سانحہ راولپنڈی ؛ علاقائی امن کمیٹیاں تشکیل دیں - الطاف حسین

الف نظامی

لائبریرین
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے راولپنڈی میں پیش آنے والے واقعات پر دلی افسوس کااظہارکرتے ہوئے اپیل کی ہے کہ کسی واقعہ کی اطلاع ملنے پر فوری ردعمل کے بجائے اس کی تصدیق کرلی جائے۔
اپنے بیان میں انہوں نے کہاکہ پاکستان بہت ہی نازک صورتحال سے دوچار ہے اور دشمن ملک کوکمزورکرنے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کررہاہے ، ایسے وقت میں عوام کو جذبات کے بجائے ہوش مندی سے کام لینا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ:
شیعہ سنی اکابرین پر مبنی علاقائی امن کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔ یہ کمیٹیاں اپنے علاقے میں شرپسندوں پرنظررکھنے کے لئے ڈیوٹیاں دیں اورامن برقرار رکھیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ملی یکجہتی کونسل کے حوالے سے عرفان صدیقی کا ایک پرانا کالم جو اب بھی اہم ہے:
قاضی حسین احمد کی جگہ دورِ حاضر کے مدبر سیاستدان کا نام فرض کرلیں۔
محترم قاضی صاحب۔ مکرر عرض ہے!…..نقش خیال…عرفان صدیقی
.رمضان المبارک… رحمتوں‘ برکتوں‘ شفقتوں‘ مہربانیوں اور بخششوں کا مہینہ ‘ امیر المومنین سید نا علی المرتضیٰ کا یوم شہادت ‘ اور ایسی قتل وغارت گری۔ کم سے کم میری سمجھ سے ماوریٰ ہے کہ ہمیں کیا ہوگیا ہے۔ ہم کہ محسن انسانیت ‘ رحمتہ للعالمین کے امتی ہیں‘ ہم کہ آپ پر درود و سلام کی سوغاتیں بھیج کر روح و قلب کی آسودگی چاہتے ہیں ‘ ہم کہ قرآن و حدیث کی منور تعلیمات کو سرمایہ ایمان سمجھتے ہیں ‘ ہم کہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کو اپنی خوش بختی خیال کرتے ہیں ‘ ہم کہ ہر آن الله تعالیٰ سے اپنی اور اپنے اہل وعیال کی خیریت چاہتے ہیں‘ ہم کہ دنیا میں فوز و فلاح او رآخرت میں مغفرت کے آرزومند ہوتے ہیں‘ ہمیں یکایک کیا ہوجاتا ہے کہ سب کچھ پس پشت ڈال کر انسانی قتل پرآمادہ ہوجاتے ہیں۔ ہم اپنے دین کا یہ عظیم سبق بھی بھول جاتے ہیں کہ ایک انسان (چاہے وہ کوئی بھی ہو) کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے؟۔
یہ سلسلہ برس ہا برس سے جاری ہے اور ہم مداوا نہیں کرپارہے۔ کسی فرقے‘ کسی مسلک کی شخصیات محفوظ ہیں نہ ان کے اجتماعات نہ اُن کی عبادت گاہیں۔ کیسی کیسی ہستیاں اس آگ میں بھسم ہوگئیں۔ کیسے کیسے لو گ ہم سے چھین لئے گئے۔ ہر عہد کی حکو متیں بے بس نظر آئیں۔ نہ سب کچھ تلپٹ کردینے والے فوجی حکمران اسے روک پائے نہ عوام میں گہری جڑیں رکھنے والے جمہوری بندوبست۔ کبھی کبھی تو اس کی دھمک سے دماغ چٹخنے لگتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ ہم ایک قوم کی حیثیت سے اس قتل و غارتگری کو نکیل کیوں نہیں ڈال پارہے؟۔ دوسروں کی جانیں لینے کے لئے اپنے آپ کو باروود سے اڑا دینے کا جنون کیسے تخلیق پاتا ہے؟ ہم مل بیٹھ کر اس مرض کہن کے تمام پہلوؤں کا جائزہ کیوں نہیں لے پارہے؟ وہ اقدامات کیوں نہیں کرپارہے جو متشددانہ سوچ کو تحمل‘ برداشت اور برد باری میں بدل دیں؟۔
آج ایک بار پھر مجھے شدت سے احساس ہورہا ہے کہ کم از کم اس مرض کے حوالے سے اولین ذمہ داری علمائے کرام پر عائد ہوتی ہے۔ وہ معاملے کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے اپنی مسجدوں‘ اپنے مدرسوں‘ اپنے حجروں اور اپنی خانقاہوں سے نکلیں۔مسلک ‘ فرقے اور مکتب فکر کی دیواریں گراکے‘ اسلام کے وسیع دالان میں ایک جرگہ بٹھائیں۔ اپنے دلوں کو ہر نوع کی کدورت سے پاک کرکے ایسا لائحہ عمل تجویز کریں جو اس جوئے خوں کو لگام ڈال سکے۔یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ایسی ہر واردات کسی دوسرے مسلک کے کھاتے میں پڑجاتی ہے چاہے وہ اس کا ذمہ دار ہونہ ہو۔ یوں اسلام کے جمیل چہرے پہ بھی داغ پڑتے ہیں‘ علمائے کرام کی قبائیں اور عبائیں بھی تار تار ہوتی ہیں اور دینی مدارس بھی زد میں آتے ہیں۔ میں سازش کی کہانیوں پر زیادہ یقین نہیں رکھتا لیکن ابھی دو دن قبل ”وکی لیکس“ کی طرف سے جاری کردہ خفیہ امریکی دستاویزات سے منکشف ہوا ہے کہ خود امریکہ ہمارے ہاں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہے۔ ہمارے بہت سے بدخواہ کہیں لسانی‘ کہیں نسلی‘ کہیں فرقہ وارانہ آگ بھڑکاکر ہمیں کمزور کرنے میں لگے ہیں۔ لیکن اس کی آڑ میں ہمیں اس حقیقت کو پس پشت نہیں ڈال دینا چاہئے کہ خود ہمارے ہاں بھی بارود خانے موجود ہیں اور اسلام کے نام پر دوسروں کا لہو بہانے کی سوچ پوری طرح سرگرم عمل ہے۔
علمائے کرام کے ہاں احساس فکر مندی یقینا ہوگا کیوں کہ اصل نقصان انہی کی ولایت کو پہنچ رہا ہے۔ انفرادی طور پر اُن سے بات ہو تو یوں لگتا ہے جیسے اُن کا دل سوز درد مندی سے پگھل جانے کو ہے۔ وہ ایسی ہر واردات کی مذمت بھی کرتے ہیں اور گہرے رنج و غم کا اظہار بھی۔ لیکن پھراگلی موج خوں تک خاموشی چھا جاتی ہے۔
اس بات کو اب ڈیڑھ عشرے سے زیادہ کا وقت ہوچلا جب باہمی قتل و غارت گری اور فرقہ وارانہ منافرت کے مسئلے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے علمائے کرام سرجوڑ کر بیٹھے تھے۔تمام مسالک کے سرکردہ راہنماؤں نے ملی یکجہتی کونسل کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کا بنیادی مقصد فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور باہمی خیر سگالی تھا۔ دیوبندی‘ سنی‘ شیعہ اور اہل حدیث مسالک سے تعلق رکھنے والے علماء پر مشتمل اس نمائندہ کونسل کے پہلے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی تھے۔ا س کونسل نے سارے ملک کے دورے کئے ‘ علماء ایک دوسرے کے مدارس میں گئے ۔ ایک دوسرے کی تقریبات میں شرکت کی۔ اس تاثر کو شعوری طو رپر زائل کیا کہ وہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ اکابر کے اس طرز عمل نے نچلی سطح پر بھی انتہائی خوشگوار اثرات مرتب کئے۔پوری قوم نے علماء کی اس کاوش کو سراہا اور تحسین کی ۔ اس کونسل کی تشکیل میں حکومت پاکستان نے بھی اہم کردار ادا کیا اور ایران کی طرف سے بھی بھر پور تعاون سامنے آیا۔ کونسل عمومی طور پر فضا میں پھیلی کدورت کو کم کرنے میں خاصی کامیاب رہی لیکن وہ ایسے اقدامات کی دیر پا منصوبہ بندی نہ کرسکی جو منافرت کے سرچشموں کا کلی طو رپر خاتمہ کردیتے۔ مثال کے طور پر ایسی کتب کی نشاندہی جو نفرت انگیز مواد رکھتی ہیں‘ مختلف مسالک کے مدارس کے نصاب تعلیم میں ہم آہنگی لانا‘ اساتذہ اور طلبہ کا باہمی تبادلہ‘ ایسے لٹریچر کی تیاری جو دوریاں کم کرسکے اور ملی یکجہتی کونسل کے زعماء کی طرف سے خطبات جمعہ کے لئے راہنما نکات وغیرہ۔ اس کے باوجود اس تجربے کے مفید اور محسوس کئے جانے والے اثرات مرتب ہوئے۔ دسمبر 2003ء میں مولانا نورانی کے انتقال کے بعد قاضی حسین احمد نے کونسل کی راہنمائی سنبھالی ۔ قاضی صاحب اتحاد بین المسلمین کے زبردست داعی او رپرجوش مبلغ ہیں۔ انہوں نے پورے عزم کے ساتھ مشن جاری رکھنے کی کوشش کی لیکن اب صورت حال میں ایک جوہری تبدیلی آچکی ہے۔ہوا یہ کہ نائن الیون کے بعد پاکستان میں امریکہ کے خلاف جذبات کا ایک ابال اٹھا۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو ملک سے باہر تھے۔ قیادت کا خلا بھی تھا اور مذہبی جو ش وجذبہ کی اٹھان بھی۔ علمائے کرام کو ایک سنہری امکان کی جھلک دکھائی دی۔ انہوں نے متحدہ مجلس عمل کے نام سے ایک نیا سیاسی انتخابی اتحاد قائم کرلیا۔ جماعت اسلامی‘ جمعیت العلمائے اسلام (ف) ‘ جمعیت العلمائے اسلام (س)‘ جمعیت العلمائے پاکستان(نورانی) ‘ جمعیت اہل حدیث(ساجد میر) اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ ( ساجد نقوی) ‘ ایم ایم اے کا حصہ بن گئے۔ یہی جماعتیں ملی یکجہتی کونسل کے اجزائے ترکیبی بھی تھیں۔ انتخابی سیاست نے علمائے کرام کو ایک نئی راہ پر ڈال دیا او رملی یکجہتی کونسل راستوں کی دھول ہوگئی۔ ایم ایم اے پانچ برس صوبہ پختون خواہ کی حکمران رہی۔ مرکز میں اُسے توانا اپوزیشن کا درجہ حاصل تھا لیکن ملی یکجہتی کونسل کے اہداف و مقاصد اُس کی ترجیحات میں راہ نہ پاسکے۔
میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا اور آج بارد گر کہہ رہا ہوں کہ ملی یکجہتی کونسل کو پھر سے زندہ ومتحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ کام قاضی حسین احمد جیسا مردقلندر کرسکتا ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ وہ جماعت اسلامی کی عملی سیاست سے کنارہ کش رہتے ہوئے اپنی ساری توانائیاں اس کارخیر کے لئے مخصوص کردیں۔ الله نے انہیں بے پناہ صلاحیتیں بھی بخشی ہیں استعداد کار بھی اور جذبہ اخلاص بھی۔ جماعت کی سیاست کو محترم منور حسن اور ایم ایم اے کے احیاء کو مولانا فضل الرحمن پر چھوڑتے ہوئے وہ ملی یکجہتی کونسل کا پرچم اٹھا کر نکلیں او رآگے بڑھ کر اس تند ہوتی ہوئی موج خوں کا راستہ روکیں۔ ضروری نہیں کہ ہر شخض سیاست ہی کا ہو کے رہ جائے۔کرنے کے اور کام بھی ہیں اور یہ کام تو ایسا ہے جو قاضی صاحب جیسا کوئی مرد کار ہی کرسکتا ہے۔​
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
اس بارے جاوید چوہدری نے اچھا لکھا ہے۔ تمام تر مندرجات سے تو اتفاق نہیں لیکن اہم باتیں اچھی لگیں
Hum-ne-Agar-Ab-Bhi-Javed-Chaudhry.gif
 

الف نظامی

لائبریرین
عوام افواہوں پر کان نہ دھریں ، اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھیں : مولانا فضل الرحمن ، بحوالہ اے آر وائے نیوز
 

الف نظامی

لائبریرین
رہنما وفاق المدارس مولانا حنیف جالندھری نے کہا ہے کہ ہمیں حوصلے اور دلیل کے ذریعے ایکدوسرے کے موقف کو سننا چاہیے، سانحہ راولپنڈی کی پرزورمذمت کرتے ہیں اور متاثرین کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ’’کل تک‘‘ میں میزبان جاوید چوہدری سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ہمیں جب بھی کوئی فیصلہ کرنا ہو تو انصاف وقانون کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں، انسانی جان سب سے قیمتی ہے، میرے نزدیک اس کا حل یہ ہے کہ ہم :
  • دہشت گردوں کو دہشت گرد قرار دیں کسی کو چھتری فراہم نہ کریں۔
  • راولپنڈی کا سانحہ دہشت گردی کی کارروائی ہے، تمام علما بیٹھیں اور مسلک کی بجائے دین کے وکیل بنیں
  • اختلافی امور کو درس وتدریس کا حصہ بنائیں مگر عوامی اجتماعات کا نہیں
  • فتوے اور تبریٰ بھیجنا روک دیں ۔
مجلس وحدت المسلمین کے علامہ شفقت شیرازی نے کہا کہ ہمیں قانون مضبوط بنانا چاہیے۔

7111.jpg


ایک خاص گروہ نے پاکستان کا کوئی ادارہ اور طبقہ فکر نہیں چھوڑا، یہ ایسا گروہ ہے جو ہر جگہ گھس جاتا ہے اور آگ لگاتا ہے، لوگوں کا قتل عام کرتا ہے، سانحہ پنڈی حکومت اورامن قائم کرنے والوں کی ناکامی ہے،جوبھی مجرم ہے اسے سزادی جائے،تحقیقات میں تعاون کیلیے تیار ہیں۔
رہنماسنی اتحاد کونسل حامد رضا نے کہا کہ اس کے حل کا ایک ہی سادہ سا طریقہ ہے کہ حکومت اورعدلیہ اپنا صحیح کردار ادا کریں۔
صدر انجمن تاجران راولپنڈی شرجیل میر نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق ابھی تک چھ ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے، تمام مکاتب فکر کو بیٹھ کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ
  • کچھ عرصے کیلیے جلوسوں کو ملتوی کر دیں ، اجتماعات کو روکنا ہی ان مسائل کا حل ہے۔
  • سانحہ میں تین سے چارسو خاندان معاشی طور پر تباہ ہوئے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اس بارے جاوید چوہدری نے اچھا لکھا ہے۔ تمام تر مندرجات سے تو اتفاق نہیں لیکن اہم باتیں اچھی لگیں
یہی کالم تحریری شکل میں یہاں موجود ہے
اگر ممکن ہو تو تصویر ختم کر کے متن شامل کر دیں اورجن مندرجات سے اتفاق ہے وہ انڈر لائن کر دیں۔ بہت شکریہ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
متفق باتیں خط کشیدہ ہیں

قائد اعظم محمد علی جناح نے 1946ء کے الیکشن کے لیے ووٹ مانگنا شروع کیے‘ آپ نے پورے ہندوستان کا دورہ کیا‘ قائداعظم انتخابی مہم کے سلسلے میں کراچی بھی آئے‘ کراچی شہر ان دنوں فرقہ وارانہ تقسیم کا شکار تھا‘ مسلمان سنی اور شیعہ دو حصوں میں تقسیم تھے اور یہ دونوں کراچی کے ہندو سیٹھوں کی سازش کی وجہ سے غیر ضروری بحث میں الجھے ہوئے تھے‘ کراچی کے ہندو سیٹھ ہندوستان کی تقسیم نہیں چاہتے تھے‘ سیٹھوں نے مسلمانوں پر سرمایہ کاری کی‘ مسلمان پہلے کانگریسی مسلمان اور لیگی مسلمانوں میں تقسیم ہوئے اور پھر شیعہ اور سنی کی تفریق شروع ہو گئی۔

قائداعظم ان دنوں کراچی آئے اور مسلمانوں سے آل انڈیا مسلم لیگ کو سپورٹ کرنے کی اپیل کرنے لگے‘ مسلم لیگ کی ایک کھلی میٹنگ میں ایک صاحب کھڑے ہوئے اور قائداعظم سے کہا ’’ ہم آپ کو ووٹ نہیں دیں گے‘‘ قائداعظم نے پوچھا ’’کیوں؟‘‘ وہ بولے ’’ آپ شیعہ ہیں اور ہم سنی‘ ہم کسی شیعہ کو ووٹ نہیں دیں گے‘‘ قائداعظم ایک لمحے کے لیے مسکرائے اور اس کے بعد فرمایا ’’ آپ پھر یقیناً گاندھی کو ووٹ دیں گے‘ کیا گاندھی سنی ہیں؟‘‘ یہ بات سن کر حاضرین ہنس پڑے جب کہ وہ صاحب شرمندہ ہو گئے‘ قائداعظم شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے تھے ‘ دشمن تحریک پاکستان کے دوران قائداعظم کی کردار کشی کے لیے دوسرے الزامات کے ساتھ ساتھ ان کے مسلک کا مسئلہ بھی اٹھاتے رہتے تھے‘ قائداعظم ان الزامات پر ہنس پڑتے تھے کیونکہ وہ خود کو صرف مسلمان کہتے تھے‘ وہ تفرقہ بازی اور مذہبی تقسیم کو مسلمانوں کے لیے زہر قاتل سمجھتے تھے مگر قائداعظم کو کیا معلوم تھا ان کے بنائے ہوئے ملک میں ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب یہ زہر ملک کی تمام رگوں میں پھیل جائے گا‘ لوگ صرف مسلک کی بنیاد پر دوسروں کے گلے کاٹیں گے۔

آپ اگر سنی والدین کے گھر پیدا ہو گئے ہیں یا آپ کے والدین اہل تشیع ہیں تو آپ نام اور شناختی کارڈ کی بنیاد پر قاتل یا مقتول بن جائیں گے‘ ہم آج کے پاکستان کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ ملک ملک کم اور جنگل زیادہ دکھائی دیتا ہے‘ ایک ایسا جنگل جس میں آپ کی پیدائش یہ طے کرتی ہے آپ شکاری ہوں گے یا شکار۔ آپ شیر کی کھچار میں پیدا ہو گئے تو آپ جنگل کے بادشاہ ہیں اور آپ اگر ہرن ہیں تو پھر آپ بادشاہ سلامت کا نوالہ بنیں گے خواہ آپ کچھ بھی کر لیں‘ خواہ آپ جس قانون کا چاہیں سہارا لے لیں‘ دنیا کے کسی معاشرے‘ کسی ملک میں جب پیدائش انسان کا مستقبل طے کرنے لگے‘ یہ آپ کو مظلوم یا ظالم بنانے لگے اور آپ کا شناختی کارڈ یا نام آپ کی زندگی یا موت کا ضامن ہو جائے تو پھر اس ملک یا اس معاشرے کو معاشرہ یا ملک کہلانے کا حق نہیں رہتا اور ہم اس فیز میں داخل ہو چکے ہیں جس میں شیعہ پر صرف پیدائش کی وجہ سے کافر اور سنی پر صرف سنی ہونے کی وجہ سے قاتل کا الزام لگ جاتا ہے‘ جس میں چند تنگ نظر اور نام نہاد علماء کرام کی کتابیں اور تقریریں انسانیت‘ جذبات‘ قانون اور آئین کی جگہ لے چکی ہیں‘ جس میں کوئی نامعلوم شخص عالم کے بھیس میں نامعقول بات کرتا ہے اور پورے ملک میں آگ لگ جاتی ہے‘ جس میں کوئی ایسا ناعاقبت اندیش شخص جس کے پاس کسی سکہ بند مدرسے کی سند تک نہیں ہوتی وہ اپنے نام کے ساتھ مولانا‘ مفتی یا علامہ کا لاحقہ لگا کر کوئی زہریلی بات کر دیتا ہے اور ملک نفرت کی آگ میں جلنے لگتا ہے۔

یہ کتابیں کون لکھ رہا ہے‘ یہ شایع کہاں ہو رہی ہیں اور کیا ان پر کسی فرقے کے علماء کرام کو اتفاق بھی ہے؟ ہم لوگ یہ تحقیق کیے بغیر نفرت کا کاروبار شروع کر دیتے ہیں اور اسی طرح جو صاحب یہ سب کچھ فرما رہے ہیں کیا ان کی کوئی فقہی اور علمی حیثیت بھی ہے؟ ہم یہ دیکھنا اور سوچنا بھی گوارہ نہیں کرتے‘ صرف کسی شخص کے نام کے ساتھ فاروقی‘ صدیقی یا عثمانی اور دوسری طرف نقوی‘ شیرازی اور حسینی کافی ہو تا ہے‘ کیا یہ ملک اس لیے بنا تھا کہ ہم ایک دوسرے کا گلہ کاٹیں‘ ایک دوسرے کی مسجدوں اور امام بارگاہوں کی بے حرمتی کریں اور (نعوذ باللہ) قرآن مجید کو آگ لگا دیں‘ اگر یہ آزادی ہے تو پھر غلامی ہی ٹھیک تھی‘ ہم کم از کم اس غلامی میں ایک تو تھے‘ ہم سنی اور شیعہ کے بجائے مسلمان تو تھے۔

قوم نے 15 نومبر کو ٹیلی ویژن پرراولپنڈی کا سانحہ دیکھا تو اس کا سر شرم سے جھک گیا‘ جس ملک میں محرم اور ربیع الاول کے مہینے فوج کے بغیر نہ گزارے جا سکیں یا لوگوں کو جس ملک میں عبادت کے لیے رائفل کی ضرورت پڑ جائے‘ کیا اس ملک کے ٹوٹنے میں کوئی کسر رہ جاتی ہے؟ ہماری ریاست اگر دس محرم کے جلوس اور بارہ ربیع الاول کے اجتماعات کی حفاظت نہیں کر سکتی تو یہ امریکی‘ روسی اور بھارتی یلغار کیسے روکے گی؟ یہ طالبان کا مقابلہ کیسے کرے گی‘ کیا ہمیں مسجدوں اور امام بارگاہوں کو بچانے کے لیے بھی ڈرونز کی مدد لینا ہوگی‘ کیا ہمیں اس کے لیے بھی سی آئی اے اور پینٹا گان کی سپورٹ درکار ہو گی؟ خدا کی پناہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہر راولپنڈی میں درجن بھر افراد قتل کردیے گئے‘ ڈیڑھ سو دکانوں کو آگ لگا دی گئی‘ قرآن مجیدکے نسخے جل گئے‘ اور ریاست منہ دیکھتی رہ گئی‘ ریاست ہجوم کو قابو کر سکی اور نہ ہی حملہ آور کو روک سکی۔

حملہ آوروں نے پولیس کی رائفلیں چھین لیں ‘ کیا ہماری پولیس اس قدر کمزور ہے اور جو پولیس اپنی رائفلوں کی حفاظت نہیں کر سکتی وہ عام شہریوں کا خاک تحفظ کرے گی‘ حکومت مذہبی اشتعال روکنے کے لیے کرفیو لگانے پر مجبور ہو گئی‘ راولپنڈی کے شہری تین دن تک گھروں میں محصور رہے‘ چوتھے دن کرفیو اٹھایا گیا تو ہزاروں لوگ مسجد کے گرد جمع ہو گئے‘ فوج واپس آ گئی‘ کیا فوج کا یہ کام ہے؟ اور یہ فوج کب تک ہماری مسجدوں کی حفاظت کرے گی‘ ہمیں ماننا پڑے گا‘ اسلام کے نام پر بننے والا ملک آج اسلام ہی کے نام پرٹوٹ رہا ہے‘ ہم نے یہ ملک مذہبی آزادی کے لیے بنایا تھا لیکن آج ہمیں یہ ملک بچانے کے لیے مذہب اور آزادی دونوں کو پابند کرنا ہو گا‘ ہمیں مذہب کی حدود کا تعین بھی کرنا ہوگا اور ان حدوں کو نافذ بھی کرنا ہو گا ریاست کو فوراً چند بڑے فیصلے کرنا ہوں گے‘ ملک سے تمام متنازعہ کتابیں جمع کر لی جائیں‘ یہ کتابیں لائبریریوں تک سے اٹھا لی جائیں اور اس کے بعد ان کتابوں کی اشاعت‘ ان کا حوالہ دینا اور ان کی کاپی رکھنا سنگین جرم قرار دے دیا جائے اور جو شخص اس قانون کی خلاف ورزی کرے اس کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ قائم کیا جائے۔

ملک میں دس سال کے لیے مذہبی اجتماعات پر پابندی لگا دی جائے‘ کوئی مذہبی جلسہ ہونا چاہیے اور نہ ہی کوئی جلوس یا ریلی نکلنی چاہیے‘ مذہب سے متعلق تمام رسومات عبادت گاہوں کے اندر ادا کی جائیں‘ لاؤڈ اسپیکر پر پابندی لگا دی جائے‘ کوئی شخص لاؤڈ اسپیکر پر تقریر کر سکے گا اور نہ ہی خطبہ دے سکے ‘ شہر کی تمام مساجد کے لیے اذان اور نماز کے اوقات طے کر دیے جائیں‘ شہر کی تمام مساجد میں ایک ہی وقت پر اذان ہو تاہم نمازوں میں پانچ دس منٹ کا فرق رکھ دیا جائے تا کہ لوگوں کو سہولت ہو سکے‘ علماء کرام کی تقریروں کی کیسٹیں اور سی ڈیز پر بھی پابندی لگا دی جائے‘ آج سے بیس سال قبل اسپیشل برانچ اور سی آئی ڈی کے اہلکار مسجدوں اور امام بارگاہوں پر نظر رکھتے تھے‘ حکومت یہ بندوبست دوبارہ شروع کر دے‘ حکومت کو ایسے نام رکھنے پر بھی پابندی لگا دینی چاہیے جن سے کسی کے مسلک کا اندازہ ہوتا ہو‘ کون سنی ہے‘ کون شیعہ‘ کون بریلوی‘ کون وہابی اور کون دیوبندی اس کا اندازہ نام سے نہیں ہونا چاہیے‘ چھتوں پر مسالک کے جھنڈے لہرانے پر بھی پابندی لگا دی جائے اور جو اس کی خلاف ورزی کرے اس کے لیے سخت سزا تجویز کی جائے۔

مذہبی رہنما اور مدارس کے طلباء گاؤن اور پگڑی استعمال کر سکیں لیکن گاؤن اور پگڑی کا رنگ پورے ملک میں ایک ہونا چاہیے‘ پگڑی اور گاؤن سے کسی کے فرقے یا مسلک کا اندازہ نہیں ہونا چاہیے اور کسی مسجد یا مدرسے کا گیٹ بند نہیں ہوگا‘ ملک کے زیادہ تر مدارس اور مساجد کے سامنے بھاری بھرکم گیٹ لگے ہیں‘ یہ گیٹ سیکیورٹی کے نام پر بند رہتے ہیں‘ ان گیٹس کے دوسری طرف کیا ہو رہا ہے؟ وہاں کون کون لوگ موجود ہیں اور وہ کیا کر رہے ہیں‘ ریاست جانتی ہے اور نہ ہی اردگرد کے لوگ۔ یہ سلسلہ بھی بند ہونا چاہیے‘ مدارس کی نصابی کتابیں بھی حکومت کی سرپرستی میں شایع ہونی چاہئیں‘ مدارس میں کیا پڑھایا جاتا ہے‘ ریاست کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی‘ مساجد اور امام بارگاہوں کے اندر قائم چھوٹے مدارس کو بھی سسٹم کے اندر لایا جائے ‘ مسجد کے مدرسے کا باقاعدہ بورڈ ہو اور اس بورڈ میں دوسرے فرقوں کے لوگ بھی شامل ہوں اور ملک کی تمام مساجد اور امام بارگاہوں کو فوری طور پر رجسٹر کیا جائے اور حکومت کی اجازت کے بغیر مسجد بن سکے اور نہ ہی امام بارگاہ اور نہ ہی کسی عبادت گاہ میں حکومت کی اجازت کے بغیر امام‘ خطیب یا مؤذن مقرر ہو سکے‘ ہمارے ملک میں کسی بھی جگہ کوئی بھی عبادت گاہ بنا دی جاتی ہے اور ریاست کی ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں۔

یہ فیصلے انتہائی کٹھن بلکہ مشکل ہیں لیکن ہمیں یہ فیصلے کرنا ہوں گے‘ ہم نے اگر ان میں دیر کر دی تو پھر ہم یہ فیصلے کرنا بھی چاہیں گے تو بھی نہیں کر سکیں گے کیونکہ آگ ماچس کی تیلی یا موم بتی کے دھاگے تک ہو تو اسے ایک پھونک یا دامن کے ایک پلو سے بجھایا جا سکتا ہے لیکن یہ جب ماچس کی تیلی اور موم بتی کے دھاگے سے نکل جائے‘ یہ بھانبڑ بن جائے تو پھر سارا شہر مل کر بھی یہ آگ نہیں بجھا سکتا اور ہم ماچس کی جلتی ہوئی تیلی اور بھوسے کے ڈھیر کے درمیان کھڑے ہیں‘ ہم نے اگر اب بھی تیلی نہ بجھائی تو پھر ہمیں جلنے اور جل جل کر مرنے سے کوئی نہیں بچا سکے گا‘ ہم برباد ہو جائیں گے۔
 
Top