ہادیہ
محفلین
سب دیکھتے تھے اور کوئی سوچتا نہ تھا
جیسے یہ کوئی کھیل تھا اک واقعہ نہ تھا
لکھتے بیاض وقت پر ہم کیا تاثرات
سب کچھ تھا درج اور کوئی حاشیہ نہ تھا
آپس کی ایک بات تھی' دونوں کے درمیاں
اے اہل شہر آپ کا یہ مسئلہ نہ تھا
تیری گلی میں گئے تھے بس تجھ کو دیکھنے
اس کے سوا ہمارا کوئی مدعا نہ تھا
تھے ثبت حکم ہجر پر اس کے بھی دستخط
تقدیر ہی کا لکھا ہوا فیصلہ نہ تھا
اک سمت پاس عشق کا تھا اک سمت اپنا مان
کیسے گریز کرتے کوئی راستہ نہ تھا
امجد یہ اقتدار کا حلقہ عجیب ہے
چاروں طرف تھے عکس کوئی آئینہ نہ تھا