سایۂ نخلِ ثمر بار نہیں آیا پھر

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
احبابِ کرام ! دس پندرہ پرانی غزلیں اور نظمیں اور نکل آئی ہیں اور ٹائپ بھی ہوگئی ہیں ۔ ان میں سےکچھ چنیدہ غزلیں اور نظمیں آئندہ کچھ دنوں میں آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ ہے ۔


سایۂ نخلِ ثمر بار نہیں آیا پھر
گھر سے نکلے تو چمن زار نہیں آیا پھر

پھر مجھے خاکِ جنوں لے کے پھری دشت بہ دشت
وہ ترا شہرِ خوش آثار نہیں آیا پھر

تم نے تو دام لگا کر یونہی بس چھوڑ دیا
میرے خوابوں کا خریدار نہیں آیا پھر

بجھ گئی جلتی ہوئی دھوپ تو ہمسایوں کے بیچ
قضیۂ سایہ ٔ دیوار نہیں آیا پھر

جانے کیا شہر کا رنگ ہے کیا عالم ہے؟
آج دروازے پر اخبار نہیں آیا پھر

سلسلہ اُن سے تکلم کا جو ٹوٹا تو ظہیرؔ
بزم میں تشنۂ اظہار نہیں آیا پھر


ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۸​
 
بجھ گئی جلتی ہوئی دھوپ تو ہمسایوں کے بیچ
قضیۂ سایہ ٔ دیوار نہیں آیا پھر

سلسلہ اُن سے تکلم کا جو ٹوٹا تو ظہیرؔ
بزم میں تشنۂ اظہار نہیں آیا پھر

بہت خوب ظہیر بھائی۔

ان میں سےکچھ چنیدہ غزلیں اور نظمیں آئندہ کچھ دنوں میں آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ ہے ۔
ہمیں تو سب کا انتظار رہے گا۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب ظہیر بھائی۔
ہمیں تو سب کا انتظار رہے گا۔ :)

نوازش تابش بھائی !! بہت بہت شکریہ قدر افزائی کے لئے!!
سرِ تسلیم خم ہے ۔ان شاءاللہ جلد جلد لگانے کی کوشش کروں گا ۔
اور ویسے بھی اب آپ ڈی ایس پی بن گئے ہیں تو آپ کے حکم سے سرتابی ممکن ہی نہیں ۔ :):):)
 
Top