سحر نو - خود کلامی

ہوا روشن کوئی پهر سے سویرا
ڈهلا ہے اب جو تها غم کا اندھیرا

سجا لے خواب آنکھوں میں نئے سے
ہوا پهر دل میں الفت کا بسیرا

تیرے ہیں ان بہاروں کے سبهی رنگ
سبهی کلیوں پہ اب حق بهی ہے تیرا

وہ بیتے رنج و غم سب کو بهلا دے
کہ سوتا جاگ اٹها ہے نصیب تیرا
 

الف عین

لائبریرین
یہ برائے اصلاح نہیں ہے، پھر بھی اتنا تو کہہ ہی دوں کہ آخری مصرع بحر سے خارج ہے۔
تیسرے شعر کا پہلا مصرع ’ترا‘ ہوگا، مکمل ’تیرا‘ نہیں۔
 
Top