سب کچھ ہے عیاں پھر بھی ہے پردہ مرے آگے

سین خے

محفلین
سب کچھ ہے عیاں پھر بھی ہے پردہ مرے آگے

سب کچھ ہے عیاں پھر بھی ہے پردہ مرے آگے
دنیا ہے تری ایک کرشمہ مرے آگے

میں پیاس کی شدت کا فلک چوم رہی ہوں
گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے

میں خود کو لکیروں میں کہیں ڈھونڈ ہی لیتی
مٹھی وہ کبھی کھول تو دیتا مرے آگے

جس سمت بھی دیکھوں ہیں سرابوں کی صلیبیں
پھیلا ہے عجب ریت کا صحرا مرے آگے

تنقید مری ان کے گناہوں پہ نہیں تھی
آئینۂ اعمال رکھا تھا مرے آگے

ناکردہ گناہوں کی سزا پائی ہے نصرتؔ
انصاف ہوا شہر میں رسوا مرے آگے

نصرت مہدی

 
آخری تدوین:
شکریہ

یہ بھی دیکھیئے
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

اک کھیل ہے اورنگ سلیماں مرے نزدیک
اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے

جز نام نہیں صورت عالم مجھے منظور
جز وہم نہیں ہستی اشیا مرے آگے

ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے
گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے

مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے

سچ کہتے ہو خود بین و خود آرا ہوں، نہ کیوں ہوں
بیٹھا ہے بت آئینہ سیما مرے آگے

پھر دیکھئے انداز گل افشانی گفتار
رکھ دے کوئی پیمانہ صہبا مرے آگے

نفرت کا گماں گزرے ہے، میں رشک سے گزرا
کیوں کر کہوں لو نام نہ ان کا مرے آگے

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے، کلیسا مرے آگے

نواب اسد اللہ خاں غالب
 
Top