ساگر حیدر عباسی

عاجل ہے انسان اپنی فطرت میں
مضطر ہےیہ دنیا کی الفت میں

بھولا بیٹھا ہے خالق کو اپنے
سکھ ڈھونڈے یہ دنیا کی راحت میں

یہ حاصل فانی دنیا سے ہیکہ
ہر کوئی ڈوبا ہےیہ حیرت میں

خود کو سچا کہنا اور چپ رہنا
ہر اک غلطی دوجے کی چاہت میں

اے نا داں تو غافل ہے عاجز سے
خامی ہے یہ بھی تیری عادت میں

قدرت کے مخزن میں ہے سب کچھ گر
خوبی ہو شامل تیری عِصمت میں

تجھکو اک دن یہ دفنا جاہیں گے
نابن غافل تو ان کی صحبت میں​
 
Top