محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
نوٹ: صبح آنکھ کھولی ہی تھی کہ ستیہ پال آنند صاحب کا ای میل ملا۔ ہم حیران ہوئے۔ شاید کسی گروپ میں لکھا ہو جس کے ہم بھی اتفاقاً ممبر ہوں، لیکن یہ ان کا ذاتی ای میل تھا جس میں انہوں نے (ہم سمیت) ایک لمبی چوڑی فہرست کو ای میل بھیجا ہے۔ اردو میگزین زاویہ میں چھپا ڈاکٹر قیصر عباس صاحب کا مضمون ساتھ نتھی تھا، جو محفلین کے نفیس ذوقِ مطالعہ کے لیے پیش ہے۔
اگرچہ ستیہ پال آنند نے اپنی نو مطبوعہ سوانح کا عنوان رکھا ہے‘‘ کتھا جنموں کی’’ لیکن اکیاسی برسوں پر پھیلی اس اس کتھا کا خالق شاید اب پانچویں جنم میں داخل ہوچکا ہے، ایک انگریزی شاعر کے روپ میں۔حال ہی میں ستیہ پال کے انگریزی شاعری کے پانچ مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں جن میں بیشتر نظمیں ان کی اردو نظموں کے تراجم ہیں۔ ویسے تو انگریزی کے پروفیسر اور مصنف کی حیثیت سے یہ ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں مگر شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار، اور محقق کے علاوہ انگریزی شاعری بھی اب ان کی نئی پہچان ہے۔ یہ ان کا پانچواں جنم ہو یا نہ ہو مگر یہ تو طے ہے کہ ان کی زندگی کا پہلا اور آخری عشق بی وی یعنی بلینک ورس ( Blank Verse) ہی ہے! اردو نظموں کی صورت میں اپنی اس محبوبہ کو انہوں نے اس والہانہ انداز مین چاہا ہے کہ اب وہ خود بھی اس کی پہچان بن گئے ہیں۔
پانچ سو سے زیادہ صفحات کی اس ضخیم کتاب کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے قاری کو احساس ہوتا ہے کہ وہ دراصل اردو ادب کی پوری تاریخ پڑھ گیا ہےاور بقول ستیہ پال یہ ان کی سوانح نہیں ان کی پوری عمر پر پھیلی یادداشت ہے جو چار صفحوں پر مشتمل ہے۔کتاب کا پہلا حصہ پاکستانی پنجاب میں ان کی ابتدائی زندگی اور بٹوارے کے بعد ہندوستان تک ان کی ہجرت کی داستان ہےجب وہ صرف تیرہ برس کے نوجوان تھے۔ دوسرا حصہ حصولِ علم، معاشی جد وجہد، تیسرا حصہ برصغیر میں ان کی علمی و ادبی سرگرمیاں اور آخری حصہ دنیا بھر میں ان کی ہجرتوں کے طویل سلسلوں کا تذکرہ ہے۔ زندگی کی ان چار منزلوں کو طے کرتے ہوئے اب وہ اکیاسی برس کی عمر میں واشنگٹن میں قیام پزیر ہیں جہاں ان کا قلم جو اب کمپیوٹر کی شکل اختیار کرگیا ہے، اسی طرح رواں دواں ہے جس طرح پچاس سال پہلے تھا۔ اس طویل سفر کے دوران اس قلم نے پچاس سے زیادہ کتابیں اردو، ہندی، انگریزی اور پنجابی میں تخلیق کی ہیں۔ مجموعی طور پر اردو میں کئی معیاری سوانح تخلیق ہوئی ہیں لیکن ستیہ پال کی اس نئی سوانح کو اس لحاظ سے ہمیشہ فوقیت حاصل رہے گی کہ یہ تازہ تصنیف ایک پورے عہد کی علمی و ادبی تاریخ ہے جس کی بنیاد سچت جذبے ، بے باک پیرایہٗ اظہار اور دانشورانہ تجربے پر رکھی گئی ہے۔
ان کا پہلا جنم ان کی ابتدائی زندگی ، چکوال کے ایک قصبے کوٹ سارنگ کی یادوں اور پھر بٹوارے کے دوران اذیت ناک ہجرت کے واقعات پر مشتمل ہے جس مین ان کے والد بھی فسادات کی نظر ہوگئے تھے۔ مصنف نے اپنی ابتدائی زندگی کی اس داستان کو ڈاکوفکشن ( Docufiction) کی تکنیک یعنی دستاویزی کہانی کے ذریعے بیان کیاہے۔ جس سے کہا نی کا تاثر اور بھی گہرا ہوگیا ہے۔ یہ ان کی ابتدائی زندگی کی روداد کے علاوہ اس دور کے معاشرتی روابط پر بے لاگ تبصرہ بھی ہے، جس کی خصوصیت بھائی چارے کی وہ فضا ہے جس میں ہندو، مسلم ، عیسائی اور سکھ سب مل جل کر رہتے اور ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے مگر دیکھتے ہی دیکھتے سب نفرتوں کی آگ میں اس طرح جھلستے ہیں کہ ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔ ان کا دوسرا جنم ہجرت کے بعد ہندوستانی پنجاب میں ان کی معاشی جد و جہد اور ایک پبلشنگ کمپنی میں ملازمت ہے جہاں وہ اردو ہندی تراجم، افسانے اور ناول نگاری کے ذریعے خاندان کی پرورش کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی دوران وہ نہ صرف اپنے خاندان کی کفالت بلکہ منشی فاضل ، ایم اے اور پی ایچ ڈی مکمل کرکے انگریزی ادب کے پروفیسر بن جاتے ہیں۔ ابتدائی طور پر وہ اردو کے ناول نگار اور افسانہ نگار کی حیثیت سے ابھرے اور ۱۹۵۱ سے ۱۹۶۰ تک چار ناول، افسانوں کے دو مجموعے تخلیق کیے جن میں تجرباتی ناول چوک گھنٹہ گھر بھی شامل ہے۔، جس پر حکومتِ وقت نے پابندی بھی عائد کی ۔ اس جنم کا بیشتر حصہ ان کی دانشورانہ چپقلشوں اور ادبی معرکوں پر مبنی ہے۔ ستیہ پال کا چوتھا جنم ان کی زندگی کا وہ ورق ہے جو انہوں نے برطانیہ ، کینیڈا ، سعودی عرب، یورپ اور پھر امریکہ میں گزارا۔ یہ جنم دراصل ان کی اولین ہجرت کے بعد نقل مکانیوں کے طویل سلسلوں کی کڑیاں ہیں جن میں وہ ایک تجربہ کار مصنف، معروف شاعر اور انگریزی اسکالر کی حیثیت سے اپنا سکہ منوا چکے ہیں۔ چار جنموں کی یہ کتھا قاری کو اردو اور ہندی ادب کے قلم کاروں ، ان کے رجحانات اور خیالات سے بھی روشناس کراتی ہے جس کے توسط سے مصنف نے ان ادیبوں کے فکری اسلوب اپنے تبصروں کے ساتھ قاری تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ اپنے بیباکانہ انداز میں انہوں نے کئی نامور لکھاریوں کو اپنی سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے جن میں سے بیشتر ترقی پسند شاعر یا نثر نگار ہی ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا اور تلوک چند محروم کی طرح ہندی اور اردو مصنفین میں صرف چند ہی خوش قسمت ہوں گے جو ان کی تنقیدی نظر سے بچ نکلے ہوں ۔ وزیر آغا کے متعلق ، جن کے ادبی مقام سے وہ ہمیشہ متاثر رہے ہیں، لکھتے ہیں:
‘‘میں ان کی شخصیت سے اتنا مرعوب تھا کہ کسی ادبی مسئلے پر اپنی رائے لکھنے سے پہلے خوب غور و خوص کیاکرتا ، یہاں تک کہ خط لکھنے کے بعد بھی ہر ایک جملے کو بار بار پڑھتا مبادا کہ کوئی غلط بات نہ لکھی جائے۔ ’’
اس کے برعکس وہ فیض احمد فیض کے بارے میں کہتے ہیں :
‘‘ ‘ مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ’ یا اس جیسے غنائی نغمے فیض نے انقلاب کو رومان کی آنکھ سے دیکھنے کے لیے ہی تو لکھے ہیں۔ لیکن ان سے عوام کی کیا خدمت ہوسکتی ہے؟’’
ممتاز ناول نگار شوکت صدیقی پر تبصرہ کچھ اس انداز میں کرتے ہیں :
‘‘جس شخص کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ وہ سوتے ہوئے بھی ایک قلم سرہانے، ایک قلم ٹیبل لیمپ کے ساتھ اور ایک کان میں اٹکا کر رکھتا ہے، اس کے لیے کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ اپنی گوں نا گوں مصروفیتوں کے ساتھ تخلیقی کام بھی جاری رکھتا ؟’’
افسانہ نگار کرشن چندر کے ایک ناول پر ان کی تنقید کچھ یوں ہے:
‘‘ وہ ایک فاش غلطی کے مرتکب ہوئے یعنی اپنے ہیرو کے انتخاب میں بھی وہ چوک گئے۔ راگھو راؤ ہیرو کا نام ہتے اور یہ نام اونچے برہمن گھرانوں میں پایا جاتا ہے، کھیت مزدوروں مین نہیں۔’’
البتہ ایک اور جدید شاعر ساقی فاروقی کے متعلق ان کی رائے اتنی منفی نہیں۔
‘‘ میں اس شخص کی قدر کرتا ہوں جو انگلستان جیسے اردو کُش ملک میں رہتا ہو، ایک عدد جرمن بیوی سے بیاہا ہونے کے باوجود ابھی تک Ossify نہیں ہوپایا۔’’
شاید یہ کہنا زیادہ بہتر ہو کہ یہ یاد داشت دراصل مصنف کی ذاتی زندگی ، انفرادی روداد اور خاندانی حالات پر نہیں اس کی ادبی زندگی پر لکھی گئی ہے۔ کتاب کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں مصنف نے جن چیدہ چیدہ ادبی مسائل پر نظر ڈالی ہے وہ ان کی انجمن ترقی پسند مصنفین سے وابستگی اور پھر علیحدگی ، غزل سے ان کی بیزاری ، نظم سے بے لوث لگاؤ، اور بیشتر ترقی پسند اردو ادیبوں سے ان کے نظریاتی اختلافات ہیں۔
وہ ہجرت کے بعد ہندوستانی پنجاب منتقل ہوئے تو ان کا ابتدائی حوالہ انجمن ِترقی پسند مصنفین ہی تھا لیکن کچھ عرصے بعد ہی نظریاتی اور ذاتی بنیادوں پر ان کے اختلافات بھی سامنے آگئے۔ ہوا یوں کہ وہ اایک اردو ادیب کی حیثیت سے پنجاب پہنچے تھے، اور چونکہ پنجابی ادب یہاں سکہٗ رائج الوقت تھا، ان کی پذیرائی بھی خاص نہیں ہوئی۔
(جاری ہے)
ستیہ پال آنند کا پانچواں جنم اور پہلا عشق
ڈاکٹر قیصر عباس
ڈاکٹر قیصر عباس
اگرچہ ستیہ پال آنند نے اپنی نو مطبوعہ سوانح کا عنوان رکھا ہے‘‘ کتھا جنموں کی’’ لیکن اکیاسی برسوں پر پھیلی اس اس کتھا کا خالق شاید اب پانچویں جنم میں داخل ہوچکا ہے، ایک انگریزی شاعر کے روپ میں۔حال ہی میں ستیہ پال کے انگریزی شاعری کے پانچ مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں جن میں بیشتر نظمیں ان کی اردو نظموں کے تراجم ہیں۔ ویسے تو انگریزی کے پروفیسر اور مصنف کی حیثیت سے یہ ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں مگر شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار، اور محقق کے علاوہ انگریزی شاعری بھی اب ان کی نئی پہچان ہے۔ یہ ان کا پانچواں جنم ہو یا نہ ہو مگر یہ تو طے ہے کہ ان کی زندگی کا پہلا اور آخری عشق بی وی یعنی بلینک ورس ( Blank Verse) ہی ہے! اردو نظموں کی صورت میں اپنی اس محبوبہ کو انہوں نے اس والہانہ انداز مین چاہا ہے کہ اب وہ خود بھی اس کی پہچان بن گئے ہیں۔
پانچ سو سے زیادہ صفحات کی اس ضخیم کتاب کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے قاری کو احساس ہوتا ہے کہ وہ دراصل اردو ادب کی پوری تاریخ پڑھ گیا ہےاور بقول ستیہ پال یہ ان کی سوانح نہیں ان کی پوری عمر پر پھیلی یادداشت ہے جو چار صفحوں پر مشتمل ہے۔کتاب کا پہلا حصہ پاکستانی پنجاب میں ان کی ابتدائی زندگی اور بٹوارے کے بعد ہندوستان تک ان کی ہجرت کی داستان ہےجب وہ صرف تیرہ برس کے نوجوان تھے۔ دوسرا حصہ حصولِ علم، معاشی جد وجہد، تیسرا حصہ برصغیر میں ان کی علمی و ادبی سرگرمیاں اور آخری حصہ دنیا بھر میں ان کی ہجرتوں کے طویل سلسلوں کا تذکرہ ہے۔ زندگی کی ان چار منزلوں کو طے کرتے ہوئے اب وہ اکیاسی برس کی عمر میں واشنگٹن میں قیام پزیر ہیں جہاں ان کا قلم جو اب کمپیوٹر کی شکل اختیار کرگیا ہے، اسی طرح رواں دواں ہے جس طرح پچاس سال پہلے تھا۔ اس طویل سفر کے دوران اس قلم نے پچاس سے زیادہ کتابیں اردو، ہندی، انگریزی اور پنجابی میں تخلیق کی ہیں۔ مجموعی طور پر اردو میں کئی معیاری سوانح تخلیق ہوئی ہیں لیکن ستیہ پال کی اس نئی سوانح کو اس لحاظ سے ہمیشہ فوقیت حاصل رہے گی کہ یہ تازہ تصنیف ایک پورے عہد کی علمی و ادبی تاریخ ہے جس کی بنیاد سچت جذبے ، بے باک پیرایہٗ اظہار اور دانشورانہ تجربے پر رکھی گئی ہے۔
ان کا پہلا جنم ان کی ابتدائی زندگی ، چکوال کے ایک قصبے کوٹ سارنگ کی یادوں اور پھر بٹوارے کے دوران اذیت ناک ہجرت کے واقعات پر مشتمل ہے جس مین ان کے والد بھی فسادات کی نظر ہوگئے تھے۔ مصنف نے اپنی ابتدائی زندگی کی اس داستان کو ڈاکوفکشن ( Docufiction) کی تکنیک یعنی دستاویزی کہانی کے ذریعے بیان کیاہے۔ جس سے کہا نی کا تاثر اور بھی گہرا ہوگیا ہے۔ یہ ان کی ابتدائی زندگی کی روداد کے علاوہ اس دور کے معاشرتی روابط پر بے لاگ تبصرہ بھی ہے، جس کی خصوصیت بھائی چارے کی وہ فضا ہے جس میں ہندو، مسلم ، عیسائی اور سکھ سب مل جل کر رہتے اور ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے مگر دیکھتے ہی دیکھتے سب نفرتوں کی آگ میں اس طرح جھلستے ہیں کہ ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔ ان کا دوسرا جنم ہجرت کے بعد ہندوستانی پنجاب میں ان کی معاشی جد و جہد اور ایک پبلشنگ کمپنی میں ملازمت ہے جہاں وہ اردو ہندی تراجم، افسانے اور ناول نگاری کے ذریعے خاندان کی پرورش کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی دوران وہ نہ صرف اپنے خاندان کی کفالت بلکہ منشی فاضل ، ایم اے اور پی ایچ ڈی مکمل کرکے انگریزی ادب کے پروفیسر بن جاتے ہیں۔ ابتدائی طور پر وہ اردو کے ناول نگار اور افسانہ نگار کی حیثیت سے ابھرے اور ۱۹۵۱ سے ۱۹۶۰ تک چار ناول، افسانوں کے دو مجموعے تخلیق کیے جن میں تجرباتی ناول چوک گھنٹہ گھر بھی شامل ہے۔، جس پر حکومتِ وقت نے پابندی بھی عائد کی ۔ اس جنم کا بیشتر حصہ ان کی دانشورانہ چپقلشوں اور ادبی معرکوں پر مبنی ہے۔ ستیہ پال کا چوتھا جنم ان کی زندگی کا وہ ورق ہے جو انہوں نے برطانیہ ، کینیڈا ، سعودی عرب، یورپ اور پھر امریکہ میں گزارا۔ یہ جنم دراصل ان کی اولین ہجرت کے بعد نقل مکانیوں کے طویل سلسلوں کی کڑیاں ہیں جن میں وہ ایک تجربہ کار مصنف، معروف شاعر اور انگریزی اسکالر کی حیثیت سے اپنا سکہ منوا چکے ہیں۔ چار جنموں کی یہ کتھا قاری کو اردو اور ہندی ادب کے قلم کاروں ، ان کے رجحانات اور خیالات سے بھی روشناس کراتی ہے جس کے توسط سے مصنف نے ان ادیبوں کے فکری اسلوب اپنے تبصروں کے ساتھ قاری تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ اپنے بیباکانہ انداز میں انہوں نے کئی نامور لکھاریوں کو اپنی سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے جن میں سے بیشتر ترقی پسند شاعر یا نثر نگار ہی ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا اور تلوک چند محروم کی طرح ہندی اور اردو مصنفین میں صرف چند ہی خوش قسمت ہوں گے جو ان کی تنقیدی نظر سے بچ نکلے ہوں ۔ وزیر آغا کے متعلق ، جن کے ادبی مقام سے وہ ہمیشہ متاثر رہے ہیں، لکھتے ہیں:
‘‘میں ان کی شخصیت سے اتنا مرعوب تھا کہ کسی ادبی مسئلے پر اپنی رائے لکھنے سے پہلے خوب غور و خوص کیاکرتا ، یہاں تک کہ خط لکھنے کے بعد بھی ہر ایک جملے کو بار بار پڑھتا مبادا کہ کوئی غلط بات نہ لکھی جائے۔ ’’
اس کے برعکس وہ فیض احمد فیض کے بارے میں کہتے ہیں :
‘‘ ‘ مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ’ یا اس جیسے غنائی نغمے فیض نے انقلاب کو رومان کی آنکھ سے دیکھنے کے لیے ہی تو لکھے ہیں۔ لیکن ان سے عوام کی کیا خدمت ہوسکتی ہے؟’’
ممتاز ناول نگار شوکت صدیقی پر تبصرہ کچھ اس انداز میں کرتے ہیں :
‘‘جس شخص کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ وہ سوتے ہوئے بھی ایک قلم سرہانے، ایک قلم ٹیبل لیمپ کے ساتھ اور ایک کان میں اٹکا کر رکھتا ہے، اس کے لیے کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ اپنی گوں نا گوں مصروفیتوں کے ساتھ تخلیقی کام بھی جاری رکھتا ؟’’
افسانہ نگار کرشن چندر کے ایک ناول پر ان کی تنقید کچھ یوں ہے:
‘‘ وہ ایک فاش غلطی کے مرتکب ہوئے یعنی اپنے ہیرو کے انتخاب میں بھی وہ چوک گئے۔ راگھو راؤ ہیرو کا نام ہتے اور یہ نام اونچے برہمن گھرانوں میں پایا جاتا ہے، کھیت مزدوروں مین نہیں۔’’
البتہ ایک اور جدید شاعر ساقی فاروقی کے متعلق ان کی رائے اتنی منفی نہیں۔
‘‘ میں اس شخص کی قدر کرتا ہوں جو انگلستان جیسے اردو کُش ملک میں رہتا ہو، ایک عدد جرمن بیوی سے بیاہا ہونے کے باوجود ابھی تک Ossify نہیں ہوپایا۔’’
شاید یہ کہنا زیادہ بہتر ہو کہ یہ یاد داشت دراصل مصنف کی ذاتی زندگی ، انفرادی روداد اور خاندانی حالات پر نہیں اس کی ادبی زندگی پر لکھی گئی ہے۔ کتاب کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں مصنف نے جن چیدہ چیدہ ادبی مسائل پر نظر ڈالی ہے وہ ان کی انجمن ترقی پسند مصنفین سے وابستگی اور پھر علیحدگی ، غزل سے ان کی بیزاری ، نظم سے بے لوث لگاؤ، اور بیشتر ترقی پسند اردو ادیبوں سے ان کے نظریاتی اختلافات ہیں۔
وہ ہجرت کے بعد ہندوستانی پنجاب منتقل ہوئے تو ان کا ابتدائی حوالہ انجمن ِترقی پسند مصنفین ہی تھا لیکن کچھ عرصے بعد ہی نظریاتی اور ذاتی بنیادوں پر ان کے اختلافات بھی سامنے آگئے۔ ہوا یوں کہ وہ اایک اردو ادیب کی حیثیت سے پنجاب پہنچے تھے، اور چونکہ پنجابی ادب یہاں سکہٗ رائج الوقت تھا، ان کی پذیرائی بھی خاص نہیں ہوئی۔
(جاری ہے)
آخری تدوین: