ مگر آج جانے کیوں میری نارسائی تمام ہو رہی تھی۔ میں ایک مرتبہ پھر اس دیار تلک پہنچنے میں کامیاب ہو چکا تھا جہاں جانے کے بعد مجھے اپنی واپسی قیامت سے کم نہیں لگتی تھی اور جہاں جانے کی خواہش دل میں ہو کر بھی میں کبھی رخت سفر نہیں باندھتا تھا، مگر آ ج معلوم نہیں کیوں اور کیسے میں اس سفر پر نکل پڑا اور لمحوں میں برسوں کا سفر طے کر گیا۔ میں یادوں کے سمندر میں ڈوب رہا تھا، اپنی خواہش، اپنی مرضی کے خلاف مگر اس حالت میں بھی اضطراب کی ہر سانس پر مجھے انجانی سی خوشی تھی۔ آخر میری مرضی ، میری خواہش دم توڑ گئی، میرا ضبط کمزور پڑ گیا اور وہ نقش اپنی مکمل آب و تاب کے ساتھ میری آنکھوں کے پردے پر جلوہ افروز ہو گیا۔
میں ابھی اس کو دیکھنے میں محو تھا کہ منظر بدلا اور دھند چھٹ گئی، دھوپ تیز دھوپ ۔۔۔ اسکول کی چھٹی کا وقت۔۔۔ اور پھر میری سماعت میں ٹن ٹن کی آواز گونج اٹھی۔۔۔۔ گھر جانے کی جلدی اور ان کا انتظار۔۔۔ کمر پر بستہ لادے دیوار کے سائے میں کبھی اُن کا انتظار کرتے وقت گزر جاتا یا کبھی انتظار اسکول میں گونجتی ٹن ٹن کے ساتھ ہی دم توڑ دیتا۔۔ کل وقت جتنی تیزی سے گزرا تھا آج اس سے کہیں زیادہ تیزی سے میری آنکھوں میں گزر رہا تھا۔ مگر اس کا گزرنا بے ربط تھا، اب کی بار منظر بدلا اور اس نے مجھے ان کے پاس جا لٹایا۔ سکون اور شوق اس وقت کتنا تھا۔ ان کے پاس لیٹنے کا، ان کی بات سننے کا، میری آنکھوں میں اب ستارے امڈ آئے تھے۔ وقت نے میری یہ حالت دیکھی تو ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو بدل لیا۔ اب کی بار ظالم وقت نے ان کا بیمار نقش میری آنکھوں میں ابھار دیا۔ میرا ضبط وہ وقت یاد کرکے مزید نڈھال ہو گیا۔ اسپتال کی مسلسل بیدار راتیں۔۔۔ معلوم نہیں نیند کس طرح میری آنکھوں سے دور ہو چکی تھی اس وقت، میں ابھی اس منظر میں کھو جاتا کہ وقت نے پھر کروٹ لی اور مجھے ان کی آخری ساعتوں پر اٹھا کر پٹخ دیا۔
میں ایک مرتبہ پھر اپنی آنکھوں میں آخری ملاقات کا منظر تازہ ہونے پر شدت غم سے نڈھال ہو گیا۔ میری آنکھوں میں ستاروں کی روشنی بڑھنے لگی ، عین ممکن تھا کہ میرے رخسار پر میری آنکھوں کے مسافر سفر شروع کر دیں کہ میرے کمرے کی کھلی کھڑکی سے آتی موسم سرما کی یخ بستہ ہوا نے میرے نڈھال ہوتے ضبط کو سہارا دیا اور میری آنکھوں میں اتری یادوں کے ہر احساس کو منجمد کر دیا۔ میرے اشک ایک مرتبہ پھر میری آنکھوں ہی میں دم توڑ گئے، گزرا وقت ایکبار پھر شکست کھا گیا۔ میں جھٹکے سے آگے بڑھا اور کمرے کی کھلی کھڑکی کے پاس جا کھڑا ہوا۔ دور دور تک زندگی کے کاموں میں الجھے کیڑے مکوڑوں کی مانند اپنی ضرورتوں، خواہشوں پر ناچتے لوگ نظر آ رہے تھے ، میں نے اپنی نگاہیں سڑکوں پرموجود اس ناختم ہونے والے ہجوم سے ہٹا لیں ، دور بہت دور بادلوں کے درمیان سورج اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا۔ میں کچھ دیر تک مرتے ہوئے سورج کو دیکھتا رہا، میری آنکھوں میں ایک مرتبہ پھر ستارے امڈ آئے تھے، دسمبر کی آخری شام کا سورج اپنی منزل کے بہت قریب تھااس کا اختتام زندگی ہی کی طرح تھا، آغاز مکمل آب وتاب کے ساتھ اور انتہا اپنا تمام اجالا سمیٹتے ہوئے۔ میری آنکھوں کے بند مسافروں کی دستک سے لرز اٹھے۔میں نے ایک مرتبہ پھر اپنی نگاہیں زندگی کی شاہراہ پر زندگی کے پیچھے بھاگتے ہوئے ان گنت انسانوں کی جانب گھما لیں۔ سرد ہوا کا ایک اور جھونکا کمرے کی کھلی کھڑکی سے داخل ہو گیا۔ محرومی اور ماضی کے احساسات کی حدت ایک بار پھر سرد پڑ گئی اور میرا جسم سرما کی سرد ہوا کی یخ بستہ احساس سے لپٹ گیا۔ میں نے ڈوبتے سورج پر ایک بھرپور نگاہ ڈالی اور کھڑکی کے پٹ بند کر کے پردہ گرا دیا۔
دنیا کی زندگی کا ایک اور سال تمام ہو نے کو تھا، اور میرا ان سے جدا ہوئے وقت میں مزید اضافے ہونے کو تھا۔ بچپن، لڑکپن ، جوانی اور بڑھاپا غرض عمر کے ہر حصے میں مجھ جیسے شخص کو ان کی ضرورت تھی اور ضرورت رہنی تھی، مگر قدرت کے فیصلے کے آگے مجبور۔۔۔۔ دماغ کے بند کمروں میں ان کے ساتھ گزرے وقت کے سائے برسوں سے قید کاٹ رہے تھے، جن کو آج پل بھر کی رہائی سال کی آخری شام ، موسم سرما کی سر د ہوا اور میری تنہائی مجھ سے دلانے میں کامیاب ہو چکی تھیں۔ مگر صد شکریہ موسم سرما ہی کی سر د ہوا کا جس نے میری آنکھوں کے بند ٹوٹنے سے قبل ہی مجھے حال میں واپس کھینچ لیا تھا۔ اس وقت مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میں مدتوں کا مسافر ہوں جو راہ سفر پر چلتے چلتے نڈھال ہو چکا ہے۔ سچ ہے شفیق مہربان کی غیر موجودگی کا خلا وقت آج بھی پر نہیں کر سکا تھا اور نہ ہی کر سکتا تھا۔کچھ احساس، کچھ کردار کبھی مکمل نہیں ہوتے ۔داستان تمام ہو جاتی ہے ، الفاظ ختم ہو جاتے ہیں مگر ۔۔۔احساس بیان نہیں ہو پاتا، کردار مکمل نہیں ہو پاتا۔ مسافر منزل پر پہنچ جاتا ہے مگر مسافت تمام نہیں ہوتی۔ ہر لمحہ گزر جاتا ہے مگروقت پھر بھی نہیں کٹ پاتا۔ میری انتہا معلوم نہیں کب اور کہاں ہوگی، مگر مجھے یقین ہے وقت کی مسافت طے کرتے ہوئے مجھے ہر گھڑی آپ کی ۔۔۔ میرے والد آپ کی ضرورت رہے گی ۔
طالب دعا
س ن مخمور
امر تنہائی