محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
سجادگان ِ ہجر کی صحبت میں مر گیا
زندہ وہی رہا جو محبت میں مر گیا
کتنی جڑی ہوئی تھی کسی سے یہ اپنی سانس
وہ خواب میں مرا ، میں حقیقت میں مر گیا
تم خوش نصیب تھےکہ عدالت تلک گئے
میں تو سپاہیوں کی حراست میں مر گیا
اتنی بڑھا نہ عشوہ و غمزہ کی داستاں
میں تجھ پہ یونہی یار،مروت میں مر گیا
دیکھا تھااُس کو بام پہ مسجد کے صحن سے
یعنی کہ میں خداکی حفاطت میں مر گیا
منصور اک فقیر مرے نام کا کہیں
پھر دشتِ بے اماں کی مسافت میں مر گیا
منصور آفاق
زندہ وہی رہا جو محبت میں مر گیا
کتنی جڑی ہوئی تھی کسی سے یہ اپنی سانس
وہ خواب میں مرا ، میں حقیقت میں مر گیا
تم خوش نصیب تھےکہ عدالت تلک گئے
میں تو سپاہیوں کی حراست میں مر گیا
اتنی بڑھا نہ عشوہ و غمزہ کی داستاں
میں تجھ پہ یونہی یار،مروت میں مر گیا
دیکھا تھااُس کو بام پہ مسجد کے صحن سے
یعنی کہ میں خداکی حفاطت میں مر گیا
منصور اک فقیر مرے نام کا کہیں
پھر دشتِ بے اماں کی مسافت میں مر گیا
منصور آفاق