1۔ آل پارٹیز کانفرنس سانحہ ماڈل ٹاؤن اور ختم نبوت کے قانون میں تبدیلی کی مذموم حرکت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔
2۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن ریاستی دہشت گردی کا بدترین واقعہ ہے جس میں ن لیگ کی قیادت نوازشریف، شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ سمیت بیوروکریٹس، پولیس افسران اور حکومت پنجاب کے اہلکاران ملوث ہیں جنہوں نے عدالتی حکم پر لگائے جانے والے بیریئر ہٹانے کی آڑ میں ذاتی اور سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے ماڈل ٹاؤن میں100 افراد کو گولیوں سے زخمی کیا گیا، جن میں سے 14 افراد شہید ہو ئے۔
3۔ ختم نبوت کے حلف نامہ میں تبدیلی اور قوانین کو ختم کرنا کروڑوں مسلمانوں کی ایمانی اساس پر حملہ ہے بلکہ یہ آئین پاکستان پر بھی حملہ ہے، کیونکہ یہ مسئلہ آئین پاکستان کی رو سے ہمیشہ کیلئے حل ہو چکا تھا، نواز شریف اور ن لیگ بطور جماعت اس قانونی دہشتگردی میں براہ راست ملوث ہیں اور ایمان کی بنیادی اساس پر حملہ کے ماسٹر مائنڈ تاحال منظر عام پر نہیں لائے گئے اور نہ ہی اصل ذمہ داروں کو کوئی سزا ملی۔ ایمان کی بنیادی اساس پر حملہ کے بعد ن لیگ اقتدار پر مسلط رہنے کا جواز کھو چکی ہے جب تک ختم نبوت کے قانون کو ختم کرنے کی مذموم حرکت میں ملوث اصل ذمہ داروں کو سزائیں نہیں ملتیں اس وقت تک یہ تنازع رہے گا، اے پی سی مطالبہ کرتی ہے کہ ذمہ داروں کو کڑی سزا دی جائے۔
4۔ اے پی سی اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ 17 جون 2014 ء کے دن ماڈل ٹاؤن میں جن افراد کو شہید یا زخمی کیا گیا وہ صرف پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان ہی نہیں بلکہ ریاست پاکستان کے شہری تھے جن کے انصاف کیلئے اجتماعی جدوجہد کرنا اے پی سی میں شریک تمام جماعتوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور اے پی سی اس سلسلے میں آئندہ پوری جدوجہد کو Own کرتی ہے، مزید یہ بھی سمجھتی ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے معاملے میں انصاف کی فراہمی قومی سطح پر نظام عدل کے نفاذ اور قانون کی بالا دستی کیلئے سنگ میل ثابت ہوگی۔
5۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے مظلوم ورثاء ساڑھے تین سال کی طویل قانونی جدوجہد کے بعد صرف جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ حاصل کر پائے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ نواز شریف، شہباز شریف اور سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث ملزمان کے برسراقتدار رہتے ہوئے صاف و شفاف تحقیقات، ٹرائل اورحصول انصاف ناممکن ہے، 125 پولیس افسران کے سمن ہونے کے باوجود ایک بھی ملزم کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ یہاں تک کہ قتل عام کا منصوبہ بنانے والے حکومتی لیڈرز اور بیوروکریٹس میں سے بھی کسی ایک کو طلب نہیں کیا گیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حکومت انصاف کی فراہمی میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔
6۔ اے پی سی مطالبہ کرتی ہے کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن نے شہباز شریف، رانا ثناء اللہ کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قتل عام اور اس قتل عام کی منصوبہ بندی کا ذمہ دار ٹھہرا دیا ہے لہٰذا وہ اورسانحہ میں ملوث ان کے دیگرحکومتی حواری، جملہ شریک ملزمان اور بیورو کریٹس 7 جنوری 2018 ء سے پہلے مستعفی ہو جائیں۔ اے پی سی متفقہ طور پر31 دسمبر کی ڈیڈ لائن میں7 جنوری 2018ء تک کی توسیع کرتی ہے۔ اگر قتل عام کے ملزمان کے 7 جنوری تک استعفے نہ آئے تو سٹیرنگ کمیٹی اسی دن 7جنوری کو اجلاس منعقد کرے گی اور آئندہ کے احتجاجی لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔
7۔ اے پی سی تمام صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ سے مطالبہ کرتی ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قتل عام میں ملوث شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے استعفوں کے مطالبہ پر مبنی قراردادیں منظور کروائیں۔
8۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی 2 ایف آئی آرز درج ہیں اور پنجاب حکومت کی جانب سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی دو جے آئی ٹیز بنائی گئی تھیں، ان جے آئی ٹیز میں شہداء کے ورثاء اور زخمیوں میں سے کسی کی گواہی ریکارڈ نہیں کی جا سکی یعنی مدعیان مقدمہ کی شہادت تاحال کسی جے آئی ٹی کے ریکارڈ پر نہیں ہے۔ فیئر ٹرائل کیلئے مضروبین، متاثرین اور مدعیان مقدمہ کی شہادت ریکارڈ پر لانا قانون کا ناگزیر تقاضا ہے۔ لہذا اے پی سی چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان سے درخواست کرتی ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ایک اذیت ناک انسانی المیہ ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انسانیت کے خلاف، سٹیٹ کے خلاف اور پبلک کے خلاف سنگین جرم پر سووموٹو ایکشن لیتے ہوئے قتل انسانی کے اس سانحہ کی صحیح اور مکمل تفتیش کیلئے غیر جانبدار جے آئی ٹی کی تشکیل کا حکم دیں جس کی مانیٹرنگ سپریم کورٹ کاایک معزز جج خود کرے۔
9۔ اے پی سی مطالبہ کرتی ہے کہ کسی اندرونی، بیرونی دباؤ کے تحت سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزمان اور قومی دولت لوٹنے والے شریف خاندان کو کسی قسم کا کوئی این آر او نہ دیا جائے، کوئی ماورائے قانون ریلیف دیا گیا تو قوم اسے ہر گز قبول نہیں کرے گی۔
10۔ اے پی سی نے مقرر کی گئی ڈیڈ لائن پر آئندہ کے لائحہ عمل کے اعلان کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو اے پی سی کی سٹیرنگ کمیٹی کہلائے گی، سٹیرنگ کمیٹی ہنگامی صورتحال میں فیصلے کرنے کی مجاز ہو گی۔ سٹیرنگ کمیٹی کے ممبران درج ذیل ہوں گے1۔ پاکستان پیپلز پارٹی ( قمر الزمان کائرہ، سردار لطیف خان کھوسہ)، تحریک انصاف (شفقت محمود، عبدالعلیم خان)، عوامی مسلم لیگ (شیخ رشید)، پاکستان مسلم لیگ ق (سینیٹر کامل علی آغا)، جماعت اسلامی (لیاقت بلوچ)، مجلس وحدت المسلمین (ناصر شیرازی)، پاک سرزمین پارٹی (رضا ہارون)، مسلم کانفرنس (سردار عتیق احمد خان)، سنی اتحاد کونسل (صاحبزادہ حامد رضا)، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی (سید احسان شاہ)۔
میاں منظور احمد وٹو، جہانگیر ترین اور خرم نواز گنڈاپور سٹیرنگ کمیٹی کے کوآرڈینیٹر ہونگے۔