سبھی حالات کو اپنے بدلنا چاہتا ہوں میں: غزل برائے اصلاح

الف عین
----------------
افاعیل مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
-----------------
وساوس کو سدا دل سے کچلنا چاہتا ہوں میں
نفس کی اس گراوٹ سے نکلنا چاہتا ہوں میں
---------------------
تبھی حالات بدلیں گے ،اگر میں خودکو بدلوں گا
سبھی حالات کو اپنے بدلنا چاہتا ہوں میں
-----------------
خدا کی شان دیکھوں میں حدودِ جسم سے باہر
حدودِ زیست سے باہر نکلنا چاہتا ہوں میں
---------------
بدل جاتے ہیں اپنے بھی ، بُرے حالات ہوں جب تو
زمانے کی روایت کو بدلنا چاہتا ہوں میں
-------------------------
انہیں جذبات میں رہ کر مجھے جینا ہے دنیا میں
انہیں جذبوں میں رہ کر ہی بہلنا چاہتا ہوں میں
---------------
تمہاری آنکھ سے آنسو چھلکتے کیوں نہیں ارشد
محبّت میں خدا کی اب مچلنا چاہتا ہوں میں
--------------------------
 
چند مزید اشعار
------------
میں دنیا کی محبّت میں پھسلتا جا رہا ہوں کیوں
خدا مجھ کو نکالے گا نکلنا چاہتا ہوں میں
---------------
خدا سے دور کرتے ہیں یہ آ کر وسوسے دل میں
بُرے جذبات کو دل سے کچلنا چاہتا ہوں میں
-------------------
کفِ افسوس رب سے دور ہوتا جا رہا ہوں میں
مجھے احساس ہے تب ہی بدلنا چاہتا ہوں میں
---------------------
جہاں سے دور رہنا بھی نہیں آساں زمانے میں
یہ دلدل ہے کسی صورت نکلنا چاہتا ہوں میں
----------------------
 

الف عین

لائبریرین
وساوس کو سدا دل سے کچلنا چاہتا ہوں میں
نفس کی اس گراوٹ سے نکلنا چاہتا ہوں میں
--------------------- نفس ف مفتوح نَ فَ س تو سانس کے معنی میں ہے، شاید نفس، ف ساکن، کہنا چاہتے ہیں! گراوٹ سے نکلنا بھی محاورہ نہیں ۔ گناہوں کے گڑھے سے ممکن ہے

تبھی حالات بدلیں گے ،اگر میں خودکو بدلوں گا
سبھی حالات کو اپنے بدلنا چاہتا ہوں میں
----------------- پہلا مصرع اچھا ہے لیکن دوسرا اس سے غیر متعلق لگتا ہے

خدا کی شان دیکھوں میں حدودِ جسم سے باہر
حدودِ زیست سے باہر نکلنا چاہتا ہوں میں
--------------- دونوں مصرعوں میں حدود لفظ اچھا نہیں
نکل کر جسم سے باہر میں رب کی شان دیکھوں گا
یا کچھ اس طرح کا مصرع بہتر ہو گا

بدل جاتے ہیں اپنے بھی ، بُرے حالات ہوں جب تو
زمانے کی روایت کو بدلنا چاہتا ہوں میں
------------------------- پہلے مصرع کا ربط دوسرے سے نہیں بن رہا، دوسرا مصرع اچھا اور رواں ہے

انہیں جذبات میں رہ کر مجھے جینا ہے دنیا میں
انہیں جذبوں میں رہ کر ہی بہلنا چاہتا ہوں میں
--------------- جذبات میں رہنا؟

تمہاری آنکھ سے آنسو چھلکتے کیوں نہیں ارشد
محبّت میں خدا کی اب مچلنا چاہتا ہوں میں
--------- مجلنے کا عمل یا تو ضد میں بچوں کا عمل ہوتا ہے یا بڑے درد کی شدت میں مچلتے ہیں، محبت میں مچلنا سمجھ میں نہیں آیا

میں دنیا کی محبّت میں پھسلتا جا رہا ہوں کیوں
خدا مجھ کو نکالے گا نکلنا چاہتا ہوں میں
--------------- یہاں بھی ربط میں کمی ہے، پہلے مصرع میں سوال ہے لیکن اس کا جواب دوسرے میں نہیں

خدا سے دور کرتے ہیں یہ آ کر وسوسے دل میں
بُرے جذبات کو دل سے کچلنا چاہتا ہوں میں
------------------- کس کو دور کرتے ہیں وسوسے؟ 'آ کر وسوسے دل میں' بہتر ہو گا یا 'دل میں وسوسے آ کر' ؟ پھر یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ انہیں کو برے جذبات کہا جا رہا ہے یا کچھ اور جذبات بھی ہیں؟

کفِ افسوس رب سے دور ہوتا جا رہا ہوں میں
مجھے احساس ہے تب ہی بدلنا چاہتا ہوں میں
--------------------- کف افسوس ملنا محاورہ ہے
دوسرا مصرع رواں بھی نہیں' تب ہی' کے باعث

جہاں سے دور رہنا بھی نہیں آساں زمانے میں
یہ دلدل ہے کسی صورت نکلنا چاہتا ہوں میں
-------------- جہاں مراد دنیا یا where؟
مختصر یہ کہ مجھے ایک شعر بھی ایسا نہیں لگا جس میں واضح ربط ہو، خیال کے لحاظ سے۔ انفرادی طور پر سارے مصرعے درست ہیں ایک دو اغلاط کو چھوڑ کر، بھرتی کے الفاظ سے بھی بچنے کی کوشش کی گئی ہے. ایسا لگتا ہے ۔ مگر مجموعی طور پر کوئی درست شعر نہیں بن سکا ہے
 
الف عین-----استادِ محترم اشعار زیادہ ہیں ان میں سے جو نکالنا چاہیں ۔ ان کی نشاندہی کردیں۔
------------------
دوبارا
--------------
کروں کیسے وساوس کو کچلنا چاہتا ہوں میں
گناہوں کے گھڑے سے بھی نکلنا چاہتا ہوں میں
-------------------
تبھی حالات بدلیں گے اگر میں خود بھی بدلوں گا
بُرائی کو بھی نیکی سے بدلنا چاہتا ہوں میں
---------------
نکل کر جسم سے باہر خدا کی شان دیکھوں گا
حدودِ زیست سے باہر نکلنا چاہتا ہوں میں
------------------------------
بُرے حالات میں سب ہی نگاہیں پھیر لیتے ہیں
زمانے کی روایت کو بدلنا چاہتا ہوں میں
---------------------
مجھے جینا ہے دنیا میں سہارا بن کے لوگوں کا
انہیں کاموں میں رہ کر بہلنا چاہتا ہوں میں
----------------
محبّت کو خدا کی اب مجھے دل میں بسانا ہے
بُرے لوگوں کی محفل سے نکلنا چاہتاہوں میں
------------------
بُرا کہہ دے اگر کوئی بہت مشکل ہے چُپ رہنا
کسی کی سخت باتوں کو نگلنا چاہتا ہوں میں
----------------------
بہت مشکل ہے دنیا میں رہوں میں دور دنیا سے
یہ دلدل ہے کسی صورت نکلنا چاہتا ہوں میں
--------------------
زمانے کی محبّت میں بہک جانا نہیں اچھا
یہ الفت خام ہے جس نے نکلنا چاہتا ہوں میں
------------------------
خدا سے دور کرتے ہیں ہمیں یہ وسوسے آ کر
وساوس جو بھی آتے ہیں کچلنا چاہتا ہوں میں
---------------------
کفِ افسوس ملتا ہوں خدا سے دور ہوں کیوں میں
خدا سے دور ہونے کو بدلنا چاہتا ہوں میں
----------------
تمہاری آنکھ سے آنسو چھلکتے کیوں نہیں ارشد
محبّت میں خدا کی اب پگھلنا چاہتا ہوں میں
-------------------
---------------------
 

الف عین

لائبریرین
نہیں بھائی ارشد، اب بھی دو لختی کا مسئلہ ہے۔ سبھی مصرعے تقریباً درست ہیں لیکن ربط نہیں بنتا۔ اب کیونکہ تم اوزان پر قدرت رکھنے لگے ہو، اس لیے اب تخیل پر دھیان دو۔ ورنہ تک بندی کے زمرے میں آ جائیں گے اشعار
 

الف عین

لائبریرین
کروں کیسے وساوس کو کچلنا چاہتا ہوں میں
گناہوں کے گھڑے سے بھی نکلنا چاہتا ہوں میں
------------------- کروں کیسے کا ٹکڑا گڑبڑ پیدا کر رہا ہے
گناہوں کے گڑھے میں یا گھڑے میں، میری معلومات کے مطابق محاورہ تو گڑھے کا ہے

تبھی حالات بدلیں گے اگر میں خود بھی بدلوں گا
بُرائی کو بھی نیکی سے بدلنا چاہتا ہوں میں
--------------- دو لخت

نکل کر جسم سے باہر خدا کی شان دیکھوں گا
حدودِ زیست سے باہر نکلنا چاہتا ہوں میں
------------------------------ خدا کی شان کیا ویسے ہی نظر نہیں آتی؟

بُرے حالات میں سب ہی نگاہیں پھیر لیتے ہیں
زمانے کی روایت کو بدلنا چاہتا ہوں میں
--------------------- 'اس' روایت کہنا ضروری ہے ربط کے لیے

مجھے جینا ہے دنیا میں سہارا بن کے لوگوں کا
انہیں کاموں میں رہ کر بہلنا چاہتا ہوں میں
---------------- شعر قلمزد

محبّت کو خدا کی اب مجھے دل میں بسانا ہے
بُرے لوگوں کی محفل سے نکلنا چاہتاہوں میں
------------------ دو لخت

بُرا کہہ دے اگر کوئی بہت مشکل ہے چُپ رہنا
کسی کی سخت باتوں کو نگلنا چاہتا ہوں میں
---------------------- قلمزد

بہت مشکل ہے دنیا میں رہوں میں دور دنیا سے
یہ دلدل ہے کسی صورت نکلنا چاہتا ہوں میں
------------------- درست
-
زمانے کی محبّت میں بہک جانا نہیں اچھا
یہ الفت خام ہے جس نے نکلنا چاہتا ہوں میں
------------------------ سمجھ نہیں سکا. نکال ہی دو

خدا سے دور کرتے ہیں ہمیں یہ وسوسے آ کر
وساوس جو بھی آتے ہیں کچلنا چاہتا ہوں میں
--------------------- اس کو بھی قلمزد

کفِ افسوس ملتا ہوں خدا سے دور ہوں کیوں میں
خدا سے دور ہونے کو بدلنا چاہتا ہوں میں
----------------دوسرا مصرع یوں بہتر ہو گا
اسی دوری کی حالت کو بدلنا .....

تمہاری آنکھ سے آنسو چھلکتے کیوں نہیں ارشد
محبّت میں خدا کی اب پگھلنا چاہتا ہوں میں
------ دو لخت، شتر گربہ بھی ہے
 
Top