ملی یکجہتی کونسل کے حوالے سے عرفان صدیقی کا ایک پرانا کالم جو اب بھی اہم ہے:
قاضی حسین احمد کی جگہ دورِ حاضر کے مدبر سیاستدان کا نام فرض کرلیں۔
محترم قاضی صاحب۔ مکرر عرض ہے!…..نقش خیال…عرفان صدیقی
.رمضان المبارک… رحمتوں‘ برکتوں‘ شفقتوں‘ مہربانیوں اور بخششوں کا مہینہ ‘ امیر المومنین سید نا علی المرتضیٰ کا یوم شہادت ‘ اور ایسی قتل وغارت گری۔ کم سے کم میری سمجھ سے ماوریٰ ہے کہ ہمیں کیا ہوگیا ہے۔ ہم کہ محسن انسانیت ‘ رحمتہ للعالمین کے امتی ہیں‘ ہم کہ آپ پر درود و سلام کی سوغاتیں بھیج کر روح و قلب کی آسودگی چاہتے ہیں ‘ ہم کہ قرآن و حدیث کی منور تعلیمات کو سرمایہ ایمان سمجھتے ہیں ‘ ہم کہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کو اپنی خوش بختی خیال کرتے ہیں ‘ ہم کہ ہر آن الله تعالیٰ سے اپنی اور اپنے اہل وعیال کی خیریت چاہتے ہیں‘ ہم کہ دنیا میں فوز و فلاح او رآخرت میں مغفرت کے آرزومند ہوتے ہیں‘ ہمیں یکایک کیا ہوجاتا ہے کہ سب کچھ پس پشت ڈال کر انسانی قتل پرآمادہ ہوجاتے ہیں۔ ہم اپنے دین کا یہ عظیم سبق بھی بھول جاتے ہیں کہ ایک انسان (چاہے وہ کوئی بھی ہو) کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے؟۔
یہ سلسلہ برس ہا برس سے جاری ہے اور ہم مداوا نہیں کرپارہے۔ کسی فرقے‘ کسی مسلک کی شخصیات محفوظ ہیں نہ ان کے اجتماعات نہ اُن کی عبادت گاہیں۔ کیسی کیسی ہستیاں اس آگ میں بھسم ہوگئیں۔ کیسے کیسے لو گ ہم سے چھین لئے گئے۔ ہر عہد کی حکو متیں بے بس نظر آئیں۔ نہ سب کچھ تلپٹ کردینے والے فوجی حکمران اسے روک پائے نہ عوام میں گہری جڑیں رکھنے والے جمہوری بندوبست۔ کبھی کبھی تو اس کی دھمک سے دماغ چٹخنے لگتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ ہم ایک قوم کی حیثیت سے اس قتل و غارتگری کو نکیل کیوں نہیں ڈال پارہے؟۔ دوسروں کی جانیں لینے کے لئے اپنے آپ کو باروود سے اڑا دینے کا جنون کیسے تخلیق پاتا ہے؟ ہم مل بیٹھ کر اس مرض کہن کے تمام پہلوؤں کا جائزہ کیوں نہیں لے پارہے؟ وہ اقدامات کیوں نہیں کرپارہے جو متشددانہ سوچ کو تحمل‘ برداشت اور برد باری میں بدل دیں؟۔
آج ایک بار پھر مجھے شدت سے احساس ہورہا ہے کہ کم از کم اس مرض کے حوالے سے اولین ذمہ داری علمائے کرام پر عائد ہوتی ہے۔ وہ معاملے کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے اپنی مسجدوں‘ اپنے مدرسوں‘ اپنے حجروں اور اپنی خانقاہوں سے نکلیں۔مسلک ‘ فرقے اور مکتب فکر کی دیواریں گراکے‘ اسلام کے وسیع دالان میں ایک جرگہ بٹھائیں۔ اپنے دلوں کو ہر نوع کی کدورت سے پاک کرکے ایسا لائحہ عمل تجویز کریں جو اس جوئے خوں کو لگام ڈال سکے۔یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ایسی ہر واردات کسی دوسرے مسلک کے کھاتے میں پڑجاتی ہے چاہے وہ اس کا ذمہ دار ہونہ ہو۔ یوں اسلام کے جمیل چہرے پہ بھی داغ پڑتے ہیں‘ علمائے کرام کی قبائیں اور عبائیں بھی تار تار ہوتی ہیں اور دینی مدارس بھی زد میں آتے ہیں۔ میں سازش کی کہانیوں پر زیادہ یقین نہیں رکھتا لیکن ابھی دو دن قبل ”وکی لیکس“ کی طرف سے جاری کردہ خفیہ امریکی دستاویزات سے منکشف ہوا ہے کہ خود امریکہ ہمارے ہاں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہے۔ ہمارے بہت سے بدخواہ کہیں لسانی‘ کہیں نسلی‘ کہیں فرقہ وارانہ آگ بھڑکاکر ہمیں کمزور کرنے میں لگے ہیں۔ لیکن اس کی آڑ میں ہمیں اس حقیقت کو پس پشت نہیں ڈال دینا چاہئے کہ خود ہمارے ہاں بھی بارود خانے موجود ہیں اور اسلام کے نام پر دوسروں کا لہو بہانے کی سوچ پوری طرح سرگرم عمل ہے۔
علمائے کرام کے ہاں احساس فکر مندی یقینا ہوگا کیوں کہ اصل نقصان انہی کی ولایت کو پہنچ رہا ہے۔ انفرادی طور پر اُن سے بات ہو تو یوں لگتا ہے جیسے اُن کا دل سوز درد مندی سے پگھل جانے کو ہے۔ وہ ایسی ہر واردات کی مذمت بھی کرتے ہیں اور گہرے رنج و غم کا اظہار بھی۔ لیکن پھراگلی موج خوں تک خاموشی چھا جاتی ہے۔
اس بات کو اب ڈیڑھ عشرے سے زیادہ کا وقت ہوچلا جب باہمی قتل و غارت گری اور فرقہ وارانہ منافرت کے مسئلے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے علمائے کرام سرجوڑ کر بیٹھے تھے۔تمام مسالک کے سرکردہ راہنماؤں نے ملی یکجہتی کونسل کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کا بنیادی مقصد فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور باہمی خیر سگالی تھا۔ دیوبندی‘ سنی‘ شیعہ اور اہل حدیث مسالک سے تعلق رکھنے والے علماء پر مشتمل اس نمائندہ کونسل کے پہلے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی تھے۔ا س کونسل نے سارے ملک کے دورے کئے ‘ علماء ایک دوسرے کے مدارس میں گئے ۔ ایک دوسرے کی تقریبات میں شرکت کی۔ اس تاثر کو شعوری طو رپر زائل کیا کہ وہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ اکابر کے اس طرز عمل نے نچلی سطح پر بھی انتہائی خوشگوار اثرات مرتب کئے۔پوری قوم نے علماء کی اس کاوش کو سراہا اور تحسین کی ۔ اس کونسل کی تشکیل میں حکومت پاکستان نے بھی اہم کردار ادا کیا اور ایران کی طرف سے بھی بھر پور تعاون سامنے آیا۔ کونسل عمومی طور پر فضا میں پھیلی کدورت کو کم کرنے میں خاصی کامیاب رہی لیکن وہ ایسے اقدامات کی دیر پا منصوبہ بندی نہ کرسکی جو منافرت کے سرچشموں کا کلی طو رپر خاتمہ کردیتے۔ مثال کے طور پر ایسی کتب کی نشاندہی جو نفرت انگیز مواد رکھتی ہیں‘ مختلف مسالک کے مدارس کے نصاب تعلیم میں ہم آہنگی لانا‘ اساتذہ اور طلبہ کا باہمی تبادلہ‘ ایسے لٹریچر کی تیاری جو دوریاں کم کرسکے اور ملی یکجہتی کونسل کے زعماء کی طرف سے خطبات جمعہ کے لئے راہنما نکات وغیرہ۔ اس کے باوجود اس تجربے کے مفید اور محسوس کئے جانے والے اثرات مرتب ہوئے۔ دسمبر 2003ء میں مولانا نورانی کے انتقال کے بعد قاضی حسین احمد نے کونسل کی راہنمائی سنبھالی ۔ قاضی صاحب اتحاد بین المسلمین کے زبردست داعی او رپرجوش مبلغ ہیں۔ انہوں نے پورے عزم کے ساتھ مشن جاری رکھنے کی کوشش کی لیکن اب صورت حال میں ایک جوہری تبدیلی آچکی ہے۔ہوا یہ کہ نائن الیون کے بعد پاکستان میں امریکہ کے خلاف جذبات کا ایک ابال اٹھا۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو ملک سے باہر تھے۔ قیادت کا خلا بھی تھا اور مذہبی جو ش وجذبہ کی اٹھان بھی۔ علمائے کرام کو ایک سنہری امکان کی جھلک دکھائی دی۔ انہوں نے متحدہ مجلس عمل کے نام سے ایک نیا سیاسی انتخابی اتحاد قائم کرلیا۔ جماعت اسلامی‘ جمعیت العلمائے اسلام (ف) ‘ جمعیت العلمائے اسلام (س)‘ جمعیت العلمائے پاکستان(نورانی) ‘ جمعیت اہل حدیث(ساجد میر) اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ ( ساجد نقوی) ‘ ایم ایم اے کا حصہ بن گئے۔ یہی جماعتیں ملی یکجہتی کونسل کے اجزائے ترکیبی بھی تھیں۔ انتخابی سیاست نے علمائے کرام کو ایک نئی راہ پر ڈال دیا او رملی یکجہتی کونسل راستوں کی دھول ہوگئی۔ ایم ایم اے پانچ برس صوبہ پختون خواہ کی حکمران رہی۔ مرکز میں اُسے توانا اپوزیشن کا درجہ حاصل تھا لیکن ملی یکجہتی کونسل کے اہداف و مقاصد اُس کی ترجیحات میں راہ نہ پاسکے۔
میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا اور آج بارد گر کہہ رہا ہوں کہ ملی یکجہتی کونسل کو پھر سے زندہ ومتحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ کام قاضی حسین احمد جیسا مردقلندر کرسکتا ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ وہ جماعت اسلامی کی عملی سیاست سے کنارہ کش رہتے ہوئے اپنی ساری توانائیاں اس کارخیر کے لئے مخصوص کردیں۔ الله نے انہیں بے پناہ صلاحیتیں بھی بخشی ہیں استعداد کار بھی اور جذبہ اخلاص بھی۔ جماعت کی سیاست کو محترم منور حسن اور ایم ایم اے کے احیاء کو مولانا فضل الرحمن پر چھوڑتے ہوئے وہ ملی یکجہتی کونسل کا پرچم اٹھا کر نکلیں او رآگے بڑھ کر اس تند ہوتی ہوئی موج خوں کا راستہ روکیں۔ ضروری نہیں کہ ہر شخض سیاست ہی کا ہو کے رہ جائے۔کرنے کے اور کام بھی ہیں اور یہ کام تو ایسا ہے جو قاضی صاحب جیسا کوئی مرد کار ہی کرسکتا ہے۔