ستم ہر دور میں کچھ اس طرح منظر بدلتا ہے - سہیل اختر ہاشمی

کاشفی

محفلین
غزل
(سہیل اختر ہاشمی - کراچی پاکستان)

سہیل اختر ہاشمی نے علامہ اقبال کالج کراچی سے گریجویش کیا تھا پھر یہ ایران چلے گئے تھے انقلاب ایران کے بعد واپس آئے۔۔ جانے سے پہلے کراچی کے نوعمر ابھرتے ہوئے شعراء میں ان کو سلیم کوثر،جمال احسانی، عزم بہزاد، اختر سعیدی، شاداب احسانی وغیرہ کے ساتھ مشاعروں میں شریک ہوا کرتے تھے ۔درمیان میں ایک لمبے وقفے کے بعد دوبارہ دو تین برسوں سے متحرک ہوئے ہیں۔کراچی کی ادبی محفلوں میں ان کو دعوت دی جاتی ہے۔
بشکریہ: سید انور جاوید ہاشمی



ستم ہر دور میں کچھ اس طرح منظر بدلتا ہے
فرازِ دار کی خاطر فقط ہر اک سر بدلتا ہے

بساطِ زیست پر اُس کو ہمیشہ مات ہوتی ہے
پیادے کی جگہ جو بادشاہ کا گھر بدلتا ہے

کسی بھی حال میں تم آئینے کو دوش مت دینا
کہ یہ تو صرف منظر کا پسِ منظر بدلتا ہے

عجب ہے مفلسی کہ سانس بھی بارِ گراں ہے اب
وگرنہ میرا دل بھی خواب کے پیکر بدلتا ہے

بظاہر تو اُسے دعویٰ مسیحائی کا ہے ہر دم
مگر وہ گفتگو میں طنز کے نشتر بدلتا ہے

محبت جب یقیں کے دائرے میں رقص کرتی ہے
گماں چپکے سے زیر آستیں خنجر بدلتا ہے

بہت سفاک تھا جس کا رویہ عمر بھر مجھ سے
وہی حیراں ہے اب کہ کیوں نہیں اختر بدلتا ہے​
 

علی فاروقی

محفلین
بہت خوب، کاشفی صاحب، شکریہ شامل محفل کرنے کا۔
پہلے شعر کے دوسرے مصرعے میں"اک" کا لفظ کچھ بے وزن سا محسوس ہو رہا ہے۔
 
Top