ایم اسلم اوڈ
محفلین
سیاچن میں پاکستانی فوج کا بریگیڈیئرہیڈ کوارٹر برفانی تودے تلے دب گیا۔ 125 سے زائد فوجی جوان و افسران اور درجن بھر سویلین ہزاروں لاکھوں من برف تلے زندہ درگور ہو گئے جنہیں نکالنے کے لئے طویل کوششیں جاری ہیں۔ ہماری تو دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے اور انہیں ان کے گھر والوں سے ملوائے لیکن اس سانحہ پرہم ایک سبق قوم و حکمرانوں کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم یہ سانحہ جانکاہ دیکھنے پر مجبور ہوئے… آج ہماری حکومت اور بیشتر سیاسی پارٹیاں بھارت سے تجارت و دوستی کے لئے بے تاب ہیں۔ ہمارے یہ فوجی اسی بھارت کی تو جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے یہاں موجود تھے کہ ان پر یہ حادثہ گزر گیا۔ بھارت نے 1984ء میں سیاچن گلیشئر پر چوروں کی طرح سردیوں کے موسم میں قبضہ کر لیا تھا اور پھر آج تک اس نے قبضہ نہیں چھوڑا، یہاں سالانہ اوسطاً سوا سو پاکستانی فوجی جام شہادت نوش کر جاتے ہیں۔ مالی بوجھ الگ ہے، بھارت کا نقصان اس سے تین گنا زیادہ ہے لیکن وہ قبضہ چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔ ہمیں 1999ء یاد ہے کہ اس علاقے میں ہمارے لوگوں نے کارگل کی ایک مقبوضہ چوٹی بھارت سے واپس لی تھی تو بھارت اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھا تھا کہ جب تک اس نے وہ ہم سے واپس نہ لے لی تھی۔ اگرچہ اس سے بھارت کو ہزاروں فوجی بھی مروانا پڑے تھے۔ لیکن وہ پیچھے ہرگز نہ ہٹا اس کا اربوں کا فوجی خرچ اس کے علاوہ تھا۔ یعنی بھارت کو کشمیر کہ جس کو متنازعہ مانتا ہے اور جس پر وہ قابض ہے کا ایک معمولی علاقہ ہمارے پاس دیکھنا گوارا نہیں تھا اور ہمارے حکمران یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرے گا اور کشمیر ہمیں دے دے گا۔ ہمارے یہ فوجی بھارت کی بدمعاشی اور جارحیت کے مقابلے میں شہید ہو رہے ہیں اگر ان کے ساتھ ہمدردی
بشکریہ۔۔۔۔۔ ہفت روزہ جرار
والسلام۔۔۔۔ علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
بشکریہ۔۔۔۔۔ ہفت روزہ جرار
والسلام۔۔۔۔ علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput