نوید صادق
محفلین
غزل
سحرِ آئینہ کچھ ایسا ہے کہ ڈر پیدا ہو
بول کچھ بول کہ دیوار میں در پیدا ہو
پھر وہی سلسلہء نقشِ قدم دکھلا دے
چشمکِ برقِ رواں، بارِ دگر پیدا ہو
دل وہ پاگل ہے کہ ہو جائے گا غرقاب وہیں
جھیل کی تہہ میں اگر عکسِ قمر پیدا ہو
حسن ہے حسن وہی جس کے مقابل آ کر
دیدہء کور میں بھی تارِ نظر پیدا ہو
ہم نمائش کے تو قائل نہیں لیکن خورشید
خود کو پنہاں بھی زمانے سے نہ کر، پیدا ہو
شاعر: خورشید رضوی
مجموعہ کلام: امکان
سحرِ آئینہ کچھ ایسا ہے کہ ڈر پیدا ہو
بول کچھ بول کہ دیوار میں در پیدا ہو
پھر وہی سلسلہء نقشِ قدم دکھلا دے
چشمکِ برقِ رواں، بارِ دگر پیدا ہو
دل وہ پاگل ہے کہ ہو جائے گا غرقاب وہیں
جھیل کی تہہ میں اگر عکسِ قمر پیدا ہو
حسن ہے حسن وہی جس کے مقابل آ کر
دیدہء کور میں بھی تارِ نظر پیدا ہو
ہم نمائش کے تو قائل نہیں لیکن خورشید
خود کو پنہاں بھی زمانے سے نہ کر، پیدا ہو
شاعر: خورشید رضوی
مجموعہ کلام: امکان