منیب احمد فاتح
محفلین
ستم گزرا بلا گزری الم گزرا قضا گزری
مگر تو نے کبھی پوچھا ہمارے دل پہ کیا گزری؟
فقط اک بار ہم کو چھیڑ کر وہ دلربا گزری
نہ کوئی شب ہوئی جو قلب کو چھیڑے بنا گزری
اگر پیرانہ سالی ہوش میں لائی تو کیا حاصل
جوانی تو خمارِ عشق میں ہی مبتلا گزری
کسی نے بات میرے حال کی چھیڑی مذاقاً ہی
مگر شاق اُس دلِ وہمی پہ یہ بے انتہا گزری
رہے اتنے مگن ہم اہلِ دنیا کو ملانے میں
کہ آخر تک ہماری زندگی خود سے جدا گزری
کہیں ناوک کہیں خنجر کہیں مرہم کہیں چارہ
کٹھن سی عمر تھی اپنی چلو اچھا ہوا گزری
تلاشِ بے خودی میں آج فاتح بے سبب پی لی
کہ یہ حالت تو یوں بھی زندگی میں بارہا گزری
مگر تو نے کبھی پوچھا ہمارے دل پہ کیا گزری؟
فقط اک بار ہم کو چھیڑ کر وہ دلربا گزری
نہ کوئی شب ہوئی جو قلب کو چھیڑے بنا گزری
اگر پیرانہ سالی ہوش میں لائی تو کیا حاصل
جوانی تو خمارِ عشق میں ہی مبتلا گزری
کسی نے بات میرے حال کی چھیڑی مذاقاً ہی
مگر شاق اُس دلِ وہمی پہ یہ بے انتہا گزری
رہے اتنے مگن ہم اہلِ دنیا کو ملانے میں
کہ آخر تک ہماری زندگی خود سے جدا گزری
کہیں ناوک کہیں خنجر کہیں مرہم کہیں چارہ
کٹھن سی عمر تھی اپنی چلو اچھا ہوا گزری
تلاشِ بے خودی میں آج فاتح بے سبب پی لی
کہ یہ حالت تو یوں بھی زندگی میں بارہا گزری