محمد اطھر طاھر
محفلین
مجھے نہ دیکھو
میں بے زماں بے مکاں، اُداسی کے کھردرے ہاتھ سے
تراشیدہ و سنگ زادہ۔۔
میرے بدن پر قبائے سادہ۔۔
میں خواہشوں کے ہجوم میں بھی
خود اپنے خوابوں کا آدمی ہوں۔۔
میں کتنی صدیوں کی بے بسی ہوں
سجے ہوئے شہر کے مکینو!!
مجھے نہ دیکھو میں اجنبی ہوں،
میں اجنبی ہوں۔
خود اپنے بیتے ہوئے ماہ وسال کی خراشوں سے۔
میرے قبیلے پہ ہجرتوں کے سفر میں
شبخوں۔۔۔۔ ہوا نے مارا
میرے پس و پیش دھوپ ہی دھوپ ناچتی ہے۔۔
میرے یمین و یسار لاشوں کے سرخ ٹیلے۔۔
میں کس کا م ماتم کروں عزیزو؟؟
میں کس کو آواز دوں۔۔۔
کہ میں تمام لاشوں سے اجنبی ہوں۔۔
سجے ہوئے شہر کے مکینوں
مجھے نہ دیکھو
کہ میرا سایہ۔۔
تمہاری رنگوں نہائی صبحیں،
چبا نہ ڈالے،
کہ میرا سایہ ۔۔
کسی کھنڈر میں پرانی محراب کا دیا ہے۔۔
نہ میرے سینے میں روشنی ہے۔۔
نہ میرے لب پر کوئی دعا ہے۔۔
سجے ہوئے شہر کے مکینو!!
مجھے نہ دیکھو۔۔
میرے کٹی انگلیوں کی زد میں۔۔
قلم کی جنبش! تراشتی ہے۔۔
تمام نوحے اداسیوں کے۔۔
تمام لہجے! اُجاڑ بستی کے باسیوں کے۔۔
مجھے نہ دیکھو کہ میری آنکھیں۔۔
اجاڑ صدیوں کے زائچے ہیں۔۔
کہ میرے ہونٹوں پہ۔۔
موت کو پھانکتی ہواوں کے ذائقے ہیں۔۔
سجے ہوئے شہر کے مکینو۔۔
مجھے نہ دیکھو!!
میں اپنی میت کا آپ وارث!!
میں اپنے بے آسرا لہو کا۔۔
خود آپ "برزخ"
میرے نقش میں اترتی صبحوں،
بکھرتی شاموں کی خودکشی ہے۔۔
ذر کرو میری قربتوں سے۔۔
کہ میرا ماحول دوزخی ہے۔۔
سجے ہوئے شہر کے مکینو۔۔
مجھے نہ دیکھو!! مجھے نہ چھیڑو!!
نہ میرے دکھ کا سفر کرو تم!!
ہوا اتنی خبر کرو تم!!
ہوا جو مجھ سے الجھ رہی ہے!!
ہوا جو مٹی میں دفن ہوتی اداسی سے اجنبی ہے۔۔
ہوا جو رستے مٹا رہی ہے۔۔
سجے ہوئے شہر کے مکینوں۔۔
مجھے نہ دیکھو۔۔
شاعر کی تلاش ہے۔۔ ازراہ کرم اس شاعر کا نام بتا دیں اور کا باقی کا کلام بھی۔۔
محمد اطہر طاہر ہارون آباد۔۔
میں بے زماں بے مکاں، اُداسی کے کھردرے ہاتھ سے
تراشیدہ و سنگ زادہ۔۔
میرے بدن پر قبائے سادہ۔۔
میں خواہشوں کے ہجوم میں بھی
خود اپنے خوابوں کا آدمی ہوں۔۔
میں کتنی صدیوں کی بے بسی ہوں
سجے ہوئے شہر کے مکینو!!
مجھے نہ دیکھو میں اجنبی ہوں،
میں اجنبی ہوں۔
خود اپنے بیتے ہوئے ماہ وسال کی خراشوں سے۔
میرے قبیلے پہ ہجرتوں کے سفر میں
شبخوں۔۔۔۔ ہوا نے مارا
میرے پس و پیش دھوپ ہی دھوپ ناچتی ہے۔۔
میرے یمین و یسار لاشوں کے سرخ ٹیلے۔۔
میں کس کا م ماتم کروں عزیزو؟؟
میں کس کو آواز دوں۔۔۔
کہ میں تمام لاشوں سے اجنبی ہوں۔۔
سجے ہوئے شہر کے مکینوں
مجھے نہ دیکھو
کہ میرا سایہ۔۔
تمہاری رنگوں نہائی صبحیں،
چبا نہ ڈالے،
کہ میرا سایہ ۔۔
کسی کھنڈر میں پرانی محراب کا دیا ہے۔۔
نہ میرے سینے میں روشنی ہے۔۔
نہ میرے لب پر کوئی دعا ہے۔۔
سجے ہوئے شہر کے مکینو!!
مجھے نہ دیکھو۔۔
میرے کٹی انگلیوں کی زد میں۔۔
قلم کی جنبش! تراشتی ہے۔۔
تمام نوحے اداسیوں کے۔۔
تمام لہجے! اُجاڑ بستی کے باسیوں کے۔۔
مجھے نہ دیکھو کہ میری آنکھیں۔۔
اجاڑ صدیوں کے زائچے ہیں۔۔
کہ میرے ہونٹوں پہ۔۔
موت کو پھانکتی ہواوں کے ذائقے ہیں۔۔
سجے ہوئے شہر کے مکینو۔۔
مجھے نہ دیکھو!!
میں اپنی میت کا آپ وارث!!
میں اپنے بے آسرا لہو کا۔۔
خود آپ "برزخ"
میرے نقش میں اترتی صبحوں،
بکھرتی شاموں کی خودکشی ہے۔۔
ذر کرو میری قربتوں سے۔۔
کہ میرا ماحول دوزخی ہے۔۔
سجے ہوئے شہر کے مکینو۔۔
مجھے نہ دیکھو!! مجھے نہ چھیڑو!!
نہ میرے دکھ کا سفر کرو تم!!
ہوا اتنی خبر کرو تم!!
ہوا جو مجھ سے الجھ رہی ہے!!
ہوا جو مٹی میں دفن ہوتی اداسی سے اجنبی ہے۔۔
ہوا جو رستے مٹا رہی ہے۔۔
سجے ہوئے شہر کے مکینوں۔۔
مجھے نہ دیکھو۔۔
شاعر کی تلاش ہے۔۔ ازراہ کرم اس شاعر کا نام بتا دیں اور کا باقی کا کلام بھی۔۔
محمد اطہر طاہر ہارون آباد۔۔