الف عین
ڈاکٹر عظیم سہارنپوری
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع؛راحل؛
-----------
فاعِلن فاعِلن فاعِلن فاعِلن
---------
سب زمانے کے ہم ہیں ستائے ہوئے
غم ہزاروں ہیں دل میں چھپائے ہوئے
----------
دل محبّت سے اپنا ہے بھر سا گیا
ہم جفاؤں کے چرکے ہیں کھائے ہوئے
----------
آج مغرب سے نکلا ہے سورج یہ کیا
وہ ہمارے ہیں گھر میں جو آئے ہوئے
---------
بات کوئی تو ہے ان کے دل میں چھپی
غم کے بادل ہیں چہرے پہ چھائے ہوئے
------
خواب میں ان کو دیکھا ہے کل ہی ابھی
مجھ کو پہلو میں اپنے سلائے ہوئے
---------
خُو جفاؤں کی ہرگز نہ چھوڑیں گے وہ
آس پھر بھی ہیں اُن سے لگائے ہوئے
-----------
اُن کو احساس اپنی جفا کا ہوا
آج آئے ہیں سر کو جھکائے ہوئے
---------
اُن میں ہمّت نہیں ، اب وہ بولیں گے کیا
منہ پہ بیٹھے ہیں تالا لگائے ہوئے
-----------
تجھ کو ارشد وفا کا صلہ یہ ملا
پاس تیرے ہیں گھونگھٹ میں آئے ہوئے
-----------
 

الف عین

لائبریرین
سب زمانہ؟
م پہ تالہ لگائے؟ شعری اظہار نہیں، مزاحیہ میں گوارا بلکہ پسندیدہ ہے۔
منہ پہ گھونگھت سے کیا جفا سے شرمساری کا اظہار ہوتا ہے؟
پہلو میں سلانے سے ابتذال نہیں لگتا؟
اس قسم کے سوالات اٹھے۔ شاید آپ نے خود دوبارہ اسے نہیں دیکھا!
 
سب زمانے کے ہم ہیں ستائے ہوئے
کی جگہ
اک زمانے۔۔۔۔۔۔۔۔


بات کوئی تو ہے ان کے دل میں چھپی
کی جگہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں چبھی

ویسے دوسرے مصرعےمیں بات مکمل کرنے کے لئےجو کی ضرورت بھی محسوس ہو رہی ہے مجھے

خو جفاؤں کی ہر گز نہ چھوڑیں گے وہ
آس پھر بھی ہیں ان سے لگائے ہوئے

آس کون لگائے ہوئے ہیں


تجھ کو ارشد وفا کا صلہ یہ ملا
پاس تیرے ہیں گھونگھٹ میں آئے ہوے

یہاں بھی وہی کمی ہے

کون گھونگٹ میں آئے

دوسری بات پاس کی جگہ سامنے بھی آئیں تو گھونگٹ میں آئیں جیسا کچھ لائیں
 
الف عین
ڈاکٹر عظیم سہارنپوری
---------
(اصلاح )
۔۔۔۔۔۔۔۔
خو جفاؤں کی ہرگز نہ چھوڑیں گے وہ
آس ہم ہیں انہیں سے لگائے ہوئے
----------یا
ہم امیدیں ہیں جن سے لگائے ہوئے
-------------
اُن میں لب کھولنے کی بھی ہمّت نہیں
تب ہی بیٹھے ہیں نظریں جھکائے ہوئے
-----------یا
تب ہی آنکھوں میں آنسو ہیں آئے ہوئے
------------
تجھ کو ارشد وفا کا صلہ یہ ملا
آج بن کر وہ تیرے ہیں آئے ہوئے
------------
 

الف عین

لائبریرین
الف عین
ڈاکٹر عظیم سہارنپوری
---------
(اصلاح )
۔۔۔۔۔۔۔۔
خو جفاؤں کی ہرگز نہ چھوڑیں گے وہ
آس ہم ہیں انہیں سے لگائے ہوئے
----------یا
ہم امیدیں ہیں جن سے لگائے ہوئے
-------------
اُن میں لب کھولنے کی بھی ہمّت نہیں
تب ہی بیٹھے ہیں نظریں جھکائے ہوئے
-----------یا
تب ہی آنکھوں میں آنسو ہیں آئے ہوئے
------------
تجھ کو ارشد وفا کا صلہ یہ ملا
آج بن کر وہ تیرے ہیں آئے ہوئے
------------
یہ اشعار تو درست ہو گئے

سب زمانے کے ہم ہیں ستائے ہوئے
غم ہزاروں ہیں دل میں چھپائے ہوئے
---------- اب زمانہ.... بہتر ہے

دل محبّت سے اپنا ہے بھر سا گیا
ہم جفاؤں کے چرکے ہیں کھائے ہوئے
---------- دو لخت ہے۔ پہلے مصرع میں سے، سا عجیب لگتا ہے ۔ دوسرے کی مناسبت سے کچھ اور بات ہونی تھی۔ یا دوسرے میں کچھ ہہ اظہار ہونا تھا کہ جفا یا بے وقائی کے زخم کھا کر یہ حال ہو گیا ہے۔ یعنی ردیف ہوئے بھی مسئلہ کر رہی ہے

آج مغرب سے نکلا ہے سورج یہ کیا
وہ ہمارے ہیں گھر میں جو آئے ہوئے
--------- وہ جو گھر میں ہمارے ہیں..... بہتر نہیں؟
بات کوئی تو ہے ان کے دل میں چھپی
غم کے بادل ہیں چہرے پہ چھائے ہوئے
------ عظیم ک مشورہ اچھا ہے
.......

اُن کو احساس اپنی جفا کا ہوا
آج آئے ہیں سر کو جھکائے ہوئے
.
یہ بھی قابل قبول ہے
 
Top