ہما حمید ناز
محفلین
حاضرینِ محفل آداب ! ایک پرانی غزل پیشِ خدمت ہے ۔
سب کے سر میں جنوں سمایا تھا
اک دوانے پہ سنگ اٹھایا تھا
بجلیوں سے مجھے شکایت ہے
میں نے کب آشیاں بنایا تھا
اپنے غم پر بھلا میں کب روئی
غم تو میرا سبھی پرایا تھا
رکھ دیا میں نے اپنے اشکوں میں
اک تبسم سے جو بھی پایا تھا
پھر خبر ہی نہیں ملی ا پنی
اسے کچھ دیر کو بھلایا تھا
کچھ تو حالات نے دکھایا عکس
اس نے کچھ آئنہ دکھایا تھا
وہ تو سچ مچ چلا گیا کہیں دور
میں نے بس یونہی آزمایا تھا
اب مجھے یاد ہی نہیں میں نے
پھول زلفوں میں کیوں سجایا تھا
جانے وہ کس نگر میں ہوگا اب
مدتوں پہلے فون آیا تھا
کوبکو جائے گی تری خوشبو
تو نے پروا سے دل لگایا تھا
اس قدر تو کبھی فریبِ وفا
تیرے دل نے ہما نہ کھایا تھا
اک دوانے پہ سنگ اٹھایا تھا
بجلیوں سے مجھے شکایت ہے
میں نے کب آشیاں بنایا تھا
اپنے غم پر بھلا میں کب روئی
غم تو میرا سبھی پرایا تھا
رکھ دیا میں نے اپنے اشکوں میں
اک تبسم سے جو بھی پایا تھا
پھر خبر ہی نہیں ملی ا پنی
اسے کچھ دیر کو بھلایا تھا
کچھ تو حالات نے دکھایا عکس
اس نے کچھ آئنہ دکھایا تھا
وہ تو سچ مچ چلا گیا کہیں دور
میں نے بس یونہی آزمایا تھا
اب مجھے یاد ہی نہیں میں نے
پھول زلفوں میں کیوں سجایا تھا
جانے وہ کس نگر میں ہوگا اب
مدتوں پہلے فون آیا تھا
کوبکو جائے گی تری خوشبو
تو نے پروا سے دل لگایا تھا
اس قدر تو کبھی فریبِ وفا
تیرے دل نے ہما نہ کھایا تھا
آخری تدوین: