ستایا ہے جس نے وہ کیا جانتا ہے---برائے اصلاح

الف عین
عظیم
خلیل الرحمن
--------
فعولن فعولن فعولن فعولن
--------
ستایا ہے جس نے وہ کیا جانتا ہے
مرے دل کی حالت خدا جانتا ہے
--------------
مروں یا جیوں میں اسے کیا خبر ہے
رلانے کی ہر اک ادا جانتا ہے
-----------
بہت بے خبر ہے یوں کرتا ہے ظاہر
مگر با خبر برملا جانتا ہے
-------------
مرے ساتھ رہتا مرا رب ہے ہر دم
زمانہ تو بے آسرا جانتا ہے
----------
جسے اس نے چاہا وہ محبوب پایا
-------یا
جسے مل گیا ہو جسے اس نے چاہا
وہی وصل کا بس مزا جانتا ہے
----------
جدائی ملی ہو وفاؤں کے بدلے
-----------یا
جدائی ملی جس کو چاہت کے بدلے
جو اس نے سہی ہے سزا جانتا ہے
-----------
سزا جس نے پائی خطا بھی نہیں تھی
رہائی کا وہ بس مزا جانتا ہے
----------
دکھوں میں خدا پر توکّل نہ چھوتے
ترے درد کی وہ دوا جانتا ہے
--------
نہ ارشد کو دو بے وفائی کا طعنہ
نبھانا وہ سب سے وفا جانتا ہے
--------یا
کرے گا کبھی بے وفائی نہ ارشد
وفا کون اس کے سوا جانتا ہے
-------------
 

الف عین

لائبریرین
کیا ہر روز ایک غزل کہنا ضروری ہے؟ وہ چاہت کیسی ہی تک بندی کیوں نہ ہو۔
میرا مشورہ تو یہ ہے کہ بے شک مشق کے لیے آپ روزانہ دس دس غزلیں کہیں مگر ان پر خود ہی غور کریں ۔ یہ کہ جو ذہن میں تھا، وہ مطلب واقعی برامد ہو رہا ہے یا کوئی مختلف مطلب بھی نکال سکتا ہے۔ بار بار الفاظ بدل کر دیکھیں، شتر گربہ پر غور کریں، کسی لفظ کے درست تلفظ پر شک ہو تو آن لائن چیک کریں۔ اگر غزل میں کم از کم دو اشعار ایسے ملیں جس میں آپ کو بھی ندرتِ خیال محسوس ہو تو ایسی غزل ہی اصلاح کے لیے پیش کریں۔ ورنہ کئی ماہ سے میرا محفل کے وقت کا اسی فی صد حصہ آپ کی شاعری کی اصلاح میں ہی لگ جاتا ہے اور پھر بھی شاید ہی کسی غزل سے مکمل اطمینان ہوا ہو مجھے۔ خالی وقت میں میرے اس فورم کے جوابی پوسٹس دیکھتے رہیں، بلکہ میری ہی کیوں، جس نے بھی کچھ مشورہ دیا ہو، اس پر غور کرتے رہیں۔
مانتا ہوں کہ آپ بزرگ ہو گئے ہیں مگر سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ مجھ سے تو بہر حال چھوٹے ہیں، میں تو ستر کا ہونے والا ہوں۔
اس غزل میں دو ایک اشعار کا خیال اچھا ہے لیکن بیانیہ اچھا نہیں ۔ اکثر اشعار میں فاعل کون ہے، یہ واضح نہیں
اس پر خود غور کر کے روائز کریں
 
Top