literature
محفلین
ستم کی رات کو جب دن بنانا پڑتا ہے
چراغِ جاں سرِ مقتل جلانا پڑ تا ہے
اُٹھانا پڑتا ہے پلکوں سے رَت جگوں کا خُمار
پھر اس خُمار سے خود کو بچانا پڑ تا ہے
کسی کی نیند کسی سے بدلنی پڑ تی ہے
کسی کا خواب کسی سےکو دِکھانا پڑ تا ہے
کسی سے پوچھنا پڑتا ہے اپنے گھر کا پتا
کسی کو شہر کا نقشہ دِکھانا پڑ تا ہے
بگڑ رہا ہے کچھ ایسا توازنِ ہستی
کسی کا بوجھ کسی کو اُٹھا نا پڑ تا ہے
کوئی کسی کے کہے سے کبھی رُکا ہی نہیں
وہاں رُکا ہے جہاں آب و دانہ پڑ تا ہے
وہ ایک پَل کی مُسافت پہ تھا مگر مجھ سے
نہ جانے کس نے کہا تھا زمانہ پڑتا ہے
عجیب طرح سے اُس نے بنائی ہے دُنیا
کہیں کہیں تو یہاں دِل لگا نا پڑ تا ہے
سلیم کوثر
چراغِ جاں سرِ مقتل جلانا پڑ تا ہے
اُٹھانا پڑتا ہے پلکوں سے رَت جگوں کا خُمار
پھر اس خُمار سے خود کو بچانا پڑ تا ہے
کسی کی نیند کسی سے بدلنی پڑ تی ہے
کسی کا خواب کسی سےکو دِکھانا پڑ تا ہے
کسی سے پوچھنا پڑتا ہے اپنے گھر کا پتا
کسی کو شہر کا نقشہ دِکھانا پڑ تا ہے
بگڑ رہا ہے کچھ ایسا توازنِ ہستی
کسی کا بوجھ کسی کو اُٹھا نا پڑ تا ہے
کوئی کسی کے کہے سے کبھی رُکا ہی نہیں
وہاں رُکا ہے جہاں آب و دانہ پڑ تا ہے
وہ ایک پَل کی مُسافت پہ تھا مگر مجھ سے
نہ جانے کس نے کہا تھا زمانہ پڑتا ہے
عجیب طرح سے اُس نے بنائی ہے دُنیا
کہیں کہیں تو یہاں دِل لگا نا پڑ تا ہے
سلیم کوثر