اسامہ جمشید
محفلین
سجا کہ برقع لگا کہ خوشبو وہ آج محفل میں آ گئے ہیں
سنبھل سنبھل کر میں تک رہا ہوں وہ خوبصورت جو چھا گئے ہیں
بہت دنوں سے اداس تھا میں بہت دنوں سے تڑپ رہا تھا
بہک گیا ہوں میں گر پڑا ہوں وہ آج اتنی پلا گئے ہیں
میں جل رہا ہوں میں بجھ رہا ہوں مچل مچل کر مچل رہا ہوں
میں کیا بتاؤں کہ آگ کیسی وہ بے خودی میں لگا گئے ہیں
میں بن بلائے پہنچ گیا ہوں کسی نے میری نہ ذات پوچھی
وہ جن پہ جمشید ہم تھے نازاں وہ دل ہمارا دکھا گئے ہیں