نوٹ: صبح آنکھ کھولی ہی تھی کہ ستیہ پال آنند صاحب کا ای میل ملا۔ ہم حیران ہوئے۔ شاید کسی گروپ میں لکھا ہو جس کے ہم بھی اتفاقاً ممبر ہوں، لیکن یہ ان کا ذاتی ای میل تھا جس میں انہوں نے (ہم سمیت) ایک لمبی چوڑی فہرست کو ای میل بھیجا ہے۔ اردو میگزین زاویہ میں چھپا ڈاکٹر قیصر عباس صاحب کا مضمون ساتھ نتھی تھا، جو محفلین کے نفیس ذوقِ مطالعہ کے لیے پیش ہے۔

ستیہ پال آنند کا پانچواں جنم اور پہلا عشق

ڈاکٹر قیصر عباس

اگرچہ ستیہ پال آنند نے اپنی نو مطبوعہ سوانح کا عنوان رکھا ہے‘‘ کتھا جنموں کی’’ لیکن اکیاسی برسوں پر پھیلی اس اس کتھا کا خالق شاید اب پانچویں جنم میں داخل ہوچکا ہے، ایک انگریزی شاعر کے روپ میں۔حال ہی میں ستیہ پال کے انگریزی شاعری کے پانچ مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں جن میں بیشتر نظمیں ان کی اردو نظموں کے تراجم ہیں۔ ویسے تو انگریزی کے پروفیسر اور مصنف کی حیثیت سے یہ ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں مگر شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار، اور محقق کے علاوہ انگریزی شاعری بھی اب ان کی نئی پہچان ہے۔ یہ ان کا پانچواں جنم ہو یا نہ ہو مگر یہ تو طے ہے کہ ان کی زندگی کا پہلا اور آخری عشق بی وی یعنی بلینک ورس ( Blank Verse) ہی ہے! اردو نظموں کی صورت میں اپنی اس محبوبہ کو انہوں نے اس والہانہ انداز مین چاہا ہے کہ اب وہ خود بھی اس کی پہچان بن گئے ہیں۔

پانچ سو سے زیادہ صفحات کی اس ضخیم کتاب کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے قاری کو احساس ہوتا ہے کہ وہ دراصل اردو ادب کی پوری تاریخ پڑھ گیا ہےاور بقول ستیہ پال یہ ان کی سوانح نہیں ان کی پوری عمر پر پھیلی یادداشت ہے جو چار صفحوں پر مشتمل ہے۔کتاب کا پہلا حصہ پاکستانی پنجاب میں ان کی ابتدائی زندگی اور بٹوارے کے بعد ہندوستان تک ان کی ہجرت کی داستان ہےجب وہ صرف تیرہ برس کے نوجوان تھے۔ دوسرا حصہ حصولِ علم، معاشی جد وجہد، تیسرا حصہ برصغیر میں ان کی علمی و ادبی سرگرمیاں اور آخری حصہ دنیا بھر میں ان کی ہجرتوں کے طویل سلسلوں کا تذکرہ ہے۔ زندگی کی ان چار منزلوں کو طے کرتے ہوئے اب وہ اکیاسی برس کی عمر میں واشنگٹن میں قیام پزیر ہیں جہاں ان کا قلم جو اب کمپیوٹر کی شکل اختیار کرگیا ہے، اسی طرح رواں دواں ہے جس طرح پچاس سال پہلے تھا۔ اس طویل سفر کے دوران اس قلم نے پچاس سے زیادہ کتابیں اردو، ہندی، انگریزی اور پنجابی میں تخلیق کی ہیں۔ مجموعی طور پر اردو میں کئی معیاری سوانح تخلیق ہوئی ہیں لیکن ستیہ پال کی اس نئی سوانح کو اس لحاظ سے ہمیشہ فوقیت حاصل رہے گی کہ یہ تازہ تصنیف ایک پورے عہد کی علمی و ادبی تاریخ ہے جس کی بنیاد سچت جذبے ، بے باک پیرایہٗ اظہار اور دانشورانہ تجربے پر رکھی گئی ہے۔

ان کا پہلا جنم ان کی ابتدائی زندگی ، چکوال کے ایک قصبے کوٹ سارنگ کی یادوں اور پھر بٹوارے کے دوران اذیت ناک ہجرت کے واقعات پر مشتمل ہے جس مین ان کے والد بھی فسادات کی نظر ہوگئے تھے۔ مصنف نے اپنی ابتدائی زندگی کی اس داستان کو ڈاکوفکشن ( Docufiction) کی تکنیک یعنی دستاویزی کہانی کے ذریعے بیان کیاہے۔ جس سے کہا نی کا تاثر اور بھی گہرا ہوگیا ہے۔ یہ ان کی ابتدائی زندگی کی روداد کے علاوہ اس دور کے معاشرتی روابط پر بے لاگ تبصرہ بھی ہے، جس کی خصوصیت بھائی چارے کی وہ فضا ہے جس میں ہندو، مسلم ، عیسائی اور سکھ سب مل جل کر رہتے اور ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے مگر دیکھتے ہی دیکھتے سب نفرتوں کی آگ میں اس طرح جھلستے ہیں کہ ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔ ان کا دوسرا جنم ہجرت کے بعد ہندوستانی پنجاب میں ان کی معاشی جد و جہد اور ایک پبلشنگ کمپنی میں ملازمت ہے جہاں وہ اردو ہندی تراجم، افسانے اور ناول نگاری کے ذریعے خاندان کی پرورش کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی دوران وہ نہ صرف اپنے خاندان کی کفالت بلکہ منشی فاضل ، ایم اے اور پی ایچ ڈی مکمل کرکے انگریزی ادب کے پروفیسر بن جاتے ہیں۔ ابتدائی طور پر وہ اردو کے ناول نگار اور افسانہ نگار کی حیثیت سے ابھرے اور ۱۹۵۱ سے ۱۹۶۰ تک چار ناول، افسانوں کے دو مجموعے تخلیق کیے جن میں تجرباتی ناول چوک گھنٹہ گھر بھی شامل ہے۔، جس پر حکومتِ وقت نے پابندی بھی عائد کی ۔ اس جنم کا بیشتر حصہ ان کی دانشورانہ چپقلشوں اور ادبی معرکوں پر مبنی ہے۔ ستیہ پال کا چوتھا جنم ان کی زندگی کا وہ ورق ہے جو انہوں نے برطانیہ ، کینیڈا ، سعودی عرب، یورپ اور پھر امریکہ میں گزارا۔ یہ جنم دراصل ان کی اولین ہجرت کے بعد نقل مکانیوں کے طویل سلسلوں کی کڑیاں ہیں جن میں وہ ایک تجربہ کار مصنف، معروف شاعر اور انگریزی اسکالر کی حیثیت سے اپنا سکہ منوا چکے ہیں۔ چار جنموں کی یہ کتھا قاری کو اردو اور ہندی ادب کے قلم کاروں ، ان کے رجحانات اور خیالات سے بھی روشناس کراتی ہے جس کے توسط سے مصنف نے ان ادیبوں کے فکری اسلوب اپنے تبصروں کے ساتھ قاری تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ اپنے بیباکانہ انداز میں انہوں نے کئی نامور لکھاریوں کو اپنی سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے جن میں سے بیشتر ترقی پسند شاعر یا نثر نگار ہی ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا اور تلوک چند محروم کی طرح ہندی اور اردو مصنفین میں صرف چند ہی خوش قسمت ہوں گے جو ان کی تنقیدی نظر سے بچ نکلے ہوں ۔ وزیر آغا کے متعلق ، جن کے ادبی مقام سے وہ ہمیشہ متاثر رہے ہیں، لکھتے ہیں:

‘‘میں ان کی شخصیت سے اتنا مرعوب تھا کہ کسی ادبی مسئلے پر اپنی رائے لکھنے سے پہلے خوب غور و خوص کیاکرتا ، یہاں تک کہ خط لکھنے کے بعد بھی ہر ایک جملے کو بار بار پڑھتا مبادا کہ کوئی غلط بات نہ لکھی جائے۔ ’’

اس کے برعکس وہ فیض احمد فیض کے بارے میں کہتے ہیں :

‘‘ ‘ مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ’ یا اس جیسے غنائی نغمے فیض نے انقلاب کو رومان کی آنکھ سے دیکھنے کے لیے ہی تو لکھے ہیں۔ لیکن ان سے عوام کی کیا خدمت ہوسکتی ہے؟’’

ممتاز ناول نگار شوکت صدیقی پر تبصرہ کچھ اس انداز میں کرتے ہیں :

‘‘جس شخص کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ وہ سوتے ہوئے بھی ایک قلم سرہانے، ایک قلم ٹیبل لیمپ کے ساتھ اور ایک کان میں اٹکا کر رکھتا ہے، اس کے لیے کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ اپنی گوں نا گوں مصروفیتوں کے ساتھ تخلیقی کام بھی جاری رکھتا ؟’’

افسانہ نگار کرشن چندر کے ایک ناول پر ان کی تنقید کچھ یوں ہے:

‘‘ وہ ایک فاش غلطی کے مرتکب ہوئے یعنی اپنے ہیرو کے انتخاب میں بھی وہ چوک گئے۔ راگھو راؤ ہیرو کا نام ہتے اور یہ نام اونچے برہمن گھرانوں میں پایا جاتا ہے، کھیت مزدوروں مین نہیں۔’’

البتہ ایک اور جدید شاعر ساقی فاروقی کے متعلق ان کی رائے اتنی منفی نہیں۔

‘‘ میں اس شخص کی قدر کرتا ہوں جو انگلستان جیسے اردو کُش ملک میں رہتا ہو، ایک عدد جرمن بیوی سے بیاہا ہونے کے باوجود ابھی تک Ossify نہیں ہوپایا۔’’

شاید یہ کہنا زیادہ بہتر ہو کہ یہ یاد داشت دراصل مصنف کی ذاتی زندگی ، انفرادی روداد اور خاندانی حالات پر نہیں اس کی ادبی زندگی پر لکھی گئی ہے۔ کتاب کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں مصنف نے جن چیدہ چیدہ ادبی مسائل پر نظر ڈالی ہے وہ ان کی انجمن ترقی پسند مصنفین سے وابستگی اور پھر علیحدگی ، غزل سے ان کی بیزاری ، نظم سے بے لوث لگاؤ، اور بیشتر ترقی پسند اردو ادیبوں سے ان کے نظریاتی اختلافات ہیں۔

وہ ہجرت کے بعد ہندوستانی پنجاب منتقل ہوئے تو ان کا ابتدائی حوالہ انجمن ِترقی پسند مصنفین ہی تھا لیکن کچھ عرصے بعد ہی نظریاتی اور ذاتی بنیادوں پر ان کے اختلافات بھی سامنے آگئے۔ ہوا یوں کہ وہ اایک اردو ادیب کی حیثیت سے پنجاب پہنچے تھے، اور چونکہ پنجابی ادب یہاں سکہٗ رائج الوقت تھا، ان کی پذیرائی بھی خاص نہیں ہوئی۔

(جاری ہے)
 
آخری تدوین:
(ڈاکٹر قیصر عباس کا مضمون: گزشتہ سے پیوستہ)

دوسری طرف وہ نظریاتی طور پر بھی ادب برائے ادب ہی کے قائل تھے جب کہ تمام ترقی پسند قلم کار ادب کو زندگی اور اس کے مسائل کے آئینے ہی سے دیکھنے میں یقین رکھتے تھے۔ ان ہی دو وجوہات کی بنا پر ان کی نہ صرف تحریک سے بلکہ ترقی پسند ادیبوں سے بھی زیادہ نہیں بنی۔ اپنے ہم عصر اردو اور ہندی لکھاریوں سے انہیں ہمیشہ یہ شکایت بھی رہی کہ سب انگریزی ادب اور اس کے مسائل سے ناواقف ہیں مگر وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ باقی سب دانشور ان کی طرح انگریزی ادب کے استاد اور ماہرت نہیں ہیں اور نہ انہوں نے اس کی تعلیم حاصل کی ہے۔

ان کے نزدیک نظریاتی بنیاد پر لکھے گئے ادب کی کوئی حیثیت نہ تھی اور اسی بنا پر انہوں نے تحریک سے وابستہ لکھنے والوں کو کھبی گھاس نہیں ڈالی۔ان کی سوانح میں جگہ جگہ فیض احمد فیض، احمد فراز، فہمیدہ ریاض، حبیب جالب، کشور ناہید، سعادت حسن منٹو اور اس قبیلے کے دوسرے ادیبوں پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ اسی حوالے سے ستیہ پال اس ادب کو جو معاشرتی استبداد، جبر، غربت اور جنسی استحصال جیسے مسائل کی بات کرے کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ شاید اسی لیے تحریکِ نسواں اور مزاحمتی ادب کو وہ وقتی اور کم تر سمجھتے ہیں۔ اپنے ہم عصر ترقی پسندوں پر ان کے اعتراضات اپنی جگہ مگر آج کے دور میں وہ ادب جو زندگی اور اس کے گوں نا گوں مسائل سے کنارہ کشی اختیار کرے محض دانشورانہ مشقت کے اور کچھ نہیں۔ہر ادیب اور فنکار اپنے معاشرے کی پیداوار ہوتا ہے اور اس کا فن اس کے اندرونی یا خارجی محسوسات اور محرکات سے الگ نہیں رہ سکتا۔

ستیہ پال کی غزل پر تنقید بھی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی جس کا اظہار انہوں نے اس تصنیف میں بھی کھل کر کیا ہے۔ اپنی ادبی زندگی کی آغاز میں وہ تلوک چند محروم سے گارڈن کالج راولپنڈی میں متعارف ہوئے جواردو نظم کے حامی اور غزل کے مخالفین میں سے تھے۔ ستیہ پال اب اردو ادب کے معروف نظم گو شاعر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ عمر بھر تلوک چند کے اثر سے باہر نہیں نکل سکے۔ غزل پر ان کے اعتراضات اس کی ساخت، اصلوب، متن اور موضوع کی یکسانیت پر ہیں جو بڑی حد تک جائز بھی ہیں۔ اردو غزل اگرچہ کوئی ایسی بری صنف بھی نہیں مگر ہوا یوں کہ چند جدت پسندوں کو چھوڑ کر اردو کے بیشتر شعراء موضوع کے اعتبار سے اٹھارویں صدی ہی میں محبوس نظر آتے ہیں۔ بحر، قافیہ اور ردیف کو اگر تسلیم بھی کرلیا جائے کہ یہ غزل کے لازمی عناصر ہیں اس کی موضوعاتی تشکیل ایک ہی رہتی ہے، بس الفاظ اور شاعر کا اندازِ بیان ذرا مختلف ہوتا ہے۔ ستیہ پال کی رائے میں غزل کا تعلق لکھنے لکھانے سے نہیں سننے سنانے سے ہےجو کسی حد تک درست بھیہے۔

غزل پر ان کا ایک اور اعتراض اس کی ساختیاتی پابندیاں بھی ہیں جس میں رہ کر تخلیقی عمل بھی محدود ہوجاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ غزل کا دائرہ صرف گنے چنے موضوعات تک ہی رہ گیا ہے لیکن تعجب خیز امر یہ ہے کہ جدید نظم یا بلینک ورس میں انہوں نے خود بھی بحر کی باقاعدہ پابندی کی ہے اور بقول ستیہ پال کے ان کی تمام نظموں کی علم عروض کی بنیاد پر تقطیع بھی کی جاسکتی ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ساختیاتی پابندیوں کا سب سے بڑا ناقد جو غزل کو صرف اس لیے رد کرتا ہے کہ یہ صنف بحر اور ردیف قافیے کی زنجیروں میں گرفتار ہے جب نظم لکھتا ہے تو خود ان پابندیوں سے باہر نہیں نکل سکتا؟ غزل کی ان سب خامیوں کے باوجود اس صنف کی مقبولیت ابھی تک قائم ہے جس کی وجہ گائیکی کی رنگا رنگ محفلیں اور مشاعروں کا چلن ہے۔ دنیا بھر میں برڈغیر کے باسیوں نے اور اردو کے چاہنے والوں نے بے سر و پا مشاعروں کے انعقاد ہی کو زبان کی خدمت سمجھ لیا ہے ۔ مشاعرے جو کبھی اردو کی پہچان تھے اب سستی تفریح کا ذریعہ ہوکر رہ گئے ہیں۔ البتہ موسیقیت میں ڈوبی غزلوں کا سحر ابھی باقی ہے اور شاید کچھ دن اور باقی رہے گا ۔ شاید اسی لیے ستیہ پال غزل کو ایک ایسی بوڑھی طوائف قرار دیتے ہیں جس کی قیمت ابھی تک نہیں گری۔

ستیہ پال نے اردو شاعری کو اپنی نظموں کے ذریعے جو جدیدیت بخشی ہے اس کے لیے اردو ادب ہمیشہ ان کا احسان مند رہے گاکہ ان کا قد اپنے ہم عصروں میں بہت اونچا ہے اور رہے گا۔ نظم گو شاعر کی حیثیت سے وہ ن۔ م۔ راشد، میراجی، وزیر آغا، اور ساقی فاروقی جیسے باوقار شعراء کے ہم رکاب ہیں۔ وہ اگرچہ ترقی پسند نہیں روشن خیال ضرور ہیں۔ نظریاتی نہیں حقیقت پسند ہیں، مذہبی نہیں، مگر صوفیانہ چال ڈھال رکھتے ہیں اور اگر مابعد جدیدیت میں نہیں تو جدیدیت کی صف میں غرور شامل ہیں۔ ان کی علمی و ادبی خدمات کو ان ہی حوالوں سے پہچانا جائے گا۔

ستیہ پال کی زندگی کا سفر اگرچہ ہجرتوں کے ایک لامتناہی سلسلے کی داستان ہےمگر وہ پہلی ہجرت جس نے انہیں دیس نکالا دیا ہمیشہ ان کی یادوں میں زندہ رہی ہےاور ان کی کئی نظموں کا عنوان بھی ہے۔ ایسی ہی ایک نظم کا آخری بند ہی بھی ہے:

جڑیں جب کٹ گئی ہوں کوئی

جنگل کو کہاں تک اپنی روح میں رکھے گا؟

جڑوں سے ٹوٹ کر اپنی

میں اب تک تو رہا ہوں باہر کی دنیا میں

مگر اب تھک گیا ہوں؎۔۔۔

لوٹ جانا چاہتا ہوں اپنے جنگل میں


برصغیر کی موجودہ سیاست کے پیشِ نظر اپنی جائے پیدائش میں واپسی کی ان کی دیرینہ خواہش تو شاید کبھی پوری نہ ہوسکے، مگر امریکہ آنے کے بعد وہ پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں۔

کتاب پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں جو سوالات اٹھے وہ میں نے انہیں لکھ کر ای میل کردئیے اس امید پرکہ شاید ان سے اہم ادبی مسائل کو سمجھنے میں کچھ مدد ملے جو تشنہ رہ گئے ہوں۔ میری خوش قسمتی کہ دوسرے دن ہی جوابات میرے ای میل میں موجود تھے جو درج ذیل ہیں:

(جاری)
 
(ڈاکٹر قیصرعباس صاحب کا مضمون، گزشتہ سے پیوستہ)

کتاب پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں جو سوالات اٹھے وہ میں نے انہیں لکھ کر ای میل کردئیے اس امید پرکہ شاید ان سے اہم ادبی مسائل کو سمجھنے میں کچھ مدد ملے جو تشنہ رہ گئے ہوں۔ میری خوش قسمتی کہ دوسرے دن ہی جوابات میرے ای میل میں موجود تھے جو درج ذیل ہیں:


سوال : آپ کی سوانح ایک اہم ادبی عہد کی داستان ہے جس کا زیادہ تر حصہ برصغیر کے ممتاز قلم کاروں سے آپ کی ملاقاتوں اور علمی و ادبی مسائل کی گفتگو پر مشتمل ہے۔ اس میں آپ کی زندگی، خاندان اور انفرادی واقعات کم ہی نظر آتے ہیں۔ اس کی کوئی خاص وجہ؟


جواب: یہ خود نوشت سوانح نہیں ہے، یاد داشتوں کا مجموعہ ہے۔ اس لحاظ سے یہ جوش ملیح آبادی کی ‘‘ یادوں کی بارات’’ یا ساقی فاروقی کی‘‘ پاپ بیتی’’ یا کشور ناہید کی ‘‘ ایک پاپی عورت کی کتھا’’ سے مختلف ہے کہ اس میں ذاتی ، موروثی، نسلی خاندانی متعلقات بالکل نہیں ہیں۔ یاد داشتوں کا یہ مرقع میری ادبی ریاضت کی داستان ہے۔ اس میں راقم ایک بدھ بھکشو کی طرح ، اپنا کشکول اٹھائےہوئے در بدر ‘‘ گیان کی بھیک ’’ مانگتا نظر آتا ہے۔ اس لیے وہ ہر اس دروازے پر دستک دیتا ہے ، جہاں سے اسے یہ ‘‘بھکشا’’ ملنے کی امید ہوتی ہے۔ اس کتھا کا پہلا ‘‘جنم’’ البتہ‘‘ ڈاکوفکشن’’ کی تکنیک میں تحریر کردہ ہے، یہ باقی کے تین جنموں سے مختلف ہے۔ اس میں بچپن سے لڑکپن کی پہلی ناپختہ بلوغت کی کہانی ہے جس میں البتہ پنپتی ہوئی شاعرانہ قدرت کے آثار بھی نظر آتے ہیں۔


سوال: آپ کا شمار ان قلم کاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اردو شاعری کو ایک نئی روش سے آشنا کیا ۔ اردو نظم کو آپ اور کچھ دوسرے شعراء نے جو رتبہ دیا اس کی بنیاد پر کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ اردو نظم کو اس کا اصل مقام حاصل ہوگیا ہے؟


جواب: جی نہیں! یہ منزل بہت دور ہے۔ اردو کو صنفِ غزل نے پیرِ پا بستہ کی طرح باند رکھا ہے۔ میں گزشتہ تین مہینوں میں دوبار پاکستان گیا ۔ پہلی بار کراچی میں تین ہفتے اور دوسری بار اسلام آباد ، سیالکوٹ اور لاہورمیں دو ہفتے۔۔ ان دوروں کے دوران جہاں میری کھل کر پذیرائی ہوئی اور مجھے نئی اردو نظم کا رہنما بھی کہا گیا۔ یہ امر بھی کھل کر سامنے آیا کہ غزل کے پیروکار کسی طرح بھی یہ بندھن کھولنے پر راضی نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک غزل اور اردو شاعری ایک ہی صنف کے دو نام ہیں۔ مجھے غزل کے حجرے کے نئے مجاوروں ، بشمولیت ظفر اقبال، نے اپنے اخباری کالموں ( روزنامہ ‘دنیا’) میں رومانی جذبے کی سطح پر ‘خصی’ قرار دیا ، جو اپنی مردانگی کھو چکا ہے اور پیری میں ایسی غیر مردانہ باتیں کرتا ہے۔ لیکن میں بالکل نا امید بھی نہیں ہوں۔ نظم گو شعراء کی ایک نئی پود باقاعدگی سے نظمیں لکھ رہی ہے۔ اس میں پنڈی، لاہور اور پنجاب و خیبر پختونخواہ کے دیگر بڑے شہروں کے نوجوان شعراء شامل ہیں۔ کراچی اس لحاظ سے کچھ پیچھے ہے۔ یہ شعراء آزاد نظمیں بھی لکھ رہے ہیں اور نثری نظمیں بھی۔ کچھ ایسے بھی ہیں کہ جو نظم اور غزل دونوں اصناف میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ ان میں خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد ہے۔


سوال:انگریزی کے پروفیسر ہونے کی بنا پر آپ کی انگریزی ادب پر گہری نظر ہے۔ اپنی سوانح میں آپ اکثر یہ شکایت کرتے دکھائی دیتے ہین کہ اردو کے ادباء انگریزی ادب سے نابلد ہیں۔ آپ کے خیال میں ان لکھاریوں سے جو اردو، فارسی یا ہندی کے ماہر ہیں کیا یہ توقع جائز ہے؟


جواب: جی نہیں! آپ سے یہ کس نے کہا کہ میں اردو شعراء کو انگریزی ادب کے مطالعے پر اکساتا ہوں؟ جی، بالکل نہیں۔ لیکن عالمی ادب کی سطح پر یہ کرہ زمین ایک گلوبل ولیج بن چکا ہے۔ انگریزی اس وقت بین الاقوامی زبان ہے۔ ادھر کوئی اہم کتاب دنیا کے کسی حصے میں بھی چھپتی ہے، ادھر اس کا ترجمہ ہوکر کینیڈا ، امریکہ، برطانیہ میں شایع ہوجاتا ہے۔ انگریزی شعراء کی شاعری کے نمونہ جات ہم میٹرک سے بی اے تک اپنی درسی کتابوں میں پڑھتے ہیں۔ جدید شعراء کی شاعری کے نمونے ( بشمولیت ٹی ایس ایلیٹ) جنہیں میں نے اردو نظم کے قالب میں ڈھالا ہے ) سب کے سامنے ہیں۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ غزل کا ایک شعر تُک بندی کی سطح پر ایک آسان ترین مشینی عمل ہے، جس میں تخلیقی قدرت کی کارکردگی کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اور جونہی یہ کسی شاعر، متشاعر، یا استاد شاعر ( میرے لیے ان میں تمیز کرنا دشوار نہیں ہے) چھ یا زیادہ اشعار کی غزل موزوں کرنے میں کوئی دقت نہیں دیکھتا۔ انگریزی وہ ذریعہ ہے جس کے توسط سے ہم فرانسیسی ، جرمن، روسی، اطالوی، یا جنوبی امریکا کا ادب پڑھ سکتے ہیں۔


آپ نے فارسی اور عربی کا ذکر کیا ۔ آپ ہی سے ایک سوال پوچھتا ہوں۔ کیا فارسی سے اردو میں براہِ راست گذشتہ ساٹھ برسوں میں کچھ تراجم ہوئے ہیں؟ کیا رعبی( خصوصی طور پر مصر اور لبنان ) کے مصنفین کو ہم انگریزی کےی وساطت سے نہیں پڑھتے؟ اگر اردو میں ترجمہ بھی کرتے ہیں ، تو انگریزی کے ترجمہ شدہ متون سے۔، جن تک ہماری رسائی ہے کیونکہ ہم جدید فارسی اور عربی ادب سے نا آشنا ہیں۔ ہماری رسائی تو اٹھارویں صدی کے فارسی ادب سے آگے نہیں بڑھ پائی۔ ایران اور عرب اس بارے میں بے حد داخلیت پسند ہیں۔ حالانکہ غالب نے اپنے فارسی دواوین کو اردو پر فوقیت دی، ایران میں بطور فارسی شاعر انہیں کوئی نہیں پہچانتا۔ اقبال ہمیشہ فارسی کو منبعٗ حکمت سمجھتے رہے ہیں، آج وہ ہمارے قومی شاعر ہیں، لیکن ایران میں ان کے نام کا ڈنکا نہیں بجتا۔ کہیں حاشیے میں ہی ان کا نام رکھا جاتا ہے۔ استنبول یونیورسٹی کے اقبال پر ایک سیمینار میں مجھے اس بات کا تلخ تجربہ ہوا کہ ایران سے آئے ہوئے مندوبین اقبال سے صرف سطحی طور پر متعارف تھے، اور انہیں اقبالؔ لاہوری کے طور پر پہچانتے تھے۔ ۔۔ ان کے لیے اقبال فارسی ادب کی تاریخ میں حاشیے میں یا فٹ نوٹ کے طور پر ایک بیرونی ریفرنس سے بڑھکر نہیں تھا۔ وجہ؟ اقبال کی شاعری کی ناکافی، بے حد بری، ‘‘ بابو انگلش ’’ کی سطح پر ترجمہ کی ہوئی کتابیں، یا پھر اقبال کی شاعری ( جو شاعری کم اور منبر سے بولتے ہوئے طلاقت سے بھر پور مقرر کی زبان زیادہ ہے) جدید یورپ کی شاعری سے لگا نہیں کھاتی)۔


سوال:ہجرت کے بعد آپ ہندوستانی پنجاب میں انجمنِ ترقی پسند مصنفین سے وابستہ رہے۔ لیکن چونکہ آپ اردو کے ادیب تھے، پنجابی کے نہیں، آپ کی انجمن میں کوئی خاص پذیرائی نہیں ہوئی۔ اور آپ تحریک سے الگ ہوگئے۔ کیا یہ کہنا درست ہے کہ آپ کی علیحدگی ذاتی وجوہ کی بناء پر تھینہ کہ نظریاتی بنیادوں پر؟


جواب: نظریاتی سطح پر تھی جناب۔۔ اس کے لیے آپ کو ‘‘ کتھا’’ کے متعلقہ صفحات، بشمولیت بھیمڑی کانفرنس، میں میری شمولیت ، اختر الایمان سے میری ملاقاتیں ، وغیرہ دوبارہ پڑھنی پڑیں گی۔


سوال: آپ نے اردو غزل کی مخالفت اس کی ساختیاتی پابندیوں ، بحر، ردیف اور قافیے کی بنیاد پر کی، لیکن آپ کی نظمیں بھی بحر میں ہوتیہیں ، جن کی تقطیع خود آپ نے کی ہے۔ اس طرح تو آپ بھی غزل کی سب نہ سہی، کچھ ساختیاتی پابندیوں میں گرفتار نظر آتے ہیں؟


جواب: جی نہیں۔ میری نظمیں عروض کے عین مطابق ہیں لیکن وہ غزل کی فارمیٹ میں نہیں ہیں۔ ( ایک) ان میں قافیہ یا ردیف کا چلن نہیں ہے۔ (دو) غزل میں ہر شعر خود میں مکمل ، خود مختار، انفرادی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ایک شعر معشوق کے حسن کی تعریف میں ہو تو دوسرا رقیبِ روسیاہ کے بارے میں، تیسرا دنیا کی بے ثباتی کے بارے میں، چوتھازندگی کے سفر کو دشت نوردی کے استعارے سے اور پانچواں اسی سفر کو بحری سفر کے استعارے کی عینک سے دیکھنے کی سعی ہے۔ گویا غزل کے دس اشعار میں دس الگ الگ مختصر ترین نظمیں ہیں۔ جبکہ میری نظمیں بلینک ورس ہیں یعنی عروض کی پابندی کا دھیان رکھتے ہوئے بھی، ہر نظم ایک ہی، اور صرف ایک ہی موضوع پر ہے۔ سطروں کی قطع برید میں غزل کی ‘‘ یک پیمانہ’’ طوالت بھی نہیں ہے۔ ‘‘ رن آن لائن’’ کا چلن اسے ایک سے دوسری سطر میں اپنی طوالت ضم کرنے میں آسانی دیتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔


سوال: آپ نے اپنی سوانح میں کچھ انگریزی مصنفین کے حوالے سے لکھا ہے کہ سیاسی عقیدہ ایک چیز ہے اور تخلیق ایک دوسری۔ ایک قلم کار جو لکھتا ہے وہ اس کی شخصیت سے الگ ہے۔ کیا آپ اسے دانشوارانہ بد دیانتی نہیں سمجھتے کہ قلم کار کی فکر اسکی نگارش سے مختلف ہو اور ان میں کوئی مطابقت نہ پائی جائے؟


جواب: ‘‘فکر’’ تو فن کا یقیناً غماز ہوسکتا ہے، لیکن ‘‘ عقیدہ’’ نہیں۔ اگر ‘‘ عقیدہ’’ آپ کو اس بات سے باز رکھتا ہے کہ آپ‘‘ توریت ’’ کو یا ‘‘ گیتا’’ کو الہامی کتاب تسلیم کریں تو آپ اپنی شاعری میں کبھی نہیں کریں گے۔ ‘‘کتھا’’ میں یہ بات متعلقہ صفحات میں بے حد صاف بیانی سے واضح کی گئی ہے۔ کمیونزم کا عقیدہ اب کھوکھلا ثابت ہوچکا ہے۔، لیکن گئے وقتوں میں اردو کا ترقی پسند شاعر اس پر اسی طرح مضبوطی سے قائم تھا جتنا ایک وہابی اپنی طرز کے اسلام پر ہوسکتا ہے۔ ترقی پسندوں نے کچھ اہلِ قلم کو ‘‘ ذات باہر’’ اسی لیے کیا کہ وہ ان کے ساتھ نہیں تھے، چہ آنکہ وہ بڑے ادیب تھے۔


سوال: جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ امریکہ میں شاعری اب ذریعہٗ تفریح بن کر رہ گئی ہے جس کی کوئی ادبی حیثیت نہیں رہی اور بے سرو پا مشاعروں ہی کو اب اردو کی خدمت کرنا سمجھا جاتا ہے۔ اس صورت حال کے تناظر میں کیا آپ امریکہ اور دوسرے ممالک میں اردو کے مستقبل سے پر امید ہیں؟


جواب: جی نہیں، بالکل پر امید نہیں ہوں، اسی لیے مشاعروں میں شرکت نہیں کرتا۔ برصغیر کے شعراء اور شاعرات کو تو یہ ذریعہ ٗ سیر و سیاحت اور کچھ ڈالروں کی وصولی کے طور پر بے حد اچھا لگتا ہے۔ اور یہاں کے اسپانسر اس سے نام و نمود ( اور کسی حد تک اردو شعر و ادب میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے) استعمال کرتے ہیں۔
(ختم شد)
نوٹ: چونکہ یہ مضمون ہمیں پی ڈی ایف فارمیٹ میں ملا تھا، لہٰذا اس کی ٹائپنگ میں پائی جانے والی تمام غلطیاں صرف اور صرف ہماری ہیں۔
 
Top