سانحہ سیالکوٹ 15 اگست 2010

ڈائری کا ایک ورق
15 اگست2010
ایک دن۔۔۔ ایسا دن جس نے ہماری خامیوں کا پردہ چاک کر دیا۔ ہماری قومی بے حسی آشکارہ کردی۔ہماری انتظامیہ کے دعوؤں کا پول کھل گیا۔۔۔
شہر اقبال میں آج جو سانحہ ہوا ، سوچتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے،قلم تھر تھر کانپتا ہے اور قرطاس آنسوؤں کی وجہ سے دھندلا چکا ہے۔ خون منجمد ہے اور ذہن ماؤف۔۔۔۔ لکھوں تو کیا کہ میں اپنے میں سکت نہیں پاتا۔۔
وہ میری قوم کے دو نوجوان 16 اور19 سالوں کے۔۔۔ ہائے ابھی انہوں نے دیکھا ہی کیا تھا؟ حافظ مغیث سجاد اور منیب سجاد کا دن دیہاڑے قتل۔۔۔ اور وہ بھی یوں برسرعام۔ اس شہر میں جو شاندار روایات کا امین تھا۔ وہ شہر جو اقبال کا تھا اور فیض کا بھی۔ ان نوجوانوں کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ ایک بے حس معاشرے کے افراد تھے۔ اور انہوں نے انسانی معاشرے میں جنم لیا۔
اس انسانی معاشرے میں جو شاید درندوں سے بھی بدتر ہے۔ سارادن ٹی وی پہ کلپس دکھائے جاتے رہے، اخبارات میں سرخیاں جمیں، لیکن کسی نے پرواہ نا کی۔ آخر چیف جسٹس نے ہاں افتخار محمد چودھری نے سوموٹو ایکشن لیاتو ساری مشینری خواب غفلت سے جاگ گئی۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف،وزیر اعظم گیلانی اور صدرپاکستان نے بھی نوٹس لے لیا۔ اور حکومت و اقتدار کے ان جغادریوں نے تعزیت کو انصاف جانا۔ یوں ان بچوں کے گھر تانتا بندھ گیا۔ نوازشریف آیا، رحمٰن ملک آیا، سلمان تاثیر آیا، سراج الحق آیا اور ظہیرالدین چودھری آیا۔ ابھی کئی وی وی آئی پی شخصیات آئیں گی لیکن 10 دن گذرجانے کے باوجود بھی کوئی کاروائی نہیں کی گئی سوائے ڈی آئی جی ذوالفقار چیمہ کے تبادلے اور ڈی پی او سیالکوٹ وقار چوہان کی نظر بندی کے۔
جب کہ موقعہ پر موجود پولیس اہلکاروں کے خلاف، جنہوں نے مشتعل ہجوم کا دل بڑھایا، کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔ میرا خیال ہے انتظامیہ اس سے بڑھ کر کوئی کاروائی کر ہی نہیں سکتی۔ اور شنید ہے کہ جو کاروائی ہوگی وہ عدالت ہی کرے گی۔
تحریر: 24 اگست 2010
نوٹ: تازہ ترین اطلاعات کے مطابق یکم اپریل 2016 عدالت نے سیالکوٹ میں مغیث شہید اور منیب شہید کو سرعام تشدد کرکے قتل کرنے والے 7 مجرموں کے ڈیتھ وارنٹ جاری کردئیے جس کےتحت مجرمان کو 8 اپریل کو تختہ دار پر لٹکایا جائے گا۔
 
Top